جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کے لیے 10 ایڈیشنل ججز کی منظوری دے دی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے جاری اعلامیے کے مطابق، پشاور ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کے زیرصدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے 2، بلوچستان کے لیے 3 ججوں کے ناموں پر اتفاق

اجلاس میں 10 ایڈیشنل ججز کی منظور دی گئی جن میں وکلا محمد طارق آفریدی، عبدالفیاض، ثابت اللہ خان، صلاح الدین، صادق علی، سید مدثر امیر، اورنگزیب ایڈووکیٹ اور قاضی جواد احسان اللہ کے علاوہ 2 سیشن ججز فرح جمشید اور انعام اللہ خان بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان  کے اجلاس میں پشاور ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا، اجلاس کے ایجنڈے میں 9 ایڈیشنل ججز کی تعیناتیوں کے لیے 40 نام زیر غور تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ میں 12 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکشن جاری

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے 10 ججز کی تقرری کا کہا، جوڈیشل کمیشن کے 3 ارکان کی جانب سے اضافی تعیناتی کی مخالفت کی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

10 wenews ایڈیشنل ججز پشاور ہائیکورٹ تعیناتی تقرری جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی منظوری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایڈیشنل ججز پشاور ہائیکورٹ تعیناتی جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس یحیی ا فریدی ایڈیشنل ججز کی تعیناتی پشاور ہائیکورٹ جوڈیشل کمیشن ا ا ف پاکستان کے لیے

پڑھیں:

جیوڈیشل کمیشن کے ارکان اور پرائیویٹ پریکٹس

26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک نیا جیوڈیشل کمیشن معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس جیوڈیشل کمیشن کے عدلیہ کے سینئر ججز کے ساتھ ارکان پارلیمنٹ بھی ممبر ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے وکلا ارکان پارلیمنٹ کو اپنی اپنی طرف سے جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کیا ہے۔

یہ شاید اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انھیں آئین وقانون کی بہتر سمجھ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جیوڈیشل کمیشن میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر کو جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔ جب کہ پیپلزپارٹی نے ماہر قانون فاروق ایچ نائیک کو ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے سینئیر وکیل احسن بھون کو اس کا ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔

میں ذاتی طور پر جیوڈیشل کمیشن کے خلاف نہیں ہوں نہ ہی میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ہوں۔ میں ججز کی تعیناتی اور ان کے احتساب میں پارلیمان کے کردار کا حامی ہوں۔ میں پارلیمان کی بالادستی پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور پارلیمان کو ایک بالا دست ادارہ سمجھتا ہوں۔ میں جیوڈیشل ایکٹوزم کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہوں۔

میں عدلیہ کے سیاسی کردار کے خلاف ہوں۔ کیونکہ عدلیہ اپنے سیاسی کردار کو اپنے فیصلوں سے آئینی تحفظ دینے کی کوشش کرتی ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ میں سیاسی ججز کے خلاف ہوں۔ میں عدالتی آمریت کے بھی خلاف ہوں۔ ہماری عدلیہ میں 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کے پاس زیادہ اختیارات تھے۔ پھر عدلیہ کو حکومتیں گرانے اور بنانے کا بھی شوق پڑ گیا تھا۔ اس لیے میں جیوڈیشل کمیشن اور 26ویں آئینی ترمیم دونوں کے حق میں ہوں۔ اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے کیونکہ اب میں جو بات لکھنے جا رہا ہوں وہ جیوڈیشل کمیشن کے ممبران کے بارے میں ہے۔

اس لیے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں جیوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اس کی حیثیت کے خلاف نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں جیوڈیشل کمیشن کو ججز کے احتساب کے نظام کو بہتر کرنا چاہیے، انھیں ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے، نالائق ججز کو نکالنا چاہیے، چیف جسٹس لگانے چاہیے، ججزکے کوڈ آف کنڈکٹ پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن کیا جیوڈیشل کمیشن کے اپنے ارکان کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ادارہ عدلیہ کو چلانے کا ذمے دار ہو اس کا اپنا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہ ہو۔ جس سے ہم عدلیہ کے احتساب کی توقع رکھتے ہیں اس کے اپنے احتساب کا کوئی طریقہ کار موجود نہ ہو۔

ہمیں یہ بات ماننی چاہیے کہ جیوڈیشل کمیشن اس وقت عدلیہ کو ریگولیٹ کرنے کا ایک موثر ادارہ بن گیا ہے۔ اس لیے اس کے ممبران کی ذمے داری بھی زیادہ ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جیوڈیشل کمیشن کے وکلا ممبران جیوڈیشل کمیشن کا ممبر بننے کے بعد اپنی ذاتی وکالت کی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ جن ججز کی تعیناتی کا معاملہ جیوڈشل کمیشن میں زیر غور ہے جب ان ججز کے سامنے جیوڈیشل کمیشن کا کوئی ممبر پیش ہوتا ہے تو جج صاحب ریلیف دیتے ہیں۔ کیونکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جج صاحب اپنے لیے جیوڈیشل کمیشن کا ایک ووٹ پکا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جیوڈیشل کمیشن کے ممبر کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ریلیف دے دیتے ہیں ۔ اس طرح ممبر بھی خوش جج بھی خوش ۔ میں کسی خاص واقعہ کو اس وقت تحریر نہیں کرنا چاہتا لیکن ایسے خاص واقعات سامنے آئے ہیں۔

جیوڈیشل کمیشن کے ممبران کے لیے ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ انھیں شتر بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سب کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ بنائیں اور ان کے لیے کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہ ہو۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جیوڈیشل کمیشن کو یہ طے کرنا چاہیے کہ جب تک اس کے وکیل ممبران جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں وہ اپنی ذاتی پریکٹس نہیں کر سکتے۔ وہ ججز کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو ان کی روزی روٹی ہے۔ اگر روزی روٹی ہے تو پھر جیوڈیشل کمیشن کے ممبر نہ بنیں۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنے وکیل ارکان پارلیمنٹ کو ہی جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کریں گی۔ اگر کوئی ممبر اپنی ذاتی پریکٹس جاری رکھنا چاہتا ہے تو جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نہ بنے، اگر ذاتی پریکٹس کی قربانی دے سکتا ہے تو ممبر بن جائے۔ اب سیاسی جماعتوں کے ممبران پر تو یہ کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہو بھی جائے تو پاکستان بار کونسل کے ممبر تو اپنی ذاتی پریکٹس جاری رکھیں گے۔ وہ تو ممبر ہی وکیل ہونے کی وجہ سے بنے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ جیوڈیشل کمیشن کے گزشتہ اجلاسوں میں کئی تعیناتیاں صرف ایک ووٹ سے ممکن ہو گئی ہیں اور کئی صرف ایک ووٹ سے مسترد ہو گئی ہیں۔ اس لیے ایک ایک ووٹ اہم ہے۔ایک ووٹ کسی کو چیف جسٹس بنا بھی سکتا ہے اور کسی کو بننے سے روک بھی سکتا ہے۔

جب کوئی ممبر بھی کسی ایسے جج کے سامنے پیش ہونگے جس کا معاملہ جیوڈشل کمیشن میں زیر غور ہوگا تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ کہیں گے ایسے تو اٹارنی جنرل بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں۔ وہ تو حکومت کے وکیل ہیں۔ کیا وہ بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونے کی وجہ سے پیش نہ ہوں۔ نہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان پر یہ قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ یہ پرائیوٹ پریکٹس پر ہونی چاہیے۔ جہاں آجکل یہ رحجان دیکھنے میں آرہا ہے کہ کلائنٹس اس لیے بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر کو وکیل کر رہے ہیں کہ اس کو آسانی سے ریلیف مل جائے گا۔ جج اس کی بات زیادہ سنیں گے۔ یہ جج کو دباؤ میں لا سکتا ہے۔

اس لیے میری رائے میں جیوڈیشل کمیشن کے ارکان کا بھی کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ ان پر بھاری ذمے داری ہے۔ وہ ملک کی عدلیہ کے فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ جنھوں نے پوری قوم کا فیصلہ کرنا ہے۔ ان ممبران نے ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس لیے ان ممبران کو کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔

انھیں قواعد اور قاعدے کا پابند بنانا ہوگا۔ مجھے علم ہے کہ میں ایک مشکل بات کر رہا ہوں۔ سادہ جواب یہی ہوگاکہ یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن اس کو ممکن بنانا ہوگا۔ ایسے ہی جیسے چیف جسٹس کا بیٹا جج صاحب کے سامنے بطور وکیل پیش ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس کا بیٹا ہونے کی وجہ سے انھیں غیر معمولی ریلیف ملے گا۔ ہم نے دیکھا ججز کے بیٹوںکی پریکٹس والد کی وجہ سے کیسے چلی ہے۔ اس لیے اس معاملہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور، وکلا تنظیموں کی اسرائیلی جارحیت کی مذمت،ایران کیساتھ اظہار یکجہتی
  • لاہور ہائیکورٹ :گریڈ 20 اور 21 کے افسران سے گاڑیاں واپس لینے کا حکم
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: پاکستان نرسنگ کونسل کی صدر فرزانہ ذوالفقار کی تعیناتی کالعدم قرار
  • پشاور،آل یونیورسٹیز ایمپلائز فیڈریشن کے ملازمین مطالبات کی عدم منظوری پر سراپا احتجاج ہیں
  • جیوڈیشل کمیشن کے ارکان اور پرائیویٹ پریکٹس
  • نائب وزیر اعظم محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس ، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ وزارتی کمیشن کے 12 ویں اجلاس کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا
  • مالی سال2025-26 کیلئے 3451.87 ارب روپے کا بجٹ، سندھ کابینہ نے منظوری دیدی
  • خیبرپختونخوا کا آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ آج پیش کیا جائے گا
  • اڈیالہ جیل سے جوڈیشل کمپلیکس لائے گئے ملزمان میں سے ایک غائب
  • پشاور ہائیکورٹ؛ امریکا کے خلاف سینئر صحافی کا ہرجانے کا مقدمہ بحال کرنے کا حکم