Nai Baat:
2025-11-03@03:04:43 GMT

با اختیار لوگوں کی بے بسی

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

با اختیار لوگوں کی بے بسی

کچھ مناظر ہیں جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے بے پناہ اور غیر انسانی اختیارات پر طاقت ور لوگوں کی بے بسی پر چیختے ہیں۔ میں ان بے ترتیب مناظر میں سے چن چن کر چند مناظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ بھی چشم تصور میں لفظوں سے نکل کر ذرا اس ہجوم کا حصہ بنیں جو کاغذ کی پرچیوں کے سامنے بے بس ہیں۔
ایک بڑی عدالت کے سامنے ابھی ابھی قتل ہوا ہے۔ مقتول کو پرانی رنجش پر اس کے خاندانی دشمن نے اپنی اپنی پیشیوں پر آئے ہوئے سیکڑوں سائلوں اور درجنوں وکلا کے سامنے گولی مار دی ہے۔ وکیلوں کے کئی منشی بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں اور پولیس افسران بھی اپنے اپنے ریکارڈ کے ساتھ توبہ توبہ کر رہے ہیں۔ قاتل جائے وقوعہ سے فرار ہو کر کسی وکیل کی مدد سے پارکنگ کی اوٹ میں چھپتا ہوا غائب ہو گیا ہے اور اسے کسی نے نہیں پکڑا۔ پولیس والے مختلف تھانوں سے آئے ہیں جن کا اس علاقے میں ہونے والے قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ مقامی تھانے کا پولیس افسر لا تعلق کھڑا ہے کہ اس وقوعہ کی کوئی درخواست اسے نہیں ملی اور مقدمہ کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے۔
میں عدالت عالیہ کے سینئر جج کی عدالت میں تھا جب فائرنگ اور شور شرابے کی آوازوں پر جج صاحب چونک اٹھے تھے، انہیں نائب کورٹ نے بتا دیا تھا کہ عدالت کے سامنے قتل ہوا ہے، وہ تمام کیس ملتوی کرتے ہوئے اپنے چیمبر میں جا چکے تھے جب ہم سب ٹھنڈی پڑتی لاش کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ مقتول کے چہرے پر سالہا سال کی مقدمہ بازی کی سلوٹیں تھیں مگر اب آنکھوں میں آخری تاریخ کے دئیے روشن تھے جیسے وہ مر کر بھی اپنی موت کی تصدیق کے لیے کسی قانونی پرچی یعنی ڈیتھ سرٹیفیکٹ کا منتظر تھا۔ مقامی تھانے نے اپنے سب انسپکٹر کی مدعیت میں نا معلوم ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے لاش کو سرد خانے میں رکھوا دیا حالانکہ ایک لمحے میں عدالت سے اس کے کیس کی پرانی فائل اٹھا کر اس کے گھر تک پہنچا جا سکتا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ احاطہ عدالت میں سیکڑوں قانونی افراد کی موجودگی میں ہونے والے قتل کا کوئی گواہ بھی صفحہ مثل پر موجود نہیں تھا۔ اعلیٰ عدالتی اختیارات کے باوجود یہاں پر موجود سبھی لوگ گونگے تھے، بہرے تھے، اندھے تھے اور قانون تو ویسے بھی آنکھیں نہیں رکھتا۔

دوسرا منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہسپتال کے ایمرجنسی ہال کے سامنے ایک سٹریچر پر چالیس سالہ سفید پوش شخص کا شدید زخمی جسم دھرا ہے اور وہ درد کی شدت سے کراہ رہا ہے۔ لوگ زندگی کی سی تیزی سے اسے نظر انداز کرتے ہیں، گزر جاتے ہیں۔ درجنوں ڈیوٹی ڈاکٹرز اس کا بہتا ہوا خون نہیں روک رہے اور کوئی نرس اسے درد کش انجیکشن بھی نہیں لگا رہی کیونکہ اس کی پرچی نہیں بنی اور وہ باقاعدہ مریض کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ آخر کار وہ زخموں کی شدت سے دم توڑ جاتا ہے۔
تیسرا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ایک بیوہ خاتون اپنے تین یتیم بچوں کو اپنے بوسیدہ گھر میں چھوڑ کر ان کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے نکلتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وبا کے دنوں میں حکومت مالی امداد تقسیم کر رہی ہے۔ اسے حوصلہ ہوتا ہے کہ امداد واقعی تقسیم ہو رہی ہوتی ہے۔ اسے قطار میں کھڑے دن گزر چکا ہے اور دن ڈھلے اس کی باری آنے پر صاحب بہادر کلرک اسے بتاتا ہے کہ تمہارا شناختی کارڈ نہیں بنا اس لیے تمہیں امداد نہیں مل سکتی۔ وہ پاکستانی ہے، غریب اور بیوہ بھی ہے مگر ایک کاغذ کا ٹکڑا نہ ہونے سے وہ خالی دامن واپس لوٹ جانے پر مجبور ہے۔
ایک معذور شخص افسر مجاز کے روبرو نوکری کے انٹرویو کے لیے حاضر ہے اور سیٹ بھی معذور امیدوار کے لیے مختص ہے۔ افسر مجاز دیکھ رہا ہے کہ اس کے دونوں بازو نہیں ہیں اور وہ معذوری کی تعریف پر پورا بھی اترتا ہے مگر وہ میرٹ پر پورا اترتے ہوئے امیدوار سے معذرت کر چکا ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس معذوری کا کوئی ثبوت نہیں۔ افسر مجاز اپنی آنکھوں دیکھی معذوری کے باوجود میڈیکل بورڈ کی دستاویزی شہادت کو ضروری سمجھتا ہے۔

ایک اور منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں ایک سیریل قاتل گرفتار ہوا ہے جس نے قانون کو بے بس کر رکھا ہے۔ قاتل کے پاس اپنا شناختی کارڈ، ڈومیسائل اور برتھ سرٹیفیکیٹ بھی نہیں ہے اور اس کو اپنے والد کا نام بھی معلوم نہیں ہے۔ اس کے فنگر پرنٹ بھی کہیں ریکارڈ پر نہیں۔ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ ہے بھی یا نہیں۔ مگر وہ دھڑا دھڑ بندے قتل کیے جا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کا ہدف ڈاکٹر، جج، وکیل اور افسر مجاز ہیں۔ وہ ہمیشہ عدم شہادت کی بنا پر عدالتوں سے بری ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی نام ہی نہیں اسی لیے اس کے خلاف کوئی شہادت بھی نہیں دیتا۔ ملزم کہیں اسلم بن جاتا ہے اور کہیں اکرم۔ وہ اپنا تعارف صرف اتنا کراتا ہے کہ اس کا باپ کسی عدالت کے سامنے قتل ہوا تھا جس کو قانون کے سبھی رکھوالوں نے دیکھا تھا مگر کوئی گواہی صفحہ مثل پر نہیں تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے والد کے مقدمہ قتل کا کوئی مدعی بھی نہیں تھا۔
وہ ہر واردات کے بعد قانونی پرچی نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتا ہے اور بچ نکلتا ہے۔ وہ بااختیار افسران کی بے بسی پر قہقہے لگاتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افسر مجاز کے سامنے بھی نہیں ہے کہ اس کا کوئی نہیں ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

حمیداللہ بھٹی

ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • سہیل آفریدی کسی طور پر وزارتِ اعلیٰ کےاہل نہیں رہے، اختیار ولی
  • سہیل آفریدی کا جرم 9 مئی کے دیگر مجرموں سے زیادہ سنگین ہے، وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں، اختیار ولی
  • سہیل آفریدی کی قیادت میں ریاستی اداروں پر حملے کے شواہد سامنے آگئے، اختیار ولی
  • لیفٹیننٹ گورنر"ریاستی درجے" کے معاملے پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، فاروق عبداللہ
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
  • کراچی گندا نہیں، لوگوں کی سوچ گندی ہے:جویریہ سعود