لاہور ہائیکورٹ: پیکا ترمیمی قانون کےخلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
لاہور ہائی کورٹ نے فوری طور پر پیکا ترمیمی قانون 2025 کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
نئی دفعات میں ’جعلی خبروں‘ کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ریاستی نگرانی میں توسیع کی گئی ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نئے ریگولیٹری اداروں کی تشکیل کی جائے گی۔
صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں، صحافتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل کے باوجود بدھ کو پیکا ترامیم کی منظوری دے دی تھی۔
اس بل کے خلاف ایک روز قبل لاہور ہائی کورٹ میں صحافی جعفر بن یار نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی آرا پر غور کیے بغیر جلد بازی میں بل منظور کیا گیا۔
آج درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر نے درخواست گزار کی پیکا ترمیم کی مختلف شقوں پر عمل درآمد فوری طور پر روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے فریقین کا مؤقف آجائے پھر فیصلہ کریں گے۔
جسٹس فاروق حیدر نے تمام فریقین سے 3 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے انہیں نوٹسز بھی جاری کر دیئے۔
ناقدین قانون سازی کو اختلاف رائے کو دبانے اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے ایک آلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے لیے یہ ضروری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہفتے کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر یہ قانون بن گیا تو ملک کے سائبر کرائم قوانین میں حال ہی میں مجوزہ تبدیلیاں ’پاکستان کے انتہائی کنٹرول والے ڈیجیٹل منظر نامے پر حکومت کی گرفت کو مزید سخت کر سکتی ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے پیکا کی تاریخ کے ساتھ مجرمانہ عناصر کے مشکوک اور مبہم اقدامات ان خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ یہ نیا جرم ملک میں آن لائن اظہار کی بچی کچی آزادی بھی ختم کردے گا۔‘
صحافیوں نے اس قانون کو ’آزادی اظہار پر حملہ‘ قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکمران اتحاد کی جماعت پیپلز پارٹی پر منافقت کا الزام لگایا ہے اور بل کی حمایت پر تنقید کی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ اس قانون کے خلاف جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کے سلسلے کے ساتھ ’یوم سیاہ‘ منائے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
بلوچستان ہائیکورٹ نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق اپنے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نمبر 3، جسٹس اقبال کاسی اور جسٹس ایوب ترین پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 26 جون اور 17 جولائی 2025 کو جاری کیے گئے عدالتی احکامات کی یاددہانی کرائی، جن میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے عمل کو واضح طور پر روک دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان احکامات کے باوجود متعلقہ حکام نے مراسلہ جات جاری کیے، اجلاس منعقد کیے اور دیگر عملی اقدامات کیے، جو صریحاً عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام، تجویز کس کی تھی؟
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، ڈی جی لیویز، کمشنر ژوب ڈویژن، ڈپٹی کمشنرز قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی سمیت ایس پیز اور دیگر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل باسط شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود صوبائی حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل جاری رکھا، جس میں میٹنگز، احکامات اور فیلڈ میں عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے تربت بینچ نے 24 جون 2025 کو حکومت بلوچستان کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز کو معطل کر دیا تھا اور لیویز کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 20 مئی اور 17 جون کو جاری نوٹیفکیشنز پر عملدرآمد روک دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے حتمی فیصلے تک کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔
لیویز فورس کی قانونی نمائندگی سینئر وکیل طاہر علی بلوچ نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنا نہ صرف آئین اور قانون کے منافی ہے بلکہ اس سے عوامی مفاد بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے 17 جون کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 13 اضلاع میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جو ’بی ایریا‘ کو ’اے ایریا‘ میں تبدیل کرنے کی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی کو 10 جولائی تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
قبل ازیں، جنوری 2025 میں کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے گا اور امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 2003 میں بھی نیشنل پبلک سیفٹی پلان کے تحت پورے صوبے کو ’اے ایریا‘ قرار دے کر لیویز کو پولیس کا حصہ بنایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں 2008 میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے لیویز کو بحال کر دیا تھا۔
لیویز فورس، جو 1860 کی دہائی میں برطانوی دور میں تشکیل دی گئی، اس وقت بلوچستان کے 82 فیصد علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ پولیس کا دائرہ صرف شہری علاقوں یعنی 18 فیصد حصے تک محدود ہے۔ لیویز فورس کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے اور یہ ایک باقاعدہ قانون کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔
بلوچستان میں ’اے ایریا‘ اور ’بی ایریا‘ کی بنیاد پر پولیسنگ کا دوہرا نظام رائج ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس، جبکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز فورس امن و امان کی ذمہ دار ہے۔
بلوچ عوامی حلقوں کی اکثریت لیویز کو ایک مقامی، بااعتماد اور مؤثر فورس سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے لیویز کے انضمام کے خلاف ہر دور میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، اور اب عدالتی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے نے ایک بار پھر سنگین قانونی رخ اختیار کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس