جامعہ سندھ جامشورو یونیورسٹی میں یکجہتی کشمیر ریلی کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) جامعہ سندھ جامشورو میں کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی بھرپور انداز میں منایا گیا۔ اس سلسلے میں آرٹس فیکلٹی بلڈنگ سے ایک بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے کی۔ ریلی علامہ آئی آئی قاضی مرکزی لائبریری تک پہنچنے کے بعد ایک جلوس میں تبدیل ہوگئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کرائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کئی دہائیوں سے بھارتی قبضے کے زیر اثر ظلم و جبر کا شکار ہیں، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، غیر قانونی قتل و غارت اور مواصلاتی بندشیں عام ہیں۔ انہوں نے بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی، جس کے تحت کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر کھمباٹی نے کشمیریوں کی بہادری و جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ رہا ہے اور ان کی سیاسی، سفارتی و اخلاقی مدد جاری رکھے گا۔ انہوں نے جامعہ کے طلبا و اساتذہ پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر پروفیسر ڈاکٹر شجاع احمد مہیسر نے کہا کہ عالمی برادری کو کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے اور بھارت پر دبا ڈالنا چاہئے تاکہ کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت مل سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کوئی داخلی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی تنازعہ ہے، جس کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کا مقصد کشمیر کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا ہے۔ ڈائریکٹر ایریا اسٹڈی سینٹر پروفیسر ڈاکٹر مکیش کمار کھٹوانی نے اپنے خطاب میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آر ایس ایس کا سرگرم رکن رہا ہے، وہ شروع سے ہی مسلمانوں کا شدید مخالف رہا ہے۔ ڈاکٹر کھٹوانی نے مزید کہا کہ بھارت نے کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے فوجی علاقے میں تبدیل کردیا ہے، جہاں عام شہریوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ انہوں نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی مظالم کا نوٹس لیں۔ انہوں نے عالمی سفارتی فورمز پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے پر زور دیا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے، جس کیلئے فوری طور پر عالمی مداخلت کی ضرورت ہے۔ چیئرمین شعبہ پولیٹیکل سائنس پروفیسر ڈاکٹر غلام اکبر مہیسر نے کہا کہ کشمیر بہت جلد پاکستان کا حصہ بنے گا، کیونکہ تاریخ نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی طاقت کو کشمیریوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے دبانے کا اختیار نہیں ہے اور ان کی جدوجہد بالآخر کامیاب ہوگی۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گن کے استعمال، بیگناہوں کی گرفتاریوں اور غیر قانونی حراستوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ڈاکٹر مہیسر نے کہا کہ آزاد کشمیر کا خواب اب شرمند تعبیر ہونے کے بالکل قریب ہے اور پاکستان کبھی بھی اپنی سفارتی و اخلاقی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس موقع پر اساتذہ، ملازمین و طلبا نے ملکر کشمیر کی آزادی اور کشمیری عوام کی بہتری کیلئے دعا بھی مانگی۔ دوسری جانب سندھ یونیورسٹی ٹھٹھہ کیمپس میں کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی منایا گیا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مصباح بی بی قریشی کی زیر قیادت ریلی نکالی گئی، جس میں اساتذہ، ملازمین و طلبا نے بھرپور شرکت کی۔ ریلی میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر کہ کشمیر رہا ہے
پڑھیں:
بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے معروف رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ آج شام اپنے گھر سوپور میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 89 سالہ عبدالغنی بٹ کا تعلق شمالی کشمیر کے بُوٹینگو گاؤں سے تھا، جو سوپور سے تقریباً 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
اس عظیم رہنما نے سری پرتّاپ کالج سری نگر سے فارسی، اکنامکس اور سیاسیات میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ان کا شمار مُسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ عبدالغنی بٹ نے 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
انتخابات کو بہت سے حلقوں میں دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ان نتائج نے ہی سیاسی جدوجہد کو مسلح تحریک کی طرف مائل ہونے میں مدد دی۔
جدوجہد آزادی کشمیر کی میں عبدالغنی کی لگن، محنت اور صعوبتیں برداشت کرنے کے عزم مصمم کے باعث آل پارٹیز حرِیت کانفرنس کے چیئرمین بھی بنے۔
انہوں نے مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر کی سربراہی بھی کی، جسے بھارت کی حکومت نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔
اس تنظیم کا بنیادی موقف کشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے نظام کو تسلیم نہ کرنا تھا۔
ان کی تنظیم کا نعرہ مقبوضہ کشمیر کا حق خود ارادیت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کرنا رہا ہے۔
کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف انہوں نے دن رات ایک کردیئے جس کی پاداش میں قید و نظربندی کی صعوبتیں برداشت کیں۔
وہ طویل عرصے نقاہت اور عمر رسیدگی سے جڑے امراض میں مبتلا تھے اور آج لاکھوں چاہنے والے سوگواروں اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔