Express News:
2025-06-09@20:52:34 GMT

ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے بارے کہا جاتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے انتخابات جیتتے ہی کہا تھا:’’ اقتدار سنبھالتے ہی مَیں کئی ممالک کی امداد بند کردوں گا۔‘‘اپنے کہے پر موصوف نے یوں عمل کیا ہے کہ صدر بننے کے چند روز بعد(26جنوری کو) اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اُنھوں نے کئی ممالک کی امداد فوراً بند کر دی ہے ۔

مبینہ طور پر اِن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور یوکرائن، تائیوان ، اُردن اور کئی دیگر ممالک بھی ۔امریکی حکام نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ کے اِس حکم سے پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے تقریباً 22منصوبے(تعلیم، زراعت ، صحت اور گورننس) متاثر ہوں گے ۔ ساتھ ہی یہ بھی اُمید دلائی گئی ہے کہ امداد کا یہ تعطل ابتدائی طور پر90ایام کے لیے ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نامزد مشیر، رچرڈ گرینل، نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی بارے پہلے جو ٹویٹ کیا اور پھر امریکی میڈیا کو جو انٹرویو دیا، یہ بھی اِس امر کا مظہر ہے کہ ٹرمپ حکومت کے بعض حکام کے پاکستان حکومت بارے کیا خیالات ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے رچرڈ گرینل کے بیان پر بجا ردِ عمل دیا ہے ۔

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس روز ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے کچھ اداروں کی امداد بند کی، اُسی روز امریکا سے ایک ہائی پاور بزنس وفد پاکستان اُترا۔ اِس وفد ، جس کی سربراہی ٹرمپ خاندان کے ایک قریبی فردGentry Beachکررہے تھے، نے جناب شہباز شریف سے بھی مثبت ملاقاتیں کی ہیں اور پاکستانی میڈیا سے بات چیت کے دوران حوصلہ افزا پیغام دیا ہے ۔ وفد کے سربراہ نے یہ حیران کن بیان بھی دیا ہے کہ رچرڈ گرینل کا بیان دراصل گمراہ کن تھا۔

 ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کی ایک خبر کے مطابق وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کے زیر صدارت پاکستان کے 6سفیروں کا ایک اہم اجلاس ہُوا ہے ۔ اِس میں اِس امر پر غور کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر نئی امریکی انتظامیہ سے کیسے معاملہ کیا جائے ؟ ٹرمپ انتظامیہ اور ٹرمپ کابینہ میں اکثریتی طور پراسرائیل نواز اور بھارت نواز عناصر شامل ہیں ۔ اور یہ قدم ٹرمپ صاحب نے دانستہ اُٹھایا ہے ۔اِس اقدام سے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے’’ سریر آرائے سلطنت‘‘ ہونے سے قبل ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا ۔

بھارت نواز وزرا اور پرو انڈیا منتظمین کے انتخاب کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور چین کے ساتھ کیا معاملات کرنے والے ہیں ۔ اِس کا اظہار ممتاز برطانوی جریدے’’دی اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے مضمون بعنوانXiJingping has much to worry about in 2025 میں بھی یوں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کس طرح چین کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ، جئے شنکر،کی ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ، مایئکل والز، سے تفصیلی ملاقات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اِس پیش بندی کی موجودگی میں پاکستان اور شہباز حکومت کے لیے از بس ضروری ہوگا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی شخصیات ٹرمپ انتظامیہ کے اُبھرتے متوقع طوفانوں کا مقدور بھر مقابلہ کر سکیں ۔ ایسے میں پاکستان کو واشنگٹن میں اپنی نئی لابیاں بھی تشکیل دینا ہوں گی جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔

اقتدار میں آنے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ شام ، حماس ،لبنان اور حزب اللہ کے مسائل سے تقریباً نمٹ چکے تھے ۔یوکرائن بارے ٹرمپ کی خاص توجہ مبذول ہوگی۔ اِس کا واضح اظہار ’’فارن افیئرز‘‘ کے تازہ شمارے میں Alina Polyyakovaکا لکھا آرٹیکل خاصا چشم کشا ہے ۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ٹرمپ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام ہی میں یوکرائن جنگ کو جائز و ناجائز طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اِس وسیع تر اور دُور تک پھیلے عالمی کینوس میں ٹرمپ، پاکستان بارے کیا سوچ رکھتے ہیں، واضح طور پر کچھ کہنا فی الحال دشوار ہے۔ ٹرمپ صاحب مگر اپنے پہلے دَورِ اقتدار میں پاکستان بارے جو سنگین کلمات ادا کر چکے ہیں، وہ تو حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ وہ الفاظ اگر پوری معنویت کے ساتھ ہماری مقتدرہ کے ذہنوں میں محفوظ ہیں تو ہم سب قرائن سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان کو کن خاص نظروں سے دیکھا جارہا ہوگا ۔

لیکن پاکستان کسی بھی طرح امریکا سے دُوری افورڈ نہیں کر سکتا۔ امریکا اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔ 2024 میں امریکا واحد ملک رہا جسے پاکستان نے سب سے زیادہ برآمدات کیں :5 بلین ڈالرز سے زائد ۔ اگلے روز ہمارے اخبارات میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان (جوناتھن لالی) کا جو آرٹیکل شائع ہُوا ہے، اِس سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ پاکستان کی تجارت و ٹریڈ کے لیے امریکا کسقدر اہمیت رکھتا ہے۔ اگر صرف ٹریڈ کی مَد کو ہی پیشِ نگاہ رکھ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم اِس ضمن میں بھی امریکا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

ہماری کمزور معیشت میں ہمیں جس شدت سے ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور فیٹف کی ضرورت ہے، اِس میدان میں بھی ٹرمپ کا امریکا (ناراضی کی صورت میں) پاکستان کے لیے کئی رکاوٹیں اور مسائل ، بآسانی، پیدا کر سکتا ہے ۔ پاکستان کے انتشاری عناصر اور بانی پی ٹی آئی کے پچھلے ڈیڑھ برس سے پسِ دیوارِ زنداں رہنے کو بھی ٹرمپ حکومت سہل انداز میں ایکسپلائیٹ کر سکتی ہے ۔بانی پی ٹی آئی کو احتساب عدالت کی طرف سے14سال کی سزا سنائے جانے کے بعد امریکا میں بروئے کار پی ٹی آئی حکومت کے خلاف زیادہ متحرک ہو چکی ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسے امریکی صدر ہیں جنھوں نے اپنی پہلی صدارتی شکست ( جو بائیڈن کے مقابل) سے بچنے اور بائیڈن کو اقتداری حلف نہ لینے کی کوشش میں Self Coupکا رسک بھی لے لیا تھا ۔ ٹرمپ کو اُمید تھی کہ وہ اپنے سیاسی حامیوں اور وٹروں کی Capitol Hillپر یلغار کروا کر امریکی فوج اور امریکی عدلیہ کی حمائت حاصل کرلے گا۔

اُن کے حامیوں نے امریکی دارالحکومت کی مرکزی عمارت پر حملہ کیا تو سہی مگر ناکام رہے ۔ ٹرمپ کو ’’اندر‘‘ سے مطلوبہ اور متوقع حمائت بھی نہ ملی ۔ اُلٹا امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کے حملہ آور حمائتیوں کو سزائیں دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ایسے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہم کسی بھی منفرد اور پُر خطر اقدام کی اُمید اور توقع رکھ سکتے ہیں ؛ چنانچہ ٹرمپ کی قصرِ ابیض میں پھر سے آ جانے کے بعد دُنیا کے کئی ممالک اگر مشوش ہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسی عالمی صورتحال میں امریکی صدر بنے ہیں جب اسرائیل نے غزہ کو برباد کر ڈالا ہے اور 50ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی غزہ و اسرائیل میں سیز فائر تو ہو چکا ہے، لیکن اِس فائر بندی کو مستقل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج شام تباہ اور لاوارث ہے ۔ شام کی یہ صورت اسرائیل کے لیے آئیڈیل ہے ۔ ایران درست ہی کہتا ہے کہ شامی حکومت کا خاتمہ اسرائیل اور امریکا کے گہرے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ عالمِ عرب میں رُوس اپنے اکیلے دوست ملک، شام، سے محروم ہو چکا ہے ۔لبنان میں بروئے کار ’’حزب اللہ‘‘ کی اسرائیل کے خلاف شمشیر زنی تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔

یورپ پریشان ہے کہ ٹرمپ صاحب یوکرائن جنگ سے تعلق منقطع کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کی لاتعلقی سے اگر یوکرائن میں رُوس کی جیت ہو گئی تو یورپی یونین کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ مگر ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ’’ اگر امریکا نے کسی ملک کا تحفظ کرنا ہے تو اُسے جنگی اخراجات کے لیے امریکا کو ادائیگیاں کرنی چاہیے‘‘ تو یہ الفاظ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی کر جاتے ہیں ۔ مسائل و پریشانیوں کا ایک طومار ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر ہر ملک کو درپیش ہے ۔پاکستانی حکام کو مگر دانشمندی اور حکمت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ نئی راہیں اُستوار کرنی ہیں ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہے کہ ٹرمپ پی ٹی ا ئی کی امداد کے لیے ا کے ساتھ ٹرمپ کے ٹرمپ کی یہ بھی

پڑھیں:

ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول

واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا  ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے  کو دیے گئے انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو  ثبوت ہو یا نہ ہو  اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں  نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے  یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی  اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔    

متعلقہ مضامین

  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حادثے سے بال بال بچ گئے
  • ٹرمپ کی غزہ پر نظر برقرار، ایک بار پھر امریکی تحویل میں لینے کا اشارہ دے دیا
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • چلی ، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’
  • چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول