پشاورہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی، ہزارڈویژن کو نظر انداز کرنے پر وکلا کا ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ہزارہ ڈویژن کی کابینہ کا ہنگامی اجلاس زیر صدارت جناب صدر ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ایبٹ آباد منعقد ہوا؎۔ اجلاس میں کابینہ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے فیصلے، جس میں پشاور ہائی کورٹ میں حجز کو تعینات کیا اور ہزارہ ڈویژن سے نامزد وکلا کے ناموں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اور یکسر نظر انداز کرنے اور ہزارہ ڈویژن کے نامز د وکلا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے پر انتہائی غم وغصہ کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم جوڈیشل کونسل نے 30 زیر التوا شکایات نمٹا دیں، ججز کے ضابطہ اخلاق کے لیے کمیٹی بھی قائم
اجلاس میں کہا گیا کہ JCP کے اس فیصلے پر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ہزارہ ڈویژن و جملہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن تحصیل بار ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لے کر JCP کے اس فیصلے کے خلاف اگلا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اجلاس کے فیصلے کے مطابق اس سلسلہ میں صدر ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ہزارہ ڈویژن نے تمام ضلعی و تحصیل صدور صاحبان سے رابطہ کر کے ان کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ قرارداد منظور کروا کر اس پر فوری عمل کے لیے متعلقہ احکام و اداروں سے رابطے کئے جائیں گے، تاکہ ہزارہ ڈویژن کے وکلا کو ان کا جائز قانونی و آئینی حق دلایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پشاور ہائیکورٹ ججز تعیناتی سپریم جوڈیشل کونسل ہزارہ ڈویژن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ ججز تعیناتی سپریم جوڈیشل کونسل ہزارہ ڈویژن بار ایسوسی ایشن ہائی کورٹ بار ہزارہ ڈویژن
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، شوہر کی وفات پر بھرتی ہونے والی بیوہ کو دوسری شادی پربرطرف نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا، 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اس کے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیرِ بحث آیا تھا جس پر عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کے خلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں. بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے.بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیئے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مالی خود مختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے، جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو اس کی دوسری شادی پر انکم ٹیکس محکمہ کے آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا. بیوہ عورت کو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم کے ذریعے نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں، ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے بھی خلاف ہیں، بیوگی کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے. بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت و حقوق کی حقدار ہے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیراعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے تھا. سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں۔سپریم کورٹ نے چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی۔