چینی تاجر برادری کی امریکی محصولات میں اضافے کی سخت مخالفت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
چینی تاجر برادری کی امریکی محصولات میں اضافے کی سخت مخالفت china trade WhatsAppFacebookTwitter 0 3 February, 2025  سب نیوز 
بیجنگ(شِنہوا)بین الاقوامی تجارت کے فروغ کے لئے چینی کونسل(سی سی پی آئی ٹی) کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین کی کاروباری برادری چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کرنے کے امریکی فیصلے پر شدید افسوس اور سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
سی سی پی آئی ٹی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر اضافی محصولات کا نفاذ عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور بہت سے امریکی کاروباری اداروں اور صارفین کو اس کے اثرات برداشت کرنا ہوں گے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس اقدام سے چین اور امریکہ کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون میں خلل پڑے گا اور عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔
ترجمان نے زور دے کر کہا کہ تجارت اور محصولات کی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہے، امریکہ کے غلط اقدامات سے اندرون ملک امریکی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے بجائے اس سے چین اور امریکہ کے تعلقات کو نقصان ہوگا اور عالمی اقتصادی ترقی پر منفی اثر پڑےگا۔
ترجمان نے کہا کہ چین کی کاروباری برادری نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے غلط کاموں کو درست کرے، چین کے ساتھ مل کر کام کرے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنائے تاکہ دونوں ممالک اور دنیا کی کاروباری برادریوں کے لئے باہمی مفید نتائج کے لئے سازگار بین الاقوامی ماحول کو فروغ دیا جاسکے اور عالمی معیشت میں مزید استحکام اور مثبت رجحان لایا جاسکے۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
 
 امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔
 
 امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
 
 ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔