متنازع پیکا قانون کا مقصد جمہوریت کا گلا گھونٹنا ہے
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نئے قانون میں سیکشن 26 اے متعارف کروایا گیا ہے جس میں نام نہاد فیک نیوز (جس کی تعریف کی وضاحت نہیں کی گئی) پھیلانے والوں کو 3 سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہوسکتی ہیں لیکن جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی معلومات لوگوں میں ’خوف، اضطراب یا بےامنی‘ کا باعث بنیں گی؟ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب قوانین کی درست وضاحت نہ کی جائے تو ان کا منصفانہ انداز میں اطلاق نہیں ہوتا۔ خصوصی رپورٹ
صحافیوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے ممکنہ خطرناک نتائج کے حوالے سے خبردار کیا اور ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین نے بھی مخالفت میں آوازیں بلند کیں لیکن تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ اب صدر کے دستخط کے بعد پیکا ترامیم آئین کا حصہ بن چکی ہیں جو ہمارے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ جتنی عجلت میں یہ معاملہ نمٹایا گیا وہ انتہائی حیران کُن تھا۔ سول سوسائٹی نے مشاورت کرنے کی درخواست کی، عجلت کے بجائے بغور نظرثانی کرنے کی بات کی لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اب اس سخت گیر قانون پر دستخط کی سیاہی خشک ہوچکی ہے اور اب یہ حتمی قانون لوگوں کو اظہار رائے کرنے سے خوفزدہ کررہا ہے۔
نئے قانون میں سیکشن 26 اے متعارف کروایا گیا ہے جس میں نام نہاد فیک نیوز (جس کی تعریف کی وضاحت نہیں کی گئی) پھیلانے والوں کو 3 سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہوسکتی ہیں لیکن جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی معلومات لوگوں میں ’خوف، اضطراب یا بےامنی‘ کا باعث بنیں گی؟ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب قوانین کی درست وضاحت نہ کی جائے تو ان کا منصفانہ انداز میں اطلاق نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو آزادی صحافت کی علم بردار تھی، ایسی ترامیم کی حمایت کرکے اب وہ اس نظریے کے حامی بن چکی ہے جس کے تحت جمہوریت کو محفوظ بنانے کا بہترین راستہ اس کا گلا گھونٹ دینا ہے۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تاڑر نے جس طرح ’ورکنگ صحافیوں‘ اور ’اپنے فون نکالنے‘ والے شہریوں کے درمیان فرق کو بیان کیا، اس نے اس دور کی یاد تازہ کردی کہ جب گھڑسوار خبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے.
ایسی ترامیم منظور ہی نہیں ہونی چاہیئے تھیں۔ حکومت کے پاس معنی خیر مذاکرات کا راستہ تھا منصفانہ اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے میڈیا کے ضوابط کو مضبوط کرنے اور بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی راہ موجود تھی مگر انہوں نے مذاکرات کے بجائے جبر کا راستہ چنا۔ پاکستانی صحافی، ڈیجیٹل کارکنان اور عام شہریوں کو ایسے مذموم قانون کے خلاف طویل جنگ لڑنے کی تیاری کرنی چاہیئے جو انہیں خاموش کروانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عوامی حقوق و آزادی کے دفاع کرتے ہوئے قانون کا مقابلہ کریں گی؟ اس سوال کا جواب شاید ملک میں آزادی اظہار کے مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی تعریف کی
پڑھیں:
ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی ختم، امریکی صدر کی سخت نتائج کی دھمکی
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور معروف ٹیکنالوجی ارب پتی ایلون مسک کے درمیان تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں، صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر مسک ان ریپبلکنز کے خلاف ڈیموکریٹس کو فنڈنگ دیتے ہیں جو ٹرمپ کے ٹیکس میں چھوٹ اور اخراجات کے بل کی حمایت کر رہے ہیں، تو اس کے سنجیدہ نتائج ہوں گے۔
این بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدرٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اُن کا ایلون مسک سے تعلق اب ختم ہو چکا ہے اور انہوں نے تعلقات کی بحالی کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی، ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تعلق اب ختم ہو چکا ہے۔
صدرٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ابھی تک ایلون مسک کے خلاف کسی قسم کی تفتیش پر گفتگو نہیں کی، لیکن اُن کے اس بیان کے بعد کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مسک کی کمپنیوں کے معاہدوں کا جائزہ لے سکتے ہیں، سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
ایلون مسک نے حالیہ دنوں میں ٹرمپ کے بل کو ’قابل نفرت بل‘ قرار دیا تھا، جس سے کانگریس میں اس بل کی منظوری کے امکانات کو دھچکا لگا ہے، اگرچہ مسک نے سوشل میڈیا پر اپنے کچھ سخت بیانات کو حذف کیا ہے، لیکن اس تنازعے نے دونوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اس بل سے آئندہ 10 سال میں امریکی قرضے میں 2.4 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے، صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ بل 4 جولائی سے پہلے منظور ہو جائے گا، لیکن سینیٹ میں موجود معمولی ریپبلکن اکثریت کے باعث اسے شدید سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایلون مسک ڈیموکریٹس سینیٹ صدر ٹرمپ