Daily Ausaf:
2025-09-18@15:57:41 GMT

خواندگی کا عالمی دن

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

کسی نے کہا تھا کہ’’علم جب اتنا مغرور ہو جائے کہ رو نہ سکے،جب اتنا سنگین ہو جائے کہ مسکرا نہ سکے اور اتنا خود غرض ہوجائے کہ کسی کی مجبوری کا ادراک نہ کر سکے ۔تب وہ جہل سے زیادہ خطر ناک ہوجاتا ہے‘‘۔
یہ ایک آئینہ ہے جو اس اظہاریئے میں دکھایا جارہا ہے ۔ہر سال 24 جنوری کو عالمی سطح پر خواندگی کا دن منایا جاتا ہے ،اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد د نیا کے تمام بچوں کے لئے مساوی اور معیاری تعلیم کے حصول کی طرف دنیا کے تمام ممالک کی توجہ مبذول کرائی جائے ۔پاکستان میں تعلیم کا عالمی دن پہلی بار 24 جنوری2019 ء کومنایا گیا ۔
ملک میں خواندگی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم نے سینٹ کے ایک اجلاس میں یہ کہہ کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ’’پاکستان میں شرح خواندگی60 فیصد سے کم ہوکر 58 فیصد ہوگئی ہے ‘‘ تاہم یہ بات پاکستانی عوام کے لئے کسی اچنبھے کا باعث نہیں بنی کہ یہاں کے حکمران اول دن سے ہر معاملے میں عوام کو اندھیروں میں رکھنے کے عاد ی رہے ہیں۔
پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا میں ہوتا ہے ،یہ خطہ تاریخی،ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔اس میں پاکستان کے علاوہ انڈیا،بنگلہ دیش ‘ نیپال،سری لنکا،مالدیپ، افغانستان اور بھوٹان شامل ہیں ۔جنوبی ایشیا میں شرح خواندگی کے حوالے سے مالدیپ سب سے آگے ہے ۔ 2022 ء کی مردم شماری کے مطابق مالدیپ کی کل آبادی515,122 نفوس پر مشتمل ہے اور اس کی خواندگی کی شرح 99فیصد ہے ،دوسرے نمبر پر سری لنکا ہے جس کی شرح خواندگی 91 فیصد ہے جبکہ اس کی آبادی تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 22 ملین ہے ۔چوتھے نمبر پر بنگلہ دیش ہے ۔ 16کروڑ آبادی کے اس مسل مملک کی شرح خواندگی 75 فیصد ہے ۔اس کے بعد بھارت کانمبر آتا ہے جس کی آبادی 140کروڑ ہے اور شرح خواندگی 74فیصد ہے ۔نیپال کی آبادی تین کروڑ ہے اور شرح خواندگی 67 فیصد ہے ۔بھوٹان کی آبادی 8لاکھ ہے جبکہ شرح خواندگی 66 فیصد ہے۔ خطے کا 24 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کی شرح خواندگی 59 فیصد ہے اور افغانستان جو ہمیشہ سے جنگ و جدل میں رہا ہے اس کی موجودہ آبادی 4 کروڑ ہے اور خواندگی کی شرح 37 فیصد ہے ۔
اب ذرا مغربی ایشیا کے خطے پر نظر دوڑاتے ہیں جو مشرق وسطی بھی کہلاتا ہے ۔ایشیا کے انتہائی مغرب میں ہونے کی وجہ سے مغربی ایشیا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس میں آذربائیجان ، آرمینیا، ایران،اردن ،لبنان ، جارجیا ، بحرین ، عمان ، شام ، سعودی عرب، عراق،قبرص۔ قطر،کویت ، یمن اور متحدہ امارات شامل ہیں ۔یہ خطہ تیل کی دولت سے مالامال ممالک پر مشتمل ہے مگر یہاں نالغوں کی شرح خواندگی اٹھاون اعشاریہ چھ فیصد ہے جو کہ دنیا کے پست ترین خطوں میں گنی جاتی ہے۔بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں تعلیمی ترقی کے حوالے سے شرح خواندگی میں بہت زیادہ بعد ہے ۔
سرسید نے کہاتھا کہ ’’جب کوئی قوم فن اور علم سے عاری ہوجاتی ہے تو یہ غربت کو دعوت دیتی ہے اور جب غربت آتی ہے تو ہزاروں جرائم کو جنم دیتی ہے‘‘۔
آج مسلمانوں کی تعلیمی حالت دیکھتے ہوئے ان پر ترس آتا ہے ۔ایک بین الاقوامی سروے کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ’’بائیس عرب ملکوں میں سالانہ تین سو کے قریب کتب کا ترجمہ ہوتا ہے اور ایک غیر مسلم ملک یونان میں سالانہ پانچ گنا زیادہ ترجمے کا کام ہوتا ہے ،اسلامی ممالک میں کئے گئے تمام تراجم مذہبی اور اسلامی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر کام صفر کے برابر ہوتا ہے ۔مسلمان ممالک کی اجتماعی تعلیمی شرح 40 فیصد ہے ۔‘‘ اپنے ایک تحقیقی مقالے میں محترمہ ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی لکھتی ہیں کہ’’ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے بڑھتے قدم میں رخنہ ڈالنے ایک کا بنیادی سبب اساتذہ کرام کی لاپرواہی اور تساہل ہے‘‘۔
دنیا کی 800 کروڑ سے اوپر کی آبادی میں مسلمان ممالک کی شرح خواندگی کم ترین ہے ، گو اب اس شرح میں تبدیلی آرہی ہے مگر یہ اس قدر سست ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔اس کے مقابلے میں ہم یورپ پرنگاہ دوڑائیں تو یہ ایک متنوع براعظم ہے جس میں چوالیس ممالک ہیں جو خواندگی کے اعتبار سے اتنے اوپر ہیں کہ اس وسیع وعریض خطے کے بیشتر ممالک میں خواندگی کی شرح 99فیصد سے بھی اوپر نظر آتی ہے کہ سویڈن، ناروے ، فن لینڈ اور جرمنی وہ ممالک ہیں جن کی تعلیمی شرح پورے 100فیصد ہے۔یہ سب ان کے مربوط ومضبوط تعلیمی نظام کی وجہ سے ہے ۔اس سے سوا اگر مشرقی ایشیا کا مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اس خطے میں جاپان ،شمالی کوریا، جنوبی کوریا، چین،منگولیا،تائیوان ۔چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ اورچین ہی کا خصوصی انتظامی علاقہ مکائو شامل ہیں ۔ان ممالک کی تعلیمی شرح اٹھانوے اور سو فیصد سے کم ہے ہی نہیں۔ اظہاریئے کے آغاز میں کسی دانشور کا قول لکھا ہے۔ اس لئے کہ آئینہ دیکھنے والے ڈریں نہیں اور اس علامتی اقتباس کے ادراک کی کوشش فرمائیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی شرح خواندگی ممالک کی کی آبادی ایشیا کے ہوتا ہے فیصد ہے ہے اور

پڑھیں:

پنجاب میں تباہ کن سیلاب: 112 جاں بحق، 47 لاکھ متاثر: پی ڈی ایم اے

پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مختلف حادثات میں اب تک 112 شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ 4700 سے زائد موضع جات متاثر ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سیلاب کے باعث کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث پنجاب بھر میں 47 لاکھ 21 ہزار افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 26 لاکھ 8 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ متاثرہ اضلاع میں 363 ریلیف کیمپس، 446 میڈیکل کیمپس اور 382 ویٹرنری کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق منگلا ڈیم 94 فیصد اور تربیلا ڈیم 100 فیصد تک بھر چکے ہیں، جبکہ بھارت میں دریائے ستلج پر واقع بھاکڑا ڈیم 88 فیصد، پونگ ڈیم 94 فیصد اور تھین ڈیم 88 فیصد تک بھر چکے ہیں۔پنجاب کے جنوبی علاقوں میں پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ جلال پور پیروالا میں ایم فائیو موٹروے کا بڑا حصہ پانی میں بہہ جانے کے باعث ٹریفک کی روانی دوسرے روز بھی معطل رہی۔شجاع آباد میں سیلاب سے 15 گاؤں متاثر ہوئے تاہم رابطہ سڑکیں بحال ہونے کے بعد لوگ واپس اپنے علاقوں میں جانا شروع ہو گئے ہیں۔ مظفرگڑھ میں دریائے چناب کی سطح معمول پر آ چکی ہے. مگر حالیہ سیلاب سے چار لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ سیلاب نے شیر شاہ پل کے مغربی کنارے کو بھی متاثر کیا۔لیاقت پور میں دریائے چناب کے کنارے ہر طرف تباہی کا منظر ہے۔ پانی کی سطح میں کمی کے باوجود متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور شدید گرمی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

چشتیاں کے 47 گاؤں، راجن پور اور روجھان کے کچے کے علاقے، اور علی پور کے مقام پر ہیڈ پنجند کے قریب دو لاکھ 30 ہزار کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے. جس کے باعث متاثرین کو مزید دشواری کا سامنا ہے۔ادھر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور دیگر وزراء نے علی پور کے نواح میں سیلاب سے متاثرہ چھ دیہات کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران وزارتی ٹیم نے بیت نوروالا، کوٹلہ اگر، کنڈرال، بیت بورارا، لاٹی اور بیٹ ملا میں ریسکیو و ریلیف کارروائی کا جائزہ لیا اور انخلا کے آپریشن کی نگرانی کی۔اس موقع پر متاثرین میں ٹینٹ، راشن، صاف پانی اور جانوروں کے لیے چارہ بھی تقسیم کیا گیا۔ وزراء نے متاثرہ خاندانوں سے بات چیت کی اور دستیاب سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔ متاثرین نے مؤثر اقدامات پر وزیراعلیٰ مریم نواز اور حکومت پنجاب کا شکریہ ادا کیا۔

متعلقہ مضامین

  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • پاکستان سمیت 15 ممالک کا عالمی ثابت قدم "امدادی بیڑے" کی سلامتی پر اظہار تشویش
  • پنجاب میں تباہ کن سیلاب: 112 جاں بحق، 47 لاکھ متاثر: پی ڈی ایم اے
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • مظفرآباد: شہری آبادی میں گھسنے والا تیندوا 2 روز بعد قابو کر لیا گیا
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو کا اعتراف
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو