ہمارے ہاں رائج جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ یہ انفرادی سوچ اور فکر کے لئے زہر قاتل ہے۔ بے شک مغربی جمہوریت آج تک کا ایک کامیاب ترین نظام حکومت ہے مگر یہ اس لحاظ سے بدترین سیاسی نظام ہے کہ جب تعلیم اور تربیت اور سیاسی شعور سے عاری معاشرے ابتری کا شکار ہوتے ہیں تو سماجی افراد کی اپنی رائے ختم ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر سیاست کا مطلب الیکشن سے پہلے اور الیکشن مہم کے دوران پروپیگنڈہ کے زور پر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار سیاسی لیڈران عوام کے اندر غیر محسوس انداز میں خوش فہمیوں پر مبنی ایسی یاسیت و قنوطیت یا ناامیدی بھر دیتے ہیں کہ عوام کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کن امیدواران کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، کیونکہ جمہوری رائے دہی میں ایک جھوٹا سیاست دان بھی خود کو سچا ثابت کرنے کے اتنے جتن کرتا ہے کہ ایک مرحلے پر سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ترکی میں چند سال پہلے ایک پہاڑی چوٹی سے درجنوں بھیڑوں کے نیچے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک بھیڑ سلپ ہو کر اتفاقاً پہاڑی سے نیچے گرتی ہے تو دوسری بھیڑیں اسے دیکھ کر ایک ایک کر کے نیچے چھلانگ لگا کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ’’بھیڑ چال‘‘کا محاورہ مشہور ہے جس کا عمومی مطلب یہ ہے کہ جب ایک بھیڑ کسی طرف کا رخ کرے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسری بھیڑیں بھی اس کے پیچھے چلنے لگتی ہیں۔ جمہوری سیاست میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس طرف ہوا چلے لوگ اسی سیاسی رہنما کے پیچھے چلنے لگتے ہیں، اسی کا انتخاب کرتے ہیں اور اسے ہی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، خواہ وہ کتنا ہی جھوٹا، دھوکے باز اور فریبی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ بھیڑ چال کا اصطلاحی مفہوم ہی دھوکہ دہی کے بارے میں ہے جو دونوں لحاظ سے سیاسی جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔ ہماری جمہوریت کے دعوے دار لیڈران عموماً ناقابل عمل اور غیر حقیقی خوابوں ہی کو حقیقت محسوس کرواتے ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت کی کامیابی کا انحصار یکسر طور پر عوام الناس میں رائے دہی کی یکسانیت پیدا کرتا ہے۔ ایسی ناقص اجتماعی فکر کے زیر اثر چونکہ لوگ سیاسی غوروفکر کا منبہ صرف اپنے ہی محبوب رہنما کو سمجھتے ہیں جس سے عوام کی اجتماعی سوچ کے سلب ہو جانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاست میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو ایک ہی ذہنی طرز عمل پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہجوم ذہنیت یا ’’ہرڈ مینڈیلٹی‘‘ بیمار ذہنیت کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاست میں بھی ایسا ہی ماحول بن چکا ہے کہ لوگ عام انتخابات میں تعلیم اور معیار کے مقابلے میں اپنے تعلق، واسطے اور ہوا کے رخ پر ووٹ دیتے ہیں جس میں حقیقی جمہوریت کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔ جمہوریت کی اصل روح اظہار رائے کی آزادی ہے مگر ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے کہ سیاسی رہنمایان عوام میں ذہنی یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوئی ووٹ نہیں دیتا ہے۔ سیاست میں ویژن اور علم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کھیل کے دوران آپ فورا مختلف ذہنی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ جب جمہوریت میں ذہنی اختراع اور تنوع کو فروغ نہیں دیا جاتا، ووٹرز کو سوچنے کا موقعہ نہیں ملتا تو وہ مسلسل کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جب سے جمہوریت رائج ہوئی ہے تب سے سیاستدانوں کی ایسی کھیپ پیدا ہوئی ہے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کا فرق ہی ختم کر دیا ہے۔ ہماری عوام بار بار انہی آزمائے ہوئے امیدواروں کو منتخب کرتی ہے جن کے ہاتھوں وہ پہلے ہی کئی بار رسوا ہو چکے ہوتے ہیں۔یعنی ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رائج سیاسی نظام میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سچا اور ایماندار انسان سیاسی امیدوار بننے کا اول رسک ہی نہیں لیتا اور وہ ایسا کرے بھی تو وہ کامیاب نہیں ہوتا ہے، تب تک رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست میں جھوٹ، منافقت اور بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لوگ سچے انسان پر اعتبار نہیں کرتے۔ جھوٹے سیاست دانوں نے عوام کی ایسی نفسیات بنا دی یے کہ وہ اچھی خبروں میں منفی پہلو تلاش کر کے خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب اچھا چل رہا ہے۔ ہمارا حال اس بیمار جیسا ہے جو بیماری ہی کو شفا سمجھتا ہے اور اپنے درد کو کرید کر اس سے مزہ لیتا ہے۔
دنیا میں کئی ایسے نفسیاتی مریض ہیں جو خود کو ایذا دے کر اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کو تلخی بھی مستقل مزا دینے لگتی ہے۔ ہماری اس بیماری کو فروغ دینے میں ہمارے ان مکار سیاست دانوں کا بنیادی کردار ہے جو ملکی وسائل کو لوٹنے اور اپنے عہدوں کی خاطر عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ یہ ایک قنوطی سوچ ہے جو ایک بار پیدا ہو جائے تو انسان کو کسی دوسرے کی کوئی خوبی، اچھائی یا مثبت بات نظر نہیں آتی، اسے ہر چیز ٹیڑھی ہی نظر آتی ہے جس طرح کہ شفاف پانی میں کھڑی ایک سیدھی چھڑی بھی آدمی کو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔پاکستان تمام اسلامی ممالک میں واحد اور مسلمہ ایٹمی قوت یے۔ یہاں وسائل اور ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر بھینگا پن اور مایوسی پیدا کر دی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کے زریعے پیدا کی گی یہی ’’پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی‘‘ ہے۔ لوگوں کو آزادی سے سوچنے کا موقع دیں لوگ اسی ملک میں رہ کر کارنامے انجام دیں گے۔ دنیا بھر میں سائنسی ترقی ایک دوسرے کی مدد سے ہوتی ہے۔ سوچ میں جدت ہو۔ ہر انسان کو سوچنے کی آزادی ہو تو سوچوں میں اختراع پیدا ہو گا جس سے ایجادات ہونگی اور ترقی کرنے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ایک زمانہ تھا جب مسلم تہذیب میں پیدا ہونے والی بو علی سینا اور ابن رشد جیسی علمی شخصیات کی پورا یورپ پیروی کرتا تھا، اس وقت ساری دنیا امریکہ کی پیروی کرتی ہے۔ جو قوم ذہانت کی بے قدری کرتی ہے وہ کبھی اعلی پائے کی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ جب کوئی قوم ناامیدی کا شکار ہو جائے اور لوگوں کی اکثریت قنوطیوں پر مبنی ہو تو انہیں کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا یے، وہ ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی برائی کرتے ہیں، جیسے کہ اس ملک کی خرابیوں میں انکا کوئی حصہ ہی نہ ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سیاست میں ہوتے ہیں کرتے ہیں یہ ہے کہ پیدا ہو ملک میں
پڑھیں:
بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھنا جمہوریت کی توہین ہے، عبدالواسع
تربیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے لاکھوں شہریوں نے اپنے بلدیاتی نمائندے بڑی امیدوں سے منتخب کیے تھے، لیکن موجودہ صوبائی حکومت نے روز اول سے ہی بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز اور اپنے قانونی اختیارات سے محروم رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی عبدالواسع نے صوبائی حکومت کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کو بلدیاتی فنڈز استعمال کرنے کا اختیار دینے کو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ اور جمہوری عمل کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی پشاور سٹی کے تحت ضلعی سیکرٹریٹ نشترآباد میں زونل اور مقامی ذمہ داران کے تربیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے لاکھوں شہریوں نے اپنے بلدیاتی نمائندے بڑی امیدوں سے منتخب کیے تھے، لیکن موجودہ صوبائی حکومت نے روز اول سے ہی بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز اور اپنے قانونی اختیارات سے محروم رکھا ہے، جس کی وجہ سے صوبے میں بلدیاتی ادارے عملاً بے دست و پاں بن چکے ہیں۔ بلدیاتی حکومتوں کے آخری سال میں حکومت کا اختیارات ڈی سی صاحبان کے حوالے کرنا ایک غیر جمہوری اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کو تقویت دینے کی کوشش ہے، جو کسی صورت قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کا بنیادی مقصد عوامی مسائل مقامی سطح پر ان کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنا ہے۔ لیکن اگر فیصلہ سازی اور فنڈز کے استعمال کا اختیار عوامی نمائندوں کی بجائے بیوروکریسی کو دیا جائے، تو نہ صرف عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ کرپشن اور اقربا پروری کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ عبدالواسع نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی اس اقدام کی پرزور مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو فوری طور پر ان کے آئینی و قانونی اختیارات دیے جائیں، تمام فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور عوامی مشاورت کو یقینی بنایا جائے، ڈپٹی کمشنرز کو بلدیاتی فنڈز جاری کرنے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے اور انہیں بلدیاتی اداروں کی نگرانی تک محدود رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اس غیر جمہوری فیصلے کو واپس نہ لیا تو جماعت اسلامی صوبہ بھر میں بلدیاتی نمائندوں اور عوام کے ساتھ مل کر پرامن احتجاج شروع کریں گی۔ اجتماع سے ضلعی امیر بحراللہ خان ایڈوکیٹ،نائب امیر حمداللہ جان بڈھنی اور سٹی امیر حافظ حمید اللہ ایڈوکیٹ نے بھی خطاب کیا۔