اسٹریس اور انگزائٹی میں کیا فرق ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ویب ڈیسک— ہم میں سے اکثر لوگ ‘اسٹریس’ اور ‘انگزائٹی‘ کی کیفیت سے واقف تو ہوں گے لیکن شاید بہت سے لوگوں کو اِن دونوں کے درمیان فرق معلوم نہیں ہو گا۔
اسٹریس’ اور ‘انگزائٹی’ دونوں ایک دوسرے سے زیادہ مختلف تو نہیں ہیں لیکن دونوں کے درمیان فرق ضرور ہے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں اسٹریس یا ذہنی دباؤ کی جو روز مرہ روٹین میں کہیں نہ کہیں ہم میں سے اکثر لوگ محسوس کرتے ہوں گے۔
امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (این آئی ایم ایچ)کے مطابق انسان اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں اسٹریس محسوس کرتا ہے۔مثال کے طور پر کسی کو بہت زیادہ کام کی وجہ سے تناؤ محسوس ہوتا ہے یا زندگی میں کوئی تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے تو اس طرح کی کیفیت اسٹریس کہلاتی ہے۔
این آئی ایم ایچ امریکہ کے محکمۂ صحت کا ذیلی ادارہ ہے جو دماغی صحت سے متعلق ریسرچ اور اس کی روک تھام کے لیے کام کرتا ہے۔
اسٹریس اُس صورتِ حال کے گزرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ تناؤ محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔
مثلاً کسی امتحان سے قبل یا جھگڑے کے وقت ہونے والا تناؤ جھگڑا یا امتحان ختم ہونے کے بعد از خودختم ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اسٹریس کی کیفیت کسی کے لیے منفی تو کسی کے لیے مثبت ثابت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اسٹریس کی وجہ سے کوئی شخص وقت پر اپنا کام ختم کرنے کا عزم کر لیتا ہے۔ جب کہ بعض کے لیے یہ نیند اڑا دینے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں انگزائٹی یا اضطراب کی۔ انگزائٹی دراصل اسٹریس کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ انگزائٹی عام طور پر خوف یا خوف کا مستقل احساس ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دور نہیں ہوتا۔
انگزائٹی آپ کی روز مرہ روٹین کو متاثر کرسکتی ہے۔
انگزائٹی کا شکار افراد اُس وقت بھی خوف کی کیفیت میں رہتے ہیں جب حقیقت میں ان کے لیے کوئی خطرے والی صورتِ حال نہیں ہوتی۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق اسٹریس اور انگزائٹی دونوں ہی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔
اسٹریس اور انگزائٹی کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہنا، سر یا جسم میں درد، ہائی بلڈ پریشر اور نیند میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
البتہ لائف اسٹائل میں چند تبدیلیاں یا بعض کاموں کو عادت بنا لینے سے دونوں ہی صورتِ حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اسٹریس اور انگزائٹی کی کیفیت پر قابو پانے کے لیے ایکسرسائز، یوگا، مکمل نیند اور معتدل غذا مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے خیالات کو لکھنا بھی آپ کو پُرسکون کر سکتا ہے۔
اگر یہ تمام چیزیں کرنے کے باوجود بھی آپ اسٹریس یا انگزائٹی کا شکار ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ماہرِ نفسیات سے رجوع کیا جائے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل اسٹریس اور انگزائٹی کی وجہ سے سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاک سعودی معاہدہ، کامیابی، امکانات اور خطرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں نسبتاً کمزور ممالک کے لیے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور مواقع بھی، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو کمزور نہیں تو طاقتور بھی نہیں، بلکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود نہایت کمزور معاشی صورتحال سے دوچار ہے، ایسے میں مئی 2025 میں بھارت سے پانچ روزہ جھڑپ نے بالکل نئی صورتحال پیدا کردی، معاشی اور فوجی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں کمزور ملک پاکستان کی افواج نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرأت کی تاریخ رقم کردی اور بھارت کو بدترین شکست سے دوچار کردیا، اور یہاں سے پاکستان کے لیے مواقع کھلنا شروع ہوگئے، پہلے بھارت خلجان میں مبتلا ہوا، شرمندگی کے مارے سر نہیں اٹھا سکتا، اس کے بعد یورپ خصوصاً فرانس نے آنکھیں پھیریں اور ساتھ ہی امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات نے بھارت کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا، پھر پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں اور اب پاکستانی فوجی برتری یا دھاک نے قضیہ فلسطین اور اسرائیلی چیرہ دستیوں کے حوالے سے نئے امکانات پیدا کردیے اور اس سلسلے کا پہلا بڑا اقدام پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے اس سے خلیج کی سلامتی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کا مرکز سعودی عرب و پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری ہے، اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان ریاض میں جامع دفاعی معاہدہ ہوا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے پاک سعودی ’’اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی آٹھ عشروں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے، دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں یہ معاہدہ ہوا جو دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، معاہدہ خطے اور دنیا میں امن کے حصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں برادر ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ موجودہ اور متوقع خطرات سے نمٹا اور دفاعی تعاون کے مختلف پہلوئوں کو فروغ دیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا، معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے اور اپنے دفاع کے لیے ایک ملک کی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کے لیے موجود ہوگی۔ پاکستان مقدس مقامات کے دفاع میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دونوں ممالک بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیں گے۔
اس معاہدے سے بیک وقت کئی تبدیلیاں آسکتی ہیں، حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران، لبنان اور اب قطر پر حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی خصوصاً سعودی عرب میں جس نے اپنا پورا دفاع امریکا کے حوالے کررکھا ہے اور حال ہی میں امریکی حلیف قطر پر اسرائیلی حملہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ امریکا اسرائیل کے مقابلے میں اپنے کسی حلیف کا ساتھ نہیں دے گا، چنانچہ پاکستان کے مئی 2025 کے آپریشن بنیان مرصوص کے بعد عرب دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف ہوگئی تھیں، یقینا اس صورتحال دے پاکستان کو بڑے فوائد ملے ہیں، لیکن مستقبل میں دور رس نتائج والے کام یعنی سعودی سرمایہ کاری، پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع ویزوں میں آسانی وغیرہ کو یقینی بنانا پاکستانی قیادت کا کام ہے، ایسا نہ ہو کہ کچھ تیل مفت، کچھ لمبے ادھار پر اور قرضہ ری شیڈول کرواکے خوش ہوجائیں۔ اگر پاکستانی قیادت اپنے ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع یقینی بنادے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
ایک طرف جہاں یہ کامیابی اور موقع ہے وہیں پاکستان کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، خطرات یوں کہ اسرائیل، بھارت اور امریکا اس معاہدے کو ہضم نہیں کرسکیں گے اور کچھ نہ کچھ سازشیں ہوتی رہیں گی اور یہیں سے پاکستانی قیادت کا امتحان بھی شروع ہوگا کریڈٹ لینے اور دینے والے اب ذمے داری بھی لیں تاکہ معاہدے کے ثمرات پاکستانی قوم کو مل سکیں۔ یہ جو بار بار تکرار کی جارہی ہے کہ پاکستان مقدس مقامات کے تحفظ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا، اگر معاہدے میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کا لفظ ڈال دیا جاتا تو القدس کا تحفظ بھی اس میں شامل ہوجاتا اور یہ معاہدہ امت مسلمہ کا حقیقی ترجمان بن جاتا، ساتھ ہی صمود فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ بھی اس معاہدے کو چارچاند لگا دیتا۔