کچھ مناظر ہیں جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے بے پناہ اور غیر انسانی اختیارات پر طاقت ور لوگوں کی بے بسی پر چیختے ہیں۔ میں ان بے ترتیب مناظر میں سے چن چن کر چند مناظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ بھی چشم تصور میں لفظوں سے نکل کر ذرا اس ہجوم کا حصہ بنیں جو کاغذ کی پرچیوں کے سامنے بے بس ہیں۔
ایک بڑی عدالت کے سامنے ابھی ابھی قتل ہوا ہے۔ مقتول کو پرانی رنجش پر اس کے خاندانی دشمن نے اپنی اپنی پیشیوں پر آئے ہوئے سیکڑوں سائلوں اور درجنوں وکلا کے سامنے گولی مار دی ہے۔ وکیلوں کے کئی منشی بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں اور پولیس افسران بھی اپنے اپنے ریکارڈ کے ساتھ توبہ توبہ کر رہے ہیں۔ قاتل جائے وقوعہ سے فرار ہو کر کسی وکیل کی مدد سے پارکنگ کی اوٹ میں چھپتا ہوا غائب ہو گیا ہے اور اسے کسی نے نہیں پکڑا۔ پولیس والے مختلف تھانوں سے آئے ہیں جن کا اس علاقے میں ہونے والے قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ مقامی تھانے کا پولیس افسر لا تعلق کھڑا ہے کہ اس وقوعہ کی کوئی درخواست اسے نہیں ملی اور مقدمہ کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے۔
میں عدالت عالیہ کے سینئر جج کی عدالت میں تھا جب فائرنگ اور شور شرابے کی آوازوں پر جج صاحب چونک اٹھے تھے، انہیں نائب کورٹ نے بتا دیا تھا کہ عدالت کے سامنے قتل ہوا ہے، وہ تمام کیس ملتوی کرتے ہوئے اپنے چیمبر میں جا چکے تھے جب ہم سب ٹھنڈی پڑتی لاش کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ مقتول کے چہرے پر سالہا سال کی مقدمہ بازی کی سلوٹیں تھیں مگر اب آنکھوں میں آخری تاریخ کے دئیے روشن تھے جیسے وہ مر کر بھی اپنی موت کی تصدیق کے لیے کسی قانونی پرچی یعنی ڈیتھ سرٹیفیکٹ کا منتظر تھا۔ مقامی تھانے نے اپنے سب انسپکٹر کی مدعیت میں نا معلوم ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے لاش کو سرد خانے میں رکھوا دیا حالانکہ ایک لمحے میں عدالت سے اس کے کیس کی پرانی فائل اٹھا کر اس کے گھر تک پہنچا جا سکتا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ احاطہ عدالت میں سیکڑوں قانونی افراد کی موجودگی میں ہونے والے قتل کا کوئی گواہ بھی صفحہ مثل پر موجود نہیں تھا۔ اعلیٰ عدالتی اختیارات کے باوجود یہاں پر موجود سبھی لوگ گونگے تھے، بہرے تھے، اندھے تھے اور قانون تو ویسے بھی آنکھیں نہیں رکھتا۔
دوسرا منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہسپتال کے ایمرجنسی ہال کے سامنے ایک سٹریچر پر چالیس سالہ سفید پوش شخص کا شدید زخمی جسم دھرا ہے اور وہ درد کی شدت سے کراہ رہا ہے۔ لوگ زندگی کی سی تیزی سے اسے نظر انداز کرتے ہیں، گزر جاتے ہیں۔ درجنوں ڈیوٹی ڈاکٹرز اس کا بہتا ہوا خون نہیں روک رہے اور کوئی نرس اسے درد کش انجیکشن بھی نہیں لگا رہی کیونکہ اس کی پرچی نہیں بنی اور وہ باقاعدہ مریض کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ آخر کار وہ زخموں کی شدت سے دم توڑ جاتا ہے۔
تیسرا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ایک بیوہ خاتون اپنے تین یتیم بچوں کو اپنے بوسیدہ گھر میں چھوڑ کر ان کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے نکلتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وبا کے دنوں میں حکومت مالی امداد تقسیم کر رہی ہے۔ اسے حوصلہ ہوتا ہے کہ امداد واقعی تقسیم ہو رہی ہوتی ہے۔ اسے قطار میں کھڑے دن گزر چکا ہے اور دن ڈھلے اس کی باری آنے پر صاحب بہادر کلرک اسے بتاتا ہے کہ تمہارا شناختی کارڈ نہیں بنا اس لیے تمہیں امداد نہیں مل سکتی۔ وہ پاکستانی ہے، غریب اور بیوہ بھی ہے مگر ایک کاغذ کا ٹکڑا نہ ہونے سے وہ خالی دامن واپس لوٹ جانے پر مجبور ہے۔
ایک معذور شخص افسر مجاز کے روبرو نوکری کے انٹرویو کے لیے حاضر ہے اور سیٹ بھی معذور امیدوار کے لیے مختص ہے۔ افسر مجاز دیکھ رہا ہے کہ اس کے دونوں بازو نہیں ہیں اور وہ معذوری کی تعریف پر پورا بھی اترتا ہے مگر وہ میرٹ پر پورا اترتے ہوئے امیدوار سے معذرت کر چکا ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس معذوری کا کوئی ثبوت نہیں۔ افسر مجاز اپنی آنکھوں دیکھی معذوری کے باوجود میڈیکل بورڈ کی دستاویزی شہادت کو ضروری سمجھتا ہے۔
ایک اور منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں ایک سیریل قاتل گرفتار ہوا ہے جس نے قانون کو بے بس کر رکھا ہے۔ قاتل کے پاس اپنا شناختی کارڈ، ڈومیسائل اور برتھ سرٹیفیکیٹ بھی نہیں ہے اور اس کو اپنے والد کا نام بھی معلوم نہیں ہے۔ اس کے فنگر پرنٹ بھی کہیں ریکارڈ پر نہیں۔ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ ہے بھی یا نہیں۔ مگر وہ دھڑا دھڑ بندے قتل کیے جا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کا ہدف ڈاکٹر، جج، وکیل اور افسر مجاز ہیں۔ وہ ہمیشہ عدم شہادت کی بنا پر عدالتوں سے بری ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی نام ہی نہیں اسی لیے اس کے خلاف کوئی شہادت بھی نہیں دیتا۔ ملزم کہیں اسلم بن جاتا ہے اور کہیں اکرم۔ وہ اپنا تعارف صرف اتنا کراتا ہے کہ اس کا باپ کسی عدالت کے سامنے قتل ہوا تھا جس کو قانون کے سبھی رکھوالوں نے دیکھا تھا مگر کوئی گواہی صفحہ مثل پر نہیں تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے والد کے مقدمہ قتل کا کوئی مدعی بھی نہیں تھا۔
وہ ہر واردات کے بعد قانونی پرچی نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتا ہے اور بچ نکلتا ہے۔ وہ بااختیار افسران کی بے بسی پر قہقہے لگاتا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: افسر مجاز کے سامنے بھی نہیں ہے کہ اس کا کوئی نہیں ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ٹیکس فراڈ مقدمات میں ایف بی آر کو شہریوں کے انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹا تک رسائی مل گئی
فائل فوٹوٹیکس فراڈ مقدمات میں ایف بی آر کو شہریوں کے انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹا تک رسائی مل گئی، جیوفیکٹ چیک نے سوشل میڈیا پر پھیلی اس خبر کی تصدیق کردی۔
نئی ترامیم کے تحت ایف بی آر کو اجازت ہوگی کہ وہ براہِ راست انٹرنیٹ سروس فراہم کرنیوالے اداروں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور نجی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے ٹیکس فراڈ کے مشتبہ شخص کا انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹا حاصل کرسکے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو فنانس ایکٹ 2025 کی منظوری کے بعد یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ اگر کسی شخص پر ٹیکس فراڈ کا شبہ ہو تو اس کے انٹرنیٹ استعمال سے متعلق ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اس بات کی تصدیق فنانس ایکٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک وکیل نے بھی کی ہے۔
29 جون کو گزٹ ہونے والے فنانس ایکٹ 2025 نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں کئی ترامیم کی ہیں۔
1990 کے قانون کے سیکشن 38B میں کی گئی ایک اہم ترمیم، ذیلی شق (5) کا اضافہ ہے، جو ایف بی آر کو اجازت دیتی ہے کہ وہ کسی فرد کا انٹرنیٹ پروٹوکول (IP) ڈیٹا براہِ راست انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں، سرکاری پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور نجی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے حاصل کر سکے۔
اس سے قبل سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 صرف ایف بی آر کو کسی فرد، محکمے یا ادارے سے دستاویزات یا ریکارڈ طلب کرنے کا اختیار دیتا تھا تاہم، نئی ذیلی شق اس اختیار کو الیکٹرانک دائرہ کارتک توسیع دیتی ہے۔
جیو فیکٹ چیک سوشل میڈیا پر پھیلی خبروں کی جانچ کا مؤثر پلیٹ فارم ہے، کسی بھی خبر کی حقیقت جاننے کے لیے جیو فیکٹ چیک سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، فیک نیوز سے چھٹکارہ پا کر جیو۔