Daily Ausaf:
2025-06-11@02:30:27 GMT

پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ہمارے ہاں رائج جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ یہ انفرادی سوچ اور فکر کے لئے زہر قاتل ہے۔ بے شک مغربی جمہوریت آج تک کا ایک کامیاب ترین نظام حکومت ہے مگر یہ اس لحاظ سے بدترین سیاسی نظام ہے کہ جب تعلیم اور تربیت اور سیاسی شعور سے عاری معاشرے ابتری کا شکار ہوتے ہیں تو سماجی افراد کی اپنی رائے ختم ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر سیاست کا مطلب الیکشن سے پہلے اور الیکشن مہم کے دوران پروپیگنڈہ کے زور پر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار سیاسی لیڈران عوام کے اندر غیر محسوس انداز میں خوش فہمیوں پر مبنی ایسی یاسیت و قنوطیت یا ناامیدی بھر دیتے ہیں کہ عوام کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کن امیدواران کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، کیونکہ جمہوری رائے دہی میں ایک جھوٹا سیاست دان بھی خود کو سچا ثابت کرنے کے اتنے جتن کرتا ہے کہ ایک مرحلے پر سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ترکی میں چند سال پہلے ایک پہاڑی چوٹی سے درجنوں بھیڑوں کے نیچے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک بھیڑ سلپ ہو کر اتفاقاً پہاڑی سے نیچے گرتی ہے تو دوسری بھیڑیں اسے دیکھ کر ایک ایک کر کے نیچے چھلانگ لگا کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ’’بھیڑ چال‘‘کا محاورہ مشہور ہے جس کا عمومی مطلب یہ ہے کہ جب ایک بھیڑ کسی طرف کا رخ کرے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسری بھیڑیں بھی اس کے پیچھے چلنے لگتی ہیں۔ جمہوری سیاست میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس طرف ہوا چلے لوگ اسی سیاسی رہنما کے پیچھے چلنے لگتے ہیں، اسی کا انتخاب کرتے ہیں اور اسے ہی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، خواہ وہ کتنا ہی جھوٹا، دھوکے باز اور فریبی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ بھیڑ چال کا اصطلاحی مفہوم ہی دھوکہ دہی کے بارے میں ہے جو دونوں لحاظ سے سیاسی جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔ ہماری جمہوریت کے دعوے دار لیڈران عموماً ناقابل عمل اور غیر حقیقی خوابوں ہی کو حقیقت محسوس کرواتے ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت کی کامیابی کا انحصار یکسر طور پر عوام الناس میں رائے دہی کی یکسانیت پیدا کرتا ہے۔ ایسی ناقص اجتماعی فکر کے زیر اثر چونکہ لوگ سیاسی غوروفکر کا منبہ صرف اپنے ہی محبوب رہنما کو سمجھتے ہیں جس سے عوام کی اجتماعی سوچ کے سلب ہو جانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاست میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو ایک ہی ذہنی طرز عمل پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہجوم ذہنیت یا ’’ہرڈ مینڈیلٹی‘‘ بیمار ذہنیت کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاست میں بھی ایسا ہی ماحول بن چکا ہے کہ لوگ عام انتخابات میں تعلیم اور معیار کے مقابلے میں اپنے تعلق، واسطے اور ہوا کے رخ پر ووٹ دیتے ہیں جس میں حقیقی جمہوریت کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔ جمہوریت کی اصل روح اظہار رائے کی آزادی ہے مگر ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے کہ سیاسی رہنمایان عوام میں ذہنی یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوئی ووٹ نہیں دیتا ہے۔ سیاست میں ویژن اور علم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کھیل کے دوران آپ فورا مختلف ذہنی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ جب جمہوریت میں ذہنی اختراع اور تنوع کو فروغ نہیں دیا جاتا، ووٹرز کو سوچنے کا موقعہ نہیں ملتا تو وہ مسلسل کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جب سے جمہوریت رائج ہوئی ہے تب سے سیاستدانوں کی ایسی کھیپ پیدا ہوئی ہے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کا فرق ہی ختم کر دیا ہے۔ ہماری عوام بار بار انہی آزمائے ہوئے امیدواروں کو منتخب کرتی ہے جن کے ہاتھوں وہ پہلے ہی کئی بار رسوا ہو چکے ہوتے ہیں۔یعنی ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رائج سیاسی نظام میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سچا اور ایماندار انسان سیاسی امیدوار بننے کا اول رسک ہی نہیں لیتا اور وہ ایسا کرے بھی تو وہ کامیاب نہیں ہوتا ہے، تب تک رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست میں جھوٹ، منافقت اور بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لوگ سچے انسان پر اعتبار نہیں کرتے۔ جھوٹے سیاست دانوں نے عوام کی ایسی نفسیات بنا دی یے کہ وہ اچھی خبروں میں منفی پہلو تلاش کر کے خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب اچھا چل رہا ہے۔ ہمارا حال اس بیمار جیسا ہے جو بیماری ہی کو شفا سمجھتا ہے اور اپنے درد کو کرید کر اس سے مزہ لیتا ہے۔
دنیا میں کئی ایسے نفسیاتی مریض ہیں جو خود کو ایذا دے کر اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کو تلخی بھی مستقل مزا دینے لگتی ہے۔ ہماری اس بیماری کو فروغ دینے میں ہمارے ان مکار سیاست دانوں کا بنیادی کردار ہے جو ملکی وسائل کو لوٹنے اور اپنے عہدوں کی خاطر عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ یہ ایک قنوطی سوچ ہے جو ایک بار پیدا ہو جائے تو انسان کو کسی دوسرے کی کوئی خوبی، اچھائی یا مثبت بات نظر نہیں آتی، اسے ہر چیز ٹیڑھی ہی نظر آتی ہے جس طرح کہ شفاف پانی میں کھڑی ایک سیدھی چھڑی بھی آدمی کو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔پاکستان تمام اسلامی ممالک میں واحد اور مسلمہ ایٹمی قوت یے۔ یہاں وسائل اور ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر بھینگا پن اور مایوسی پیدا کر دی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کے زریعے پیدا کی گی یہی ’’پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی‘‘ ہے۔ لوگوں کو آزادی سے سوچنے کا موقع دیں لوگ اسی ملک میں رہ کر کارنامے انجام دیں گے۔ دنیا بھر میں سائنسی ترقی ایک دوسرے کی مدد سے ہوتی ہے۔ سوچ میں جدت ہو۔ ہر انسان کو سوچنے کی آزادی ہو تو سوچوں میں اختراع پیدا ہو گا جس سے ایجادات ہونگی اور ترقی کرنے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ایک زمانہ تھا جب مسلم تہذیب میں پیدا ہونے والی بو علی سینا اور ابن رشد جیسی علمی شخصیات کی پورا یورپ پیروی کرتا تھا، اس وقت ساری دنیا امریکہ کی پیروی کرتی ہے۔ جو قوم ذہانت کی بے قدری کرتی ہے وہ کبھی اعلی پائے کی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ جب کوئی قوم ناامیدی کا شکار ہو جائے اور لوگوں کی اکثریت قنوطیوں پر مبنی ہو تو انہیں کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا یے، وہ ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی برائی کرتے ہیں، جیسے کہ اس ملک کی خرابیوں میں انکا کوئی حصہ ہی نہ ہو۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سیاست میں ہوتے ہیں کرتے ہیں یہ ہے کہ پیدا ہو ملک میں

پڑھیں:

ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکنالوجی ارب پتی ایلون مسک کے درمیان حالیہ تنازع نے امریکا کی سیاست، معیشت اور خلائی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ محض دو طاقتور شخصیات کی آپسی لڑائی نہیں بلکہ ایسا تصادم ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق تنازع کا آغاز 3 جون کو اس وقت ہوا جب ایلون مسک، جو اس وقت ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے سربراہ ہیں، نے ٹرمپ کے مجوزہ “بگ بیوٹیفل بل” کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اس بل میں ٹیکس کٹوتیاں، امیگریشن اصلاحات، اور سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی شامل تھی ، کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق یہ بل آئندہ 10 برسوں میں 2.4 ٹریلین ڈالر کے خسارے اور 10.9 ملین افراد کو صحت کی سہولت سے محروم کر سکتا ہے۔

ایلون مسک کی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ نے 5 جون کو مسک کو کہاکہ  “ایک شخص جو اپنا دماغ کھو چکا ، ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ اسپیس ایکس کو دیے گئے 38 ارب ڈالر کے سرکاری معاہدے منسوخ کر سکتے ہیں، اسپیس ایکس ناسا کے خلائی مشنز کے لیے ڈریگن کپسول فراہم کرتی ہے اور امریکی خلائی پروگرام کا بنیادی ستون تصور کی جاتی ہے۔

مسک نے بھی بھرپور ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ پر جیفری ایپسٹین سے متعلق خفیہ فائلز چھپانے کا الزام عائد کیا اور صدر کے مواخذے کا مطالبہ کر دیا، اس کے بعد مسک نے 1992 کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ٹرمپ ایپسٹین کے ساتھ ایک پارٹی میں موجود نظر آ رہے تھے۔

خیال رہےکہ  5 جون کو ٹیسلا کے حصص میں 14.2 فیصد کی زبردست کمی واقع ہوئی، جس سے کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں 152 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایلون مسک کی ذاتی دولت میں بھی 33 ارب ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ البتہ اگلے دن جب سرمایہ کاروں نے کشیدگی میں کمی کی امید کی تو حصص دوبارہ 6 فیصد بڑھ گئے۔

ٹرمپ کی جانب سے اسپیس ایکس معاہدوں کی منسوخی کی دھمکی نے ناسا کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ایک موقع پر مسک نے ردعمل میں ڈریگن کپسول کو عارضی طور پر غیر فعال کرنے کی دھمکی دی، تاہم بعد میں وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔

یہ تنازع ایک ڈیجیٹل جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور ٹروتھ سوشل پر دونوں فریقین کے حامیوں نے میمز، بیانات اور الزامات کی بارش کر دی ہے۔ مسک کی بیٹی ویوین جینا ولسن نے اسے ایک “ڈرامہ” قرار دیا، جب کہ ایشلی سینٹ کلیئر — جو مسک کے ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں — نے ٹرمپ کو “بریک اپ ایڈوائس” دینے کی پیشکش کی۔

صدر ٹرمپ نے بھی طنز کے طور پر مارچ 2025 میں خریدی گئی اپنی سرخ ٹیسلا ماڈل ایس فروخت یا عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کے وفد نے نمائندہ جسارت کاشف حسین کی عیادت کی
  • تقریر رکوانے میں سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل نہیں، مولانا طارق جمیل
  • نوجوان معاشی و سماجی مشکلات کے سبب بچے پیدا کرنے سے گریزاں، رپورٹ
  • نان فائلر گاڑی، جائیداد نہیں خرید سکیں گے،بینک اکاؤنٹ نہیں کھلے گا
  • پوپ لیو کی قوم پرستانہ سیاست پر تنقید، نفرت کی دیواروں اور سرحدوں کو مٹانے کی دعا
  • قائد اعظم کے بعد پاکستان میں بانی پی ٹی آئی جیسا مقبول لیڈر پیدا نہیں ہوا، چوہدری پرویز الہٰی
  • مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں بھارت کی جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو تباہ کیا، کانگریس
  • افسوس بھارت نے سیاست کو مذہب سے جوڑ دیا: رمیش سنگھ اروڑا
  • بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا، حریت کانفرنس
  • ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری