کسی نے کہا تھا کہ’’علم جب اتنا مغرور ہو جائے کہ رو نہ سکے،جب اتنا سنگین ہو جائے کہ مسکرا نہ سکے اور اتنا خود غرض ہوجائے کہ کسی کی مجبوری کا ادراک نہ کر سکے ۔تب وہ جہل سے زیادہ خطر ناک ہوجاتا ہے‘‘۔
یہ ایک آئینہ ہے جو اس اظہاریئے میں دکھایا جارہا ہے ۔ہر سال 24 جنوری کو عالمی سطح پر خواندگی کا دن منایا جاتا ہے ،اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد د نیا کے تمام بچوں کے لئے مساوی اور معیاری تعلیم کے حصول کی طرف دنیا کے تمام ممالک کی توجہ مبذول کرائی جائے ۔پاکستان میں تعلیم کا عالمی دن پہلی بار 24 جنوری2019 ء کومنایا گیا ۔
ملک میں خواندگی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم نے سینٹ کے ایک اجلاس میں یہ کہہ کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ’’پاکستان میں شرح خواندگی60 فیصد سے کم ہوکر 58 فیصد ہوگئی ہے ‘‘ تاہم یہ بات پاکستانی عوام کے لئے کسی اچنبھے کا باعث نہیں بنی کہ یہاں کے حکمران اول دن سے ہر معاملے میں عوام کو اندھیروں میں رکھنے کے عاد ی رہے ہیں۔
پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا میں ہوتا ہے ،یہ خطہ تاریخی،ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔اس میں پاکستان کے علاوہ انڈیا،بنگلہ دیش ‘ نیپال،سری لنکا،مالدیپ، افغانستان اور بھوٹان شامل ہیں ۔جنوبی ایشیا میں شرح خواندگی کے حوالے سے مالدیپ سب سے آگے ہے ۔ 2022 ء کی مردم شماری کے مطابق مالدیپ کی کل آبادی515,122 نفوس پر مشتمل ہے اور اس کی خواندگی کی شرح 99فیصد ہے ،دوسرے نمبر پر سری لنکا ہے جس کی شرح خواندگی 91 فیصد ہے جبکہ اس کی آبادی تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 22 ملین ہے ۔چوتھے نمبر پر بنگلہ دیش ہے ۔ 16کروڑ آبادی کے اس مسل مملک کی شرح خواندگی 75 فیصد ہے ۔اس کے بعد بھارت کانمبر آتا ہے جس کی آبادی 140کروڑ ہے اور شرح خواندگی 74فیصد ہے ۔نیپال کی آبادی تین کروڑ ہے اور شرح خواندگی 67 فیصد ہے ۔بھوٹان کی آبادی 8لاکھ ہے جبکہ شرح خواندگی 66 فیصد ہے۔ خطے کا 24 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کی شرح خواندگی 59 فیصد ہے اور افغانستان جو ہمیشہ سے جنگ و جدل میں رہا ہے اس کی موجودہ آبادی 4 کروڑ ہے اور خواندگی کی شرح 37 فیصد ہے ۔
اب ذرا مغربی ایشیا کے خطے پر نظر دوڑاتے ہیں جو مشرق وسطی بھی کہلاتا ہے ۔ایشیا کے انتہائی مغرب میں ہونے کی وجہ سے مغربی ایشیا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس میں آذربائیجان ، آرمینیا، ایران،اردن ،لبنان ، جارجیا ، بحرین ، عمان ، شام ، سعودی عرب، عراق،قبرص۔ قطر،کویت ، یمن اور متحدہ امارات شامل ہیں ۔یہ خطہ تیل کی دولت سے مالامال ممالک پر مشتمل ہے مگر یہاں نالغوں کی شرح خواندگی اٹھاون اعشاریہ چھ فیصد ہے جو کہ دنیا کے پست ترین خطوں میں گنی جاتی ہے۔بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں تعلیمی ترقی کے حوالے سے شرح خواندگی میں بہت زیادہ بعد ہے ۔
سرسید نے کہاتھا کہ ’’جب کوئی قوم فن اور علم سے عاری ہوجاتی ہے تو یہ غربت کو دعوت دیتی ہے اور جب غربت آتی ہے تو ہزاروں جرائم کو جنم دیتی ہے‘‘۔
آج مسلمانوں کی تعلیمی حالت دیکھتے ہوئے ان پر ترس آتا ہے ۔ایک بین الاقوامی سروے کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ’’بائیس عرب ملکوں میں سالانہ تین سو کے قریب کتب کا ترجمہ ہوتا ہے اور ایک غیر مسلم ملک یونان میں سالانہ پانچ گنا زیادہ ترجمے کا کام ہوتا ہے ،اسلامی ممالک میں کئے گئے تمام تراجم مذہبی اور اسلامی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر کام صفر کے برابر ہوتا ہے ۔مسلمان ممالک کی اجتماعی تعلیمی شرح 40 فیصد ہے ۔‘‘ اپنے ایک تحقیقی مقالے میں محترمہ ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی لکھتی ہیں کہ’’ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے بڑھتے قدم میں رخنہ ڈالنے ایک کا بنیادی سبب اساتذہ کرام کی لاپرواہی اور تساہل ہے‘‘۔
دنیا کی 800 کروڑ سے اوپر کی آبادی میں مسلمان ممالک کی شرح خواندگی کم ترین ہے ، گو اب اس شرح میں تبدیلی آرہی ہے مگر یہ اس قدر سست ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔اس کے مقابلے میں ہم یورپ پرنگاہ دوڑائیں تو یہ ایک متنوع براعظم ہے جس میں چوالیس ممالک ہیں جو خواندگی کے اعتبار سے اتنے اوپر ہیں کہ اس وسیع وعریض خطے کے بیشتر ممالک میں خواندگی کی شرح 99فیصد سے بھی اوپر نظر آتی ہے کہ سویڈن، ناروے ، فن لینڈ اور جرمنی وہ ممالک ہیں جن کی تعلیمی شرح پورے 100فیصد ہے۔یہ سب ان کے مربوط ومضبوط تعلیمی نظام کی وجہ سے ہے ۔اس سے سوا اگر مشرقی ایشیا کا مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اس خطے میں جاپان ،شمالی کوریا، جنوبی کوریا، چین،منگولیا،تائیوان ۔چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ اورچین ہی کا خصوصی انتظامی علاقہ مکائو شامل ہیں ۔ان ممالک کی تعلیمی شرح اٹھانوے اور سو فیصد سے کم ہے ہی نہیں۔ اظہاریئے کے آغاز میں کسی دانشور کا قول لکھا ہے۔ اس لئے کہ آئینہ دیکھنے والے ڈریں نہیں اور اس علامتی اقتباس کے ادراک کی کوشش فرمائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی شرح خواندگی ممالک کی کی آبادی ایشیا کے ہوتا ہے فیصد ہے ہے اور
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ
اقوام متحدہ کی سب سے بڑی عدالت، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک فوری اور وجودی خطرہ ہے اور جو ممالک اس سے متاثر ہو رہے ہیں وہ قانونی طور پر ہرجانے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
بدھ کے روز جاری اپنے مشاورتی رائے میں عدالت نے کہا کہ وہ ممالک جو ماحولیاتی آلودگی میں ملوث ہیں اور کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کرتے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: لاہور ہائیکورٹ کا اسموگ کیس میں تحریری حکم نامہ جاری، درختوں کے تحفظ اور ماحولیاتی بہتری پر زور
یہ پہلا موقع ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی بحران پر باقاعدہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ عدالت سے 2 اہم سوالات پر رائے مانگی گئی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان ممالک کے لیے کیا قانونی نتائج ہوں گے جو ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں؟
عدالت کے صدر یوچی ایواساوا نے کہا کہ ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا انسانی حق دیگر انسانی حقوق کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ریاست ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کرتی تو یہ بین الاقوامی طور پر ایک غیر قانونی عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔
عدالتی رائے میں کہا گیا کہ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اس کے علاوہ جو ریاستیں ماحولیاتی تبدیلی کے سبب نقصان اٹھا رہی ہیں، انہیں مخصوص حالات میں معاوضہ ملنے کا حق حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی کوئی مفروضہ نہیں، انسانیت کے لیے خطرناک حقیقت ہے، احسن اقبال
واضح رہے کہ حالیہ دنوں امریکا اور پاکستان سمیت دنیا کے متعدد علاقے شدید سیلاب اور تباہ کن بارشوں کی زد میں رہے جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
یاد رہے کہ اس معاملے کا آغاز 2019 میں فجی کے چند قانون کے طلبا نے کیا تھا جن کی مہم کو بحر الکاہل کی ایک چھوٹی مگر متاثرہ ریاست، وانواتو، نے اپنایا اور 2021 میں آئی سی جے سے باضابطہ درخواست کی کہ وہ ماحولیاتی ذمہ داریوں پر مشاورتی رائے دے۔ دسمبر میں 2 ہفتے تک جاری رہنے والی سماعتوں میں 100 سے زائد ممالک اور عالمی تنظیموں نے شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آلودگی سیلاب عالمی عدالت انصاف ماحولیات موسمیاتی تبدیلی