ٹرینوں کی آؤٹ سورسنگ سے آمدنی میں اربوں روپے کا اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس چیئرمین رائے حسن نواز کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سی پیک کے تحت ایم ایل ون منصوبے سمیت مختلف امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ ایم ایل ون منصوبہ پشاور سے کراچی تک 1,726 کلومیٹر پر مشتمل ہوگا اور اس کی کل لاگت 6.
یہ منصوبہ دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں کراچی سے ملتان اور دوسرے مرحلے میں ملتان سے پشاور تک ٹریک بچھایا جائے گا۔ اس حوالے سے چین کا ایک وفد فروری کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔
سیکرٹری ریلوے کے مطابق پاکستان ریلوے نے 13 ٹرینوں کو آؤٹ سورس کیا ہے جس کے نتیجے میں سروس کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ٹرین جس سے پہلے سات ارب روپے کی آمدن ہو رہی تھی اب آؤٹ سورسنگ کے بعد گیارہ ارب روپے کی آمدن دے رہی ہے، جب تک سات دن کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہم ٹرین چلانے کی اجازت نہیں دیتے۔
سیکرٹری ریلوے نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ دنیا بھر میں ریلوے سسٹم الیکٹرانک نظام کی طرف جا رہا ہے، اور اسی پیش رفت کے پیش نظر ریلوے نے اپنی نئی "رابطہ" ایپلیکیشن تیار کر لی ہے۔ حکام کے مطابق اس ایپ کے ذریعے نہ صرف سیٹ بکنگ کی جا سکے گی بلکہ دیگر اہم معلومات بھی حاصل کی جا سکیں گی۔ کمیٹی کے استفسار پر سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ اس ایپ کی تیاری پر کوئی اضافی خرچ نہیں آیا۔ مزید برآں، پانچ سے چھ مہینوں میں تمام کوچز کو اس ایپ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔
سیکرٹری ریلوے نے اجلاس کو بتایا کہ 1979 میں لاہور سے خانیوال کے درمیان 286 کلومیٹر طویل الیکٹرک ٹرین سسٹم متعارف کرایا گیا تھا، تاہم بعد میں اس نظام کو بند کر دیا گیا، جس کے بعد اس سے منسلک تاریں اور پول چوری ہو گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ریلوے کے 83 ریسٹ ہاوس ہیں جن میں 10 آوٹ آف آرڈر ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ
پڑھیں:
قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی 10 پاور کمپنیاں کون سی ہیں؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (AGP) نے انکشاف کیا ہے کہ مالی سال 2023-24 کے دوران ملک کی 10 بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کے باعث قومی خزانے کو 276 ارب 81 کروڑ روپے کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں:پاور ڈویژن اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا ہر ملازم ماہانہ کتنی مفت بجلی حاصل کررہا ہے؟
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کی جانب سے ترسیل و تقسیم کے نقصانات کم کرنے میں ناکامی کو نقصان کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
پشاور، لاہور اور کوئٹہ کی بجلی کمپنیوں کو نقصان میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والے ادارے قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے سب سے زیادہ نقصان کیا، جس کی مالیت 97 ارب 17 کروڑ روپے رہی۔
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے نیپرا کے مقرر کردہ ہدف سے 47 ارب 63 کروڑ روپے زیادہ نقصان کیا، جب کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کا نقصان 36 ارب 75 کروڑ روپے رہا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بجلی کے بلوں کی ناقص وصولی کی وجہ سے گردشی قرضے میں 235 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:سولر نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی، پاور ڈویژن اور سولر صارفین کا اس پر کیا مؤقف ہے؟
صارفین سے صرف 3,885 ارب روپے وصول کیے جا سکے، جب کہ وصولی کا ہدف 4,081 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔
ترسیل و تقسیم کے نقصانات میں 6.54 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جو بڑھ کر 18.31 فیصد تک پہنچ گئے، جب کہ نیپرا کا ہدف 11.77 فیصد تھا۔
حکومت کی جانب سے 163 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود کوئی واضح بہتری سامنے نہ آ سکی۔
دیگر کمپنیوں میں سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) نے 29 ارب روپے، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) نے 23 ارب 18 کروڑ روپے، اور ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) نے 22 ارب 66 کروڑ روپے کا نقصان ریکارڈ کیا۔
گوجرانوالہ میں نقصان 9 ارب 22 کروڑ روپے، اسلام آباد میں 5 ارب 87 کروڑ روپے اور فیصل آباد میں 5 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاور کمپنیاں پیسکو حیسکو سیپکو قومی خزانہ لیسکو میپکو