UrduPoint:
2025-11-03@10:54:27 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) تفصیلات کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی مکمل اصلاحات کے منصوبے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جو رواں سال مارچ کے آخر تک قائم کی جائے گی۔ اصلاحاتی منصوبے کے تحت حکومت کراچی پورٹ اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے سربراہان بھی تعینات کرے گی۔

حکومت کے دعوے کے مطابق، اس منصوبے میں کسٹمز کے کردار کو مزید مؤثر بنانا، کراچی پورٹ کی 24 گھنٹے کنیکٹیویٹی یقینی بنانا (جہاں عام طور پر سامان کی نقل و حرکت روزانہ صرف سات گھنٹے ہوتی ہے) بھی شامل ہے۔ نئی قائم کی جانے والی اتھارٹی پاکستان میں شپ بلڈنگ کا جائزہ لے گی تاکہ تجارتی جہاز سازی اور مرمت کو فروغ دیا جا سکے اور پاکستان شپنگ کارپوریشن کی جدید تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔

(جاری ہے)

کیا نئی اتھارٹی کی کوئی ضرورت ہے؟

نئی اتھارٹی کے قیام کے فیصلے کے ساتھ حکومت یہ خواب بھی دکھا رہی ہے کہ ملک کی میرین سیکٹر سے حاصل ہونے والی آمدنی، جو اس وقت 2610 ارب روپے ہے، بڑھ کر 8000 سے 9000 ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ریونیو میں اضافے کا خواب بیچ کر ایک نئی اتھارٹی قائم کر رہی ہے، جبکہ پہلے سے ہی ایک ادارہ موجود ہے جو یہ معاملات دیکھ رہا ہے۔

معروف ماہرِ معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی میری ٹائم ڈویژن موجود ہے، جس کی ذمہ داریاں وہی ہیں جو اس نئے منصوبے میں بیان کی گئی ہیں۔ حکومت صرف پرکشش خواب بیچ کر ایک نیا ادارہ بنانے اور اپنے من پسند افراد کے لیے نوکریاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ اس اتھارٹی کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر حکومت واقعی بندرگاہوں اور میری ٹائم سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو اسے صحیح افراد کو درست عہدوں پر تعینات کرنا چاہیے اور پہلے سے موجود اداروں کی صلاحیت بڑھانی چاہیے۔

بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ بندرگاہوں اور سمندری معاملات جن میں سمندر کے ذریعے تجارت شامل ہے کے لیے ایک اتھارٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ملک میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیا ادارہ کسی نہ کسی کو نوکریاں دینے یا کسی شعبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن ایک معروف معیشت دان ہیں کہتے ہیں، ''غالب امکان ہے کہ حکومت نئی اتھارٹی میں بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کو ملازمتیں دے گی اور میرٹ کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔

جب تک میرٹ پر لوگوں کی تعیناتی نہ ہو کوئی ادارہ نہیں چلا سکتا۔ آج کل یہ صورت حال ہے کہ جب حکومت کسی محکمے کی کسی بڑی پوسٹ کے لیے اشتہار دیتی ہے، تو بہت لوگ اپلائی بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کس کو رکھنے کے لیے اشتہار دیا گیا ہے۔ قومی خزانے پر بوجھ

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایک طرف تو رائٹ سائزنگ کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرفحکومت نئے ادارے بنانے اور ایسے اخراجات کی بات کر رہی ہوتی ہے جن کی کوئی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں، ''یہ حکومت نے نیا وطیرہ بنا لیا ہے۔ نئے نئے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ سول ایوی ایشن اور پیمرا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان اتھارٹیز کو تین تین اتھارٹیز میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک ادارے کا علیحدہ سے سربراہ لگانا پڑتا ہے اور مزید اسٹاف بھی رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی اتھارٹی کا بھی یہی ہے کہ بہت سے لوگ رکھے جائیں گے، گاڑیاں خریدی جائیں گی اور اربوں روپے کا ایک نیا خرچہ قرض کے پیسوں کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے۔

عجیب معاملات ہیں کہ ایک ملک جو پیسے پیسے کو ترس رہا ہے وہاں ایف بی آر ایک ہزار گاڑیاں خریدنے کی بات کر رہا ہے اور بغیر ضرورت نئے ادارے بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت کا نئی اتھارٹی کے قیام سے جہاز بنانے کی صنعت کے فروغ کا دعویٰ

ماہرین کا ماننا ہے کہ جہاز بنانا پاکستان کے ہے بہت ضروری ہے۔ پہلے پاکستان میں بحری جہاز بنا کرتے تھے لیکن عرصہ دراز سے یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہے۔

ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں، ''انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے سو بحری جہاز تھے اور اب صرف آٹھ ہیں، اس سے بہت مالی نقصان ہوتا ہے۔‘‘

لیکن ڈاکٹر اشفاق سمجھتے ہیں کہ شپ بلڈنگ کی صنعت کے زوال کی وجہ بھی مختلف حکومتوں کی منظور نظر افراد کو نوکریاں دینے کی پالیسی ہے۔

ماہرین اس بات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایک اتھارٹی کے قیام سے ملک دوبارہ بحری جہاز بنانے لگے گا۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ کراچی شپ یارڈ اینڈ انجنئیرنگ ورکس ایک پبلک سیکٹر ادارہ ہے اور تقریبا دو دہائیوں سے بیکار پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر شپ بلڈنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پبلک سیکٹر کے ادارے حکومت بیچنا چاہتی ہے تو اتھارٹی کیا خود جہاز بنائے گی۔ جہاز بنانے کے لیے ادارے کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور قابل افراد کو اس کا انتظام سونپنے کی ضرورت ہے نہ کہ اتھارٹی بنائے گی۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اتھارٹی کے قیام نئی اتھارٹی قیصر بنگالی میری ٹائم کہتے ہیں پہلے سے ہے اور رہی ہے کی بات ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے

جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔

گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔

انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔

یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔

تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔

مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔

اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔

اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔

امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔

جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔

اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔

یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔

جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہیں: امیر مقام
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • بلوچستان حکومت کا نوعمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • بلوچستان حکومت کا نو عمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی اور گورننس کے معاملات میں بہتری لائے؛ رانا ثناءاللہ
  • این آئی سی وی ڈی، فارما کمپنیوں کے خرچے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے غیر ملکی دورے
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • ہم کشمیر میں حکومت بنانے اور سنبھالنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، بلاول بھٹو
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم