جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کیا جائے ،وکلابرادری کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
حیدرآباد: سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شاکر نواز شاہ سانگھڑ واقعے کیخلاف احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے ہیں
اسلام آباد: وکلا برادری نے 10 فروری کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے اور دوسرے صوبوں سے لائے گئے ججز کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ 10 فروری کو احتجاجاً شاہراہ دستور کو کالے کوٹوں سے بھر دیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں منعقدہ آل پاکستان وکلا کنونشن میں وکلا نے شرکت کرتے ہوئے عدلیہ میں تقرریوں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے مطالبات پیش کیے، جس میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی۔
وکلا نے 26 ویں آئینی ترامیم کے تحت موجودہ 16 ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینے اور پیکا ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وکلا نے کہا کہ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گی، اگر ان کے مطالبات منظور نہیں ہوئے تو دوبارہ مشاورت کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور ہڑتال کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا ئے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اور کشمیری سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ یہ اجلاس بھارتی پارلیمنٹ کے جاری مانسوں اجلاس کے موقع پر منعقد کیا گیا تاکہ ریاستی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو پارلیمنٹ تک پہنچایا جا سکے۔سابق بھارتی مصالحت کار رادھا کمار نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائی جائے۔ اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
سابق داخلہ سکریٹری Gopal Pillai سمیت 122 سابق سرکاری افسران کی دستخط شدہ ایک عرضداشت بھی بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو پیش کی گئی جس میں ان پر ریاستی حیثیت کی بحالی کیلئے ایوان میں قرارداد لانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔ فاروق عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کا فیصلہ غیر قانونی تھا جسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کشمیر آج بھی درد و تکلیف کا شکار ہے، کشمیریوں کو ان گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے سجاد کرگیلی نے کہا کہ لداخ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، ہماری زمین خطرے میں ہے۔