UrduPoint:
2025-09-17@23:30:14 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) تفصیلات کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی مکمل اصلاحات کے منصوبے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جو رواں سال مارچ کے آخر تک قائم کی جائے گی۔ اصلاحاتی منصوبے کے تحت حکومت کراچی پورٹ اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے سربراہان بھی تعینات کرے گی۔

حکومت کے دعوے کے مطابق، اس منصوبے میں کسٹمز کے کردار کو مزید مؤثر بنانا، کراچی پورٹ کی 24 گھنٹے کنیکٹیویٹی یقینی بنانا (جہاں عام طور پر سامان کی نقل و حرکت روزانہ صرف سات گھنٹے ہوتی ہے) بھی شامل ہے۔ نئی قائم کی جانے والی اتھارٹی پاکستان میں شپ بلڈنگ کا جائزہ لے گی تاکہ تجارتی جہاز سازی اور مرمت کو فروغ دیا جا سکے اور پاکستان شپنگ کارپوریشن کی جدید تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔

(جاری ہے)

کیا نئی اتھارٹی کی کوئی ضرورت ہے؟

نئی اتھارٹی کے قیام کے فیصلے کے ساتھ حکومت یہ خواب بھی دکھا رہی ہے کہ ملک کی میرین سیکٹر سے حاصل ہونے والی آمدنی، جو اس وقت 2610 ارب روپے ہے، بڑھ کر 8000 سے 9000 ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ریونیو میں اضافے کا خواب بیچ کر ایک نئی اتھارٹی قائم کر رہی ہے، جبکہ پہلے سے ہی ایک ادارہ موجود ہے جو یہ معاملات دیکھ رہا ہے۔

معروف ماہرِ معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی میری ٹائم ڈویژن موجود ہے، جس کی ذمہ داریاں وہی ہیں جو اس نئے منصوبے میں بیان کی گئی ہیں۔ حکومت صرف پرکشش خواب بیچ کر ایک نیا ادارہ بنانے اور اپنے من پسند افراد کے لیے نوکریاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ اس اتھارٹی کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر حکومت واقعی بندرگاہوں اور میری ٹائم سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو اسے صحیح افراد کو درست عہدوں پر تعینات کرنا چاہیے اور پہلے سے موجود اداروں کی صلاحیت بڑھانی چاہیے۔

بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ بندرگاہوں اور سمندری معاملات جن میں سمندر کے ذریعے تجارت شامل ہے کے لیے ایک اتھارٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ملک میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیا ادارہ کسی نہ کسی کو نوکریاں دینے یا کسی شعبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن ایک معروف معیشت دان ہیں کہتے ہیں، ''غالب امکان ہے کہ حکومت نئی اتھارٹی میں بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کو ملازمتیں دے گی اور میرٹ کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔

جب تک میرٹ پر لوگوں کی تعیناتی نہ ہو کوئی ادارہ نہیں چلا سکتا۔ آج کل یہ صورت حال ہے کہ جب حکومت کسی محکمے کی کسی بڑی پوسٹ کے لیے اشتہار دیتی ہے، تو بہت لوگ اپلائی بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کس کو رکھنے کے لیے اشتہار دیا گیا ہے۔ قومی خزانے پر بوجھ

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایک طرف تو رائٹ سائزنگ کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرفحکومت نئے ادارے بنانے اور ایسے اخراجات کی بات کر رہی ہوتی ہے جن کی کوئی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں، ''یہ حکومت نے نیا وطیرہ بنا لیا ہے۔ نئے نئے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ سول ایوی ایشن اور پیمرا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان اتھارٹیز کو تین تین اتھارٹیز میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک ادارے کا علیحدہ سے سربراہ لگانا پڑتا ہے اور مزید اسٹاف بھی رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی اتھارٹی کا بھی یہی ہے کہ بہت سے لوگ رکھے جائیں گے، گاڑیاں خریدی جائیں گی اور اربوں روپے کا ایک نیا خرچہ قرض کے پیسوں کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے۔

عجیب معاملات ہیں کہ ایک ملک جو پیسے پیسے کو ترس رہا ہے وہاں ایف بی آر ایک ہزار گاڑیاں خریدنے کی بات کر رہا ہے اور بغیر ضرورت نئے ادارے بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت کا نئی اتھارٹی کے قیام سے جہاز بنانے کی صنعت کے فروغ کا دعویٰ

ماہرین کا ماننا ہے کہ جہاز بنانا پاکستان کے ہے بہت ضروری ہے۔ پہلے پاکستان میں بحری جہاز بنا کرتے تھے لیکن عرصہ دراز سے یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہے۔

ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں، ''انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے سو بحری جہاز تھے اور اب صرف آٹھ ہیں، اس سے بہت مالی نقصان ہوتا ہے۔‘‘

لیکن ڈاکٹر اشفاق سمجھتے ہیں کہ شپ بلڈنگ کی صنعت کے زوال کی وجہ بھی مختلف حکومتوں کی منظور نظر افراد کو نوکریاں دینے کی پالیسی ہے۔

ماہرین اس بات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایک اتھارٹی کے قیام سے ملک دوبارہ بحری جہاز بنانے لگے گا۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ کراچی شپ یارڈ اینڈ انجنئیرنگ ورکس ایک پبلک سیکٹر ادارہ ہے اور تقریبا دو دہائیوں سے بیکار پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر شپ بلڈنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پبلک سیکٹر کے ادارے حکومت بیچنا چاہتی ہے تو اتھارٹی کیا خود جہاز بنائے گی۔ جہاز بنانے کے لیے ادارے کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور قابل افراد کو اس کا انتظام سونپنے کی ضرورت ہے نہ کہ اتھارٹی بنائے گی۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اتھارٹی کے قیام نئی اتھارٹی قیصر بنگالی میری ٹائم کہتے ہیں پہلے سے ہے اور رہی ہے کی بات ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جب قوم اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ کھیل کو بھی سیاست کا میدان بنا دیتی ہے۔

قومی پیغامِ امن کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بھارت کے 6 جہاز گر گئے، جنگ بھی ہار گئے، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ تنازع: دبئی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی آج ہونے والی پریس کانفرنس ملتوی

انہوں نے کہاکہ جن کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے ایسے رویے اپناتے ہیں، تاہم ہر صورت میں اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے۔

ایک صحافی نے سوال کیاکہ آیا آئی سی سی نے میچ ریفری کو ہٹانے کے ضمن میں پاکستان کا مطالبہ منظور کر لیا ہے؟ تو اس پر عطااللہ تارڑ نے کہاکہ اس بارے میں بہتر جواب محسن نقوی ہی دے سکتے ہیں، مگر ان کے نزدیک میچ ریفری کو ریفری کی طرح ہی عمل کرنا چاہیے تھا۔

دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشتگرد کا سہولت کار بھی دہشتگرد ہی ہے، جو کسی دہشتگرد کو پناہ دیتا ہے وہ بھی انہی جرائم میں شریک ہے۔

انہوں نے کہاکہ قوم نے 90 ہزار جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور سہولت کار چاہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے منسلک ہوں، وہ گرفت میں آئیں گے۔

عطااللہ تارڑ نے مزید کہاکہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور بالاخر امن قائم ہو گا۔ جن لوگ اسکولوں میں معصوم بچوں کو معاف نہیں کرتے ان کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے ایشیا کپ کا بائیکاٹ کیا تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستانی اور ریاست کے خلاف سازشیں کرتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں، وہ سہولت کار تصور کیے جائیں گے اور اس پر سب کی متفقہ رائے ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئی سی سی ایشیا کپ تنازع پاک بھارت کرکٹ پاکستان بھارت تعلقات پی سی بی عطااللہ تارڑ کرکٹ کا میدان وفاقی وزیر اطلاعات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • سعودی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف کے جہاز کا شاہانہ استقبال
  • وزیرِ اعظم کیلئے سعودی عرب کا خصوصی پروٹوکول، سعودی فضائی حدود میں پہنچنے پر تاریخی استقبال
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • چھ جہاز گر گئے جنگ ہار گئے اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے، وزیر اطلاعات
  • لاہور میں سپلائی کے لیے تیار کی جانے والی جعلی ڈرنکس کی بڑی کھیپ پکڑی گئی
  • 27 ستمبر کو لندن میں طبی معائنہ‘ نواز شریف سوئٹزر لینڈ چلے گئے
  • قائد پاکستان مسلم لیگ نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ
  • نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ
  • ایران کا مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ آپریشن روم بنانے کا مطالبہ