آرٹیکل 200 ججز کی ٹرانسفر کا اختیار دیتا، 10 فروری کو سب سامنے آ جائے گا، عقیل ملک
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر قانون و انصاف کا کہنا تھا کہ 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوگا، میڈیا پر خبر دیکھی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے کوئی جج لایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر کا اختیار دیتا ہے، 10 تاریخ کو جوڈیشل کمیشن اجلاس میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر کا اختیار دیتا ہے 10 فروری کو سب سامنے آیا جائے گا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوگا، میڈیا پر خبر دیکھی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے کوئی جج لایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر کا اختیار دیتا ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت کسی بھی جج کے حوالے سےحتمی بات نہیں کر سکتا، 10 تاریخ کو جوڈیشل کمیشن اجلاس میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
مشیر قانون و انصاف کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ میں مشاورت میں کوئی قباحت نہیں ہے، رولز بننے ہیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی بیٹھے اور ڈرافٹ لیکر آئے۔وزیراعظم شہباز شریف ایک کمیٹی بھی تشکیل دیں گے، کمیٹی تمام معاملات پر سیرحاصل ڈسکشن بھی کرے گی، تمام ت رمعاملہ واپس پارلیمنٹ میں بھی لایا جاسکتا ہے۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ 9 مئی کےحوالے سے تمام ثبوت بلیک اینڈ وائٹ موجود ہے، امریکا سے کبھی کال نہیں آنی، الزامات لگائے جاتے ہیں جن کا سر اور پیر نہیں ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کی ڈیڈلائن پی ٹی آئی نےخود دی تھی، عوام کے سامنے ہے کہ مفاہمت سے مزاحمت کی سیاست پر کون آیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو جوڈیشل کمیشن آرٹیکل 200 ججز کہنا تھا کہ عقیل ملک فروری کو جائے گا نے کہا
پڑھیں:
بھارتی اقدامات سے خطہ غیر مستحکم ہو چکا، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے: رضا ربانی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے اپنی داخلی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر ڈالا ہو۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں عالمی بنک کی سرپرستی میں طے پایا تھا۔ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔ یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کی کئی جنگوں اور دہائیوں پر مشتمل دشمنی کے باوجود قائم رہا۔ اس معاہدے کو معطل کرنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ معطلی آبی دہشتگردی ہے۔ کوئی فریق اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ بھارتی ردعمل کے نتیجے میں پورا خطہ غیر مستحکم ہو چکا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو وقتی طور پر اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔