بحریہ یونیورسٹی کراچی کاکا نووکیشن ، 1.791طلباء میں اسناد تفو یض
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)وزیر تعلیم و ترقی معدنیات سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے نوجوانوں کو اعلی تعلیم کے حصول میں مدد کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، ہر سال سندھ کے ساڑھے ساتھ ہزار سے زائد نوجوان حکومتی اسکالرشپ کے تحت ملک بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، سندھ ایجوکیشن اینڈومنٹ فنڈ کی طرف سے دی جانے والی اسکالرشپ سرکاری و نجی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے، یہ اقدامات محنتی اور ضرورتمند طلبا کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے پیچھے نہ رہ جائیں۔یہ بات انہوں نے اتوارکو بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس کے 20 ویں کانووکیشن میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کے دوران اپنے خطاب میں کہی۔ بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس نے پاکستان نیوی اسکول آف لاجسٹکس کے اشتراک سے 20 واں کانووکیشن شاندار انداز میں میری ٹائم میوزیم کے کنونشن ہال میں منعقد کیا۔ دو سیشنز پر مشتمل کانووکیشن میں یونیورسٹی اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات اور ان کے والدین نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین، انجینئر وسیم نذیر انہوں نے پی ایچ ڈی، پوسٹ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ پروگرامز کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو اسناد عطا کیں۔صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے اس موقع پر فارغ التحصیل طالبات و طالبات و ان کے والدین کا کو ڈگریز حاصل کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ علم کا اصل سفر عمل سے شروع ہوتا ہے، انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے صلاحیتیں ملک اور عام لوگوں کی فلاح کے لیے بھی بروئے کار لائیں، وزیر تعلیم نے صوبائی حکومت کے اقدامات کے حوالے سے کہا کہ سندھ ایجوکیشن اینڈومنٹ فنڈ ملک میں صوبائی حکومت کی طرف سے ملنے والا واحد اسکالرشپ کا نظام سے جس کی مدد سے ملک بھر کی یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ یہ اسکالرشپ بحریہ یونیورسٹی کے لیے بھی ہیں، ہمارا مقصد ضرورتمند اور محنتی طلبا کے سرکاری و نجی یونیورسٹیز میں یکساں مواقع پیدا کرنا ہے۔ صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کی پاک بحریہ کی ملکی سمندری حدود کی حفاظت کی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ قومی ادارہ تعلیم کے حوالے سے بھی اپنے خدمات کے سبب اعلی مقصد حاصل کر رہا ہے۔ سید سردار علی شاہ نے استقامت اور مسلسل سیکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سیکھنے کا سفر کلاس روم سے باہر بھی جاری رہتا ہے۔بحریہ یونیورسٹی کے ریکٹر، وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) عاصف خالق ہلال امتیاز (ملٹری) نے اپنے استقبالیہ خطاب میں مہمانانِ خصوصی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس تقریب کو رونق بخشی۔ انہوں نے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے انہیں پراعتماد انداز میں اپنے مستقبل کی تعمیر کی تلقین کی۔ انہوں نے بحریہ یونیورسٹی کی علمی برتری اور جدید عالمی رجحانات، بالخصوص مصنوعی ذہانت (AI)، کو اپنانے کے عزم کو اجاگر کیا۔ ریکٹر نے یونیورسٹی کی انتظامیہ، فیکلٹی اور عملے کی انتھک محنت کی بھی تعریف کی، جنہوں نے ملک کے نوجوانوں کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنے خطاب میں انجینئر وسیم نذیر نے فارغ التحصیل طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "بحریہ یونیورسٹی کے یہ فارغ التحصیل طلبہ روشن مستقبل کے علمبردار ہیں، جو علم، مہارت اور اعلی اقدار سے آراستہ ہو کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔"تقریب میں مختلف شعبہ جات کے 1,791 طلبہ کو اسناد تفویض کی گئیں، جن میں 11 پی ایچ ڈی ڈگریاں بھی شامل تھیں۔ ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کا تعلق مندرجہ ذیل شعبوں سے تھا: مینجمنٹ اسٹڈیز، بزنس اسٹڈیز، ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز، کمپیوٹر سائنسز، ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسز، میری ٹائم سائنسز، الیکٹریکل انجینئرنگ، سافٹ ویئر انجینئرنگ، کمپیوٹر انجینئرنگ، میڈیا اسٹڈیز، اور پروفیشنل سائیکالوجی۔ مزید برآں، شاندار تعلیمی کارکردگی کے اعتراف میں 46 گولڈ میڈلز اور 42 سلور میڈلز بھی نمایاں طلبہ کو دیے گئے۔ مہمانانِ خصوصی نے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی محنت اور لگن کو سراہا اور انہیں تلقین کی کہ وہ معاشرے اور ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: فارغ التحصیل طلبہ سید سردار علی شاہ بحریہ یونیورسٹی یونیورسٹیز میں وزیر تعلیم انہوں نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔