امریکی امداد کی بندش زیادہ فکر کی بات نہیں!
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی امداد کی بندش پر ترجمان دفتر خارجہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے آرڈر کا جائزہ لیے رہیں ہیں، برسوں سے امریکہ و پاکستان مختلف شعبوں میں مختلف پروگرام پر کام کرتے رہے ہیں، ہم امداد کے معاملے پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاشی سطح پر تعلقات مزید بڑھانا چاہتے ہیں، امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے تعلقات امریکہ سے بہتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ 90 دن کے لیے تمام ممالک کے لیے امریکی امداد بند ہے، پاکستان میں مختلف شعبوں میں امریکی امداد کے تعاون سے کام ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بزنس مین دورہ کرتے رہتے ہیں، دورہ کرنے والے امریکی اچھے کاروباری افراد ہیں، کاروباری افراد کا دورہ پاکستان دفتر خارجہ کے ذریعے نہیں ہوا، بزنس مینز کا پاکستان آنا ایک معمول کا کام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایسی تمام امداد کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جو کسی بھی غیر ملک کو دی جا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ نئی امداد کی فراہمی پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔امریکہ نے پابندی سے متعلق یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو بھی بھیج دیاہے۔ اس دستاویز کے تحت صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل اور مصر کے لیے فوجی امداد کو اس حکم سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔دستاویز کے مطابق ‘اس دوران نہ کوئی نیا فنڈ جاری ہو گا اور نہ ہی موجودہ معاہدوں میں توسیع کی جائے گی جب تک کہ ہر نئے معاہدے یا توسیع کا جائزہ لے کر اس کی نئے سرے سے منظوری نہ دی جائے۔یہ معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا، جس میں انھوں نے 90 دن کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد کو مؤخر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ اس کے مؤثر ہونے اور ان کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کا جائزہ لیا جا سکے۔یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔محکمہ خارجہ کا یہ میمو ترقیاتی امداد سے لے کر فوجی امداد تک سب پر اثرانداز ہو گا۔احکامات میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کو فوری طور پر متعلقہ معاہدوں کی شرائط کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس میمو کے تحت3 ماہ کے اندر غیر ملکی امداد کے تمام پروگراموں کے وسیع پیمانے پر جائزے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کو پورا کرتی ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کہہ چکے ہیں کہ بیرونِ ملک امریکی اخراجات اور امداد صرف اسی وقت دی جائے گی جب ان سے امریکہ کی مضبوطی اسے محفوظ یا زیادہ خوشحال بنانا ثابت ہو سکے گا۔
محکمہ خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ نوٹس امریکی امدادی پروگراموں پر ممکنہ طور پر بہت بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔جن شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مدد دی گئی ان میں ایمرجنسی رسپانس، گورنمنٹ اینڈ سول سوسائٹی، آپریٹنگ اخراجات، بنیادی شعبہ صحت، توانائی، زراعت اور دیگر سماجی خدمات اور دیگر شعبے شامل ہیں۔پاکستان میں امداد بہم پہنچانے والے امریکہ کے اہم پارٹنرز میں ورلڈ فوڈ پروگرام، یو این چلڈرن فنڈ، امریکی حکومت کی اپنی ایجنسی، جے ایس آئی ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، نومارک ایسوسی ایٹس، یو این آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم اور یو این پاپولیشن فنڈ شامل ہیں۔امریکہ کے پاکستان میں سفارتخانے کی ویب سائٹ پر درج تفصیلات کے مطابق امریکہ نے گذشتہ 20 برس میں پاکستان کو 32 ارب ڈالر کی براہ راست امداد دی ہے۔امریکی دستاویزات کے جائزے سے یہ پتا چلتا ہے کہ 2001 سے لے کر 2010 تک پاکستان کی امداد میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی یہ امداد 2001 میں 175 ملین ڈالر سے بڑھ کر 268 ملین ڈالر تک ہو گئی۔یہ وہ عرصہ تھا جب امریکی اور اتحادی افواج افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں اور پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیاتھا۔2013 سے 2015 تک امریکہ نے پاکستان کی امداد میں قدرے اضافہ کیا مگر پھر 2018 تک اس میں مسلسل کمی کرنا شروع کر دی۔ 2018 اور 2019 کے درمیان اس امداد میں قدرے اضافہ کیا گیا مگر اس کے بعد پھر کمی لائی گئی۔امریکہ نے 2023 میں پاکستان کو 170 ملین ڈالر تک کی مدد فراہم کی جبکہ گذشتہ برس 2024 میں یہ امداد کم کر کے 116 ملین ڈالر کر دی گئی تھی۔امریکہ سے یہ امداد پاکستان کے عوام کو براہ راست نہیں ملتی تھی بلکہ اس کا بڑا حصہ تو پارٹنرز اور این جی اوز پر ہی خرچ ہو جاتا تھا۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اس امداد میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ان کے مطابق امریکہ یہ امداد پاکستان میں امریکی پارٹنرز اور این جی اوز کے ذریعے دے رہا تھا۔ اب امریکی امداد کی بندش سے وہ بڑے منصوبے متاثر ہوں گے جن میں یو ایس ایڈ، ڈیموکریسی رائٹس اینڈ لیبر، یو این ایس پی اور اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ذریعے چلنے والے بڑے منصوبے پاکستانی فوج کو ملنے والی امداد براہ راست امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے آتی تھی اس لئے اس پر کوئی بڑا اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔اب کم از کم 3 ماہ تک یہ امداد معطل ہے اور اس کے بعد تقریباً آدھے منصوبے بند کر دیے جائیں گے اور ان میں سے بھی بڑی تعداد میں معاہدوں میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اس سے قبل ‘جینڈر انکلیوسونس’ ہر معاہدے کا حصہ ہوتی تھی مگر اب یہ ٹرمپ کی ترجیح میں شامل نہیں ہے اور انھوں نے واضح کیا کہ صرف مرد اور عورت کی صورت میں 2 جینڈر ہی ہیں۔ صدر ٹرمپ جمہوریت کے فروغ سے متعلق بھی زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ خیال کیا جاتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب ان منصوبوں کے بجائے سرمایہ کاری اور اکنامک لٹریسی جیسے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے بڑے منصوبوں میں 21 اعشاریہ 5 ملین ڈالر کا ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس پروگرام بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ صحت کے منصوبوں پر 10 ملین ڈالر، یو ایس پے اینڈ بینیفٹس پر 8 ملین ڈالر سے زائد خرچ ہو رہے تھے۔ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے ساڑھے7 ملین ڈالر جبکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے 7اعشاریہ 7 ملین ڈالر امداد دی جا رہی تھی۔انسانی امداد میں 7 ملین ڈالر اور پولیو ویکسین کی مدد میں6 اعشاریہ8 ملین ڈالر اور 5 اعشاریہ 9ملین ڈالر یونیسف کو پاکستان میں جاری منصوبوں کے لیے امریکی امداد مل رہی تھی۔فاٹا اصلاحات کے لیے تقریباً ساڑھے 5 ملین ڈالر کی امداد دی گئی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ فی الوقت پاکستان کو ایسی کوئی امریکی امداد نہیں مل رہی جس کے بند ہونے سے حکومت یا عوام کو کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور یہ کہا جاسکتاہے کہ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کو دی جانے والی یہ امریکی امداد بہت ہی معمولی نوعیت کی ہے۔ پاکستان نے کافی عرصے سے امریکہ پر انحصار ختم کر دیا ہے اور اب کبھی کبھار ایف 16 کے فاضل پرزوں کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ماضی میں اگر امریکہ نے پاکستان کی مدد کی بھی ہے تو وہ اپنی خوشی اور مفادات کو دیکھ کر کی ہے۔ ان کے مطابق ‘اس وقت اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نہ ہونے کے برابر پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ تاریخی طور پر بین الاقوامی سطح پر امریکی حکومت کی ترقیاتی امداد اس کے جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔اگرچہ یہ اتنی بڑی امداد نہیں ہے مگر یہ امریکی صدر کا ایک خاص طرح کا رویہ ہے جس سے اگرچہ پوری دنیا ہی متاثر ہو گی لیکن اس سے پوری دنیا میں امریکہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوگی جبکہ۔ اس سے عالمی ادارے اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے ادارے متاثر ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگراس اعلان پر عملدرآمد کرایا تو پھر سب سے زیادہ نقصان امریکہ کا ہی ہوگا اور امریکہ عالمی سطح پر آہستہ آہستہ تنہا ہوتا جائے گا۔ یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے مختصر مدت میں ہی نقصان دہ ثابت ہوگا۔سابق فوجی آمر ایوب خاں کے دور میں امریکہ زور و شور سے پاکستان میں امداد لے کر آیا تھااور ولیج ایڈ نامی پروگرام متعارف کرایا تھا۔ پاکستان کیلئے امریکی امداد کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو سب سے زیادہ مدد فوجی آمروں کے دور میں ہی دی ہے جس سے امریکہ کے حوالے سے عوامی جذبات بھی متاثر ہوئے۔تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ نے پاکستان کے بہت سارے منصوبوں کیلئے جومدد دی ہے اس سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے۔ اگر یہ امداد بند ہوتی ہے تو پھر اس کے پاکستان پر معاشی اثرات کم اور امریکہ کے لیے سفارتی اثرات زیادہ ہوں گے کیونکہ امریکی امداد مشروط ہوتی ہے۔اب اس امداد کی بندش سے امریکہ کی اچھی ساکھ ختم ہو گی۔یہ بات واضح ہے کہ فوجی امداد کا ترقیاتی امداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجی امداد اسی وقت ملتی ہے جب امریکی مقاصد کیلئے امریکہ کو اس کی ضرورت ہو اور پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا ہو،ایسی صورت میں توفوری فوجی امداد مل جاتی ہے لیکن اگر پاکستان کو فوجی امداد کی اشد ضرورت ہوتو بھی امریکہ امداد دینے کے بجائے اس پر پابندی عاید کردیتاہے،پاک بھارت جنگوں خاص طورپر 70 کی دہائی میں ہم اس کا مزہ اچھی طرح چکھ چکے ہیں ،اور امریکی رہنماؤں کو بھی یہ یاد ہوگا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان کو امریکہ کی فوجی امداد کی اشد ضرورت تھی امریکہ نے پاکستان کی امداد روک کر اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی ان کوششوں کے باوجود پاکستان دنیا میں اپنے دیگر دوست ممالک کے تعاون سے اس مشکل گھڑی سے پروقار انداز میں باہر نکل آیاتھا اور یہ ثابت کردیاتھا کہ پاکستان امریکی امداد کے بغیر بھی دنیا کے نقشے پرقائم رہنے کی سکت رکھتاہے۔اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امداد کی بندش کے اس اعلان کے بعد پاکستان میں امریکہ کے جاری منصوبوں پر نفسیاتی اثر ضرور پڑے گا مگر جو معاہدے ہو چکے ہیں وہ منصوبے مکمل ہوں گے۔ ‘90 کی دہائی میں ماضی میں امریکہ نے پاکستان کے لیے جاری منصوبے بھی بند کر دیے تھے۔ہم وسائل کی کمی کا شکار ملک ہیں اس لئے امداد امریکہ کی ہو یاکسی اور ملکی اس کے اثرات مثبت ہیں ۔واشنگٹن میں موجود تجزیہ کار مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکی امداد وصول کر رہا تھا اور پاکستان میں یو ایس ایڈ ان امدادی منصوبوں میں بہت مگن تھی۔ان کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو دی جانے والی امریکی امداد پر بہت تنقید بھی ہو رہی تھی۔ اسی وجہ سے نئی انتظامیہ نے ایسا فیصلہ کیا۔مائیکل کگلمین کے مطابق اس فیصلے سے ضرورت مند طبقات بری طرح متاثر ہوں گے اور اس پابندی کا وقت بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس وقت پاکستان پہلے سے ہی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ ہر برس500 پاکستانی مختلف ایکسچینج پروگرامز اور تعلیمی اسکالرشپ پر امریکہ جاتے ہیں۔لیکن یہ امداد تکنیکی طور پر غیرملکی امریکی امداد کے زمرے میں نہیں آتی جسے معطل کیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ نے توقع ظاہرکی ہے کہ امداد کی یہ بندش ہے اور جلد ہی یہ امداد بحال کردی جائے گی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے یہ پروگرام جاری رہیں گے اور امریکہ میں اس وقت فلبرائٹ ا سکالرشپ پر زیر تعلیم طلبہ بھی اس پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے۔تاہم امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان میں مقیم 14 ہزار کے قریب وہ افغان پناہ گزین بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں جن کی بڑی تعداد امریکہ جانے کی منتظر تھی۔ فی الحال تو کم از کم 90دن کے لیے سب کچھ ہی رک گیا ہے۔ اس پابندی سے سب زیادہ غیرسرکاری شعبہ متاثر ہو گا، جن کے ذریعے یہ امداد دی جا رہی تھی۔ اس پابندی سے صرف پاکستان ہی نہیں اقوام متحدہ کا بجٹ بھی متاثر ہوگا۔خیال کی جاتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی لگائی ہوئی اس پابندی کا پاکستان کے کاونٹر ٹیررازم یعنی انسداد دہشت گردی کے شعبے پر بہت کم ہی اثر ہوگا۔ بلوچستان کی سرحد پر کاؤنٹر ٹیررازم کی کچھ عمارتیں ہیں جو امریکی امداد سے چلائی جا رہی تھیں اور اب وہ آپریشن اس پابندی سے متاثر ہوں گے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: امریکہ نے پاکستان ترقیاتی امداد امداد کی بندش امریکی امداد متاثر ہوں گے اس پابندی سے اور پاکستان پاکستان میں میں امریکہ فوجی امداد ڈونلڈ ٹرمپ کہ پاکستان پاکستان کو پاکستان کی پاکستان کے جا رہی تھی سے امریکہ ملین ڈالر امریکہ کی کہ امریکی امریکہ کے کے ذریعے کی امداد متاثر ہو یہ امداد کا جائزہ امداد کے کے مطابق ٹرمپ کی کے ساتھ نہیں ہے ہے اور گیا ہے یہ بات کی مدد کے بعد کے لیے
پڑھیں:
قربانی کے بعد معیشت کا خزانہ
عیدالاضحی کا سماں ہو، گلی گلی، بستی بستی، قصبوں وشہروں میں قربانی کے لیے جانور ذبح کیے جا رہے ہوں، نوجوانوں کی ٹولیاں گوشت بنانے میں مصروف ہوں، سب کی نظریں گوشت پر ہی ہوتی ہیں۔
سات حصے ہوں تو ناپ تول سے کام چلایا جاتا ہو، بکرا یا دنبہ ہو تو ادھر کھال ادھیڑی دیگر فضلہ نکال باہرکیا اور سالم بکرا فریزر کی نذر ہوکر رہ گیا۔ لیکن کھال کے علاوہ دیگر اشیا بھی ہوتی ہیں جیسے ہڈیاں، سینگ، اوجھڑی، خون اور چربی۔ بس ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ کسی طرح ان آلائشوں کو ٹھکانے لگایا جائے لیکن راقم کو یہی فکر ستائے جاتی ہے کہ جسے گند سمجھ کر آلائش سمجھ کر بے کار سمجھ کر پھینکا جا رہا ہے جہاں وہ گلتا سڑتا رہتا ہے تعفن، بدبو اور بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے، اس کو مکمل طور پر استعمال میں لا کر ایک بڑی صنعت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس فالتو میٹریل سمجھے جانے والے کوڑا کرکٹ کا 15 فی صد حصہ ہی پاکستان میں استعمال ہو رہا ہے۔
قربانی محض عبادت نہیں ہے یہ معیشت کی شہ رگ بن سکتی ہے اور وفاقی حکومت کو چھوڑ دیں صوبائی حکومت کو چھوڑ دیں، مقامی انتظامیہ، بلدیہ، ان کے سربراہان اس پر وہ نگاہ ڈالیں جس سے روزگارکی شاخیں نکلتی ہوں، صنعتی برآمدات کی جھلک ہو۔ بس اب اپنی سوچ کا زاویہ بدل لیں، جب میونسپلٹی کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان فضلات کو ٹھکانے لگایا جائے۔
آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ برازیل، ہالینڈ، چین کس طرح سے جب جانور کو ٹھکانے لگاتے ہیں تو صرف گوشت اور کھال نہیں حاصل کرتے بلکہ وہ ان جانوروں سے حاصل کردہ آلائشوں سے کس طرح مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ مثلاً برازیل جیلاٹن، بائیوڈیزل اور بلیوں کی خوراک تیار کرنے میں بازی لے گیا۔ کہتے ہیں کہ سوا ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔
ہالینڈ ویلیو ایڈڈ لیدر، اور پرفیوم تیار کرکے تقریباً ایک ارب ڈالر کما لیتا ہے، چین مکمل آلائش کو ری سائیکلنگ کر لیتا ہے اور ویٹرنری پراڈکٹس تیار کرکے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سمیٹ لیتا ہے اور پاکستان میں صرف 2 سے ڈھائی کروڑ ڈالر اس میں بھی زیادہ رقم کھال بیچ کر کچھ چربی اور ہڈیوں سے انکم ہوتی ہے۔ حالانکہ اس ملک میں 80 لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی سے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آلائشوں کے پہاڑ کھڑے کر لیے جاتے ہیں۔
حل یہ ہونا چاہیے کہ قربانی کے ویسٹ کے لیے ہر یونین کونسل کی سطح پر ہر گاؤں کی سطح پر کلیکشن پوائنٹ بنائے جائیں، پھر ہر شہر ضلع میں ایسے صنعتی یونٹ ہوں جوکہ ان آلائشوں سے صابن، کھاد، جیلاٹن اور بلیوں کے لیے خوراک بنا کر ایکسپورٹرز کے حوالے کریں۔ وہ برآمد کرکے اس کی رقم یونین کونسل کو جمع کرائے جس سے علاقے میں ترقیاتی کام مکمل کرائے جائیں۔ پورے پاکستان میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ یہ قربانی کا کچرا نہیں جسے گٹر میں پھینک دیا جائے، زمین میں دبا دیا جائے بلکہ یہ تو ملکی معیشت کا خزانہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں ہڈیوں سے محدود پیمانے پر جیلاٹن بنایا جاتا ہے جب کہ 90 فی صد جیلاٹن ہم اب بھی مختلف ملکوں سے درآمد کر لیتے ہیں۔ پنجاب میں ایسے چھوٹے کارخانے دیکھے گئے ہیں جہاں ہڈی چربی خون اوجھڑی کو پروسیس کرکے پالتو جانوروں کی خوراک بناتے ہیں۔ صابن گلو اور کھاد بھی بنا لیا جاتا ہے لیکن غیر معیاری کام ہوتا ہے۔ برآمدات کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ چربی سے کچھ اشیا تیار ہوتی ہیں لیکن انتہائی محدود پیمانے پر۔ حالانکہ 80 لاکھ سے زائد جانوروں سے گوشت علیحدہ کر لیں۔
لاکھوں کھالوں کو ٹک لگ جانے کے باعث قیمت انتہائی کم رہ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30 سے 35 ہزار ٹن چربی حاصل ہوتی ہے۔ 50 ہزار ٹن سے زائد ہڈی حاصل ہوتی ہے۔ اوجھڑی 30 ہزار ٹن اور خون 10 سے 12 ہزار ٹن حاصل ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں یا غلط اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کا 15 سے 20 فی صد ہی استعمال ہوتا ہے باقی دفن یا کسی کھلے علاقے میں لے جا کر ڈھیر لگا دیتے ہیں۔
اب آپ دیکھیں ہر جانورکی کھال قربانی کا خاموش تحفے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ زیادہ تر کھالیں ہم ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں مزید لیدر انڈسٹری لگائیں،کیونکہ یہ کھالیں اور دیگر ملکوں کی کھالوں میں مقابلہ نہیں۔ پاکستان خود ان سے اگرچہ کم مقدار میں لیدر جیکٹس، جوتے، بیگز وغیرہ بناتا ہے۔ تشہیرکرے اور عالمی سطح پر دعویٰ کرے کہ قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جیکٹس ہوں یا جوتے کوئی بیماری نہیں لگے گی۔
میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو شوگر کا مریض جسے ڈاکٹرز ڈراتے رہتے ہیں کہ اپنے پیروں کی حفاظت کرو وہ شخص قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جوتے پہنے وہ پاؤں کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا اور چربی جس سے صابن، لپ اسٹک، شیمپو بنایا جاتا ہے، شیمپو سے یاد آیا کہ اکثر بالوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ شیمپو بدلو۔ ارے بھائی، شیمپو نہیں بدلو بلکہ قربانی کے جانور کی چربی سے تیار کردہ شیمپو لگاؤ،کبھی بدلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اوجھڑی اور آنتوں سے انتہائی کم مقدار میں سرجیکل دھاگہ بنایا جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ برآمد کیا جاتا ہے اور تقریباً ایک کروڑ ڈالرز کما لیتے ہیں۔ یہ 50 سے 60 کروڑ ڈالر تک باآسانی لے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اوجھڑی وغیرہ کو گندگی کے ڈھیر میں نہ بدل دیا جائے۔ سینگ اور کھر سے کئی اشیا بنائی جاتی ہیں جن میں بٹن، ہینڈی کرافٹ وغیرہ وغیرہ ہیں اور آمدن صرف 20 سے 30 لاکھ ڈالر۔ بھئی یہ 30 سے 40 کروڑ ڈالرز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ گلی گلی میں گائے، بکرے کے سینگ پھینک دیے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ برآمدات 3 سے 4 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی، قربانی کے بعد معیشت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔