اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے ایگزیکٹو نوٹ پر دستخط کرنے سے اب امریکی وزیر خزانہ کو ایران کیخلاف موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزیوں پر دباؤ ڈالنے اور انکا مقابلہ کرنے کیلئے مزید پابندیاں اور انتظامی طریقہ کار نافذ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اس خبر کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے تہران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے عالمی اور علاقائی خدشات ظاہر ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایٹمی معاہدے کو واشنگٹن کیلئے بدترین معاہدہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے 8 مئی 2018ء کو امریکہ کے اس عالمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا اور یوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد سے دستبردار ہوگئے۔ تحریر: رضا میر طاہر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 4 فروری 2025ء کو ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھنے کے لیے ایک ایگزیکٹو میمورنڈم پر دستخط کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ایران کے صدر کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے ایران کے خلاف ان کی جانب سے سخت پالیسیاں اپنانے اور پہلے دور میں واپس آنے کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ اس کے بین الاقوامی تعلقات اور علاقائی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنی پہلی مدت صدارت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عمل درآمد کیا تھا۔
انہوں نے ایران کے خلاف ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے اور اپنی ناکام پالیسی کو جاری رکھنے کے بعد اپنی دوسری حکومت میں ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا ہے کہ امید ہے کہ مجھے اس اختیار (زیادہ سے زیادہ دباؤ) کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم ایران کے ساتھ معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔؟ واضح رہے کہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ ایران کے صدر سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ یہ آرڈر عملی طور پر ٹرمپ کے 2018ء کے حکم نامے کی تجدید ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو جی او پی سے نکال دیا جائے اور ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے۔ اس ایگزیکٹو آرڈر میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول اور ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے ہر طرح کے راستے کو مسدود کر دیا جائے۔
ٹرمپ کے ایگزیکٹو نوٹ پر دستخط کرنے سے اب امریکی وزیر خزانہ کو ایران کے خلاف موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزیوں پر دباؤ ڈالنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید پابندیاں اور انتظامی طریقہ کار نافذ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اس خبر کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے تہران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے عالمی اور علاقائی خدشات ظاہر ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایٹمی معاہدے کو واشنگٹن کے لیے بدترین معاہدہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے 8 مئی 2018ء کو امریکہ کے اس عالمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا اور یوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اپنے وعدوں پر عمل درآمد سے دستبردار ہوگئے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر اپنی غیر قانونی خواہشات مسلط کرنے اور تہران کے خلاف اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایران کے خلاف غیر معمولی پابندیوں کا اطلاق کیا اور معاہدے کو برقرار رکھنے کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کی۔ دوسری طرف زیادہ سے زیادہ مزاحمت کی پالیسی کے تحت، ایران نے امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں سے پیدا ہونے والی بہت سی مشکلات پر قابو پایا ہے۔ایران کی مزاحمت اور خود کفالت و خود مختاری کا یہ اقدام سامراجی طاقتوں کو ہرگز قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کو کمزور کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زیادہ سے زیادہ دباؤ ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کرنے کی کے ساتھ ٹرمپ کے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید کرتے ہوئے ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، "یہ ضروری نہیں تھا، اور بہت برے وقت ہوا۔ ولادیمیر، رک جاؤ۔" انہوں نے مزید کہا، "کییف پر ہونے والے روسی حملوں سے میں خوش نہیں ہوں۔"
انہوں نے روسی صدر پر جنگ بند کرنے اور معاہدہ کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا، "ایک ہفتے میں 5000 فوجی مر رہے ہیں۔
چلو امن کے لیے معاہدہ کرتے ہیں۔"ٹرمپ کا یہ بیان یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی مسلسل کارروائیوں کے درمیان امریکی صدر پوٹن کے لیے ایک نادر سرزنش کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کا یہ بیان کییف پر روسی میزائلوں کے حملے کے بعد آیا ہے، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
گزشتہ برس جولائی کے بعد سے یہ دارالحکومت کییف پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
ٹرمپ نے ماسکو کی 'بڑی رعایت' پر روس کی تعریف کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل طور پر قبضہ نہ کرنے کے لیے روس کی رضامندی ماسکو کی طرف سے "بہت بڑی رعایت" کی نمائندگی کرتی ہے۔
ٹرمپ نے یہ تبصرہ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور سے ملاقات کے دوران اس وقت کیا جب ان سے ایک رپورٹرنے سوال کیا کہ روس نے امن معاہدے تک پہنچنے کی پیشکش کے لیے کیا مراعات پیش کی ہیں۔
'ایسٹر جنگ بندی' ختم، یوکرین امن کوششوں کا اب کیا ہو گا؟
امریکی صدر نے کہا، "پورے ملک کو لینے سے رک جانا ہی بہت بڑی رعایت ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ امن معاہدے کے امکان کے بارے میں پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم روس پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور روس یہ جانتا ہے۔"
روس امن معاہدہ چاہتا ہے یہ جنگ کو جاری رکھنا؟یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا کا کہنا ہے کہ روس کے مسلسل حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کریملن امریکی قیادت میں امن کی کوششوں کے باوجود اپنے حملے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان بات چیت "صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔"
یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
جمعرات کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ ماسکو معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس کے اعلیٰ سفارت کار نے انٹرویو کے دوران کہا، "لیکن ابھی بھی کچھ مخصوص نکات ہیں، اس معاہدے کے عناصر جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔" اسے اتوار کو مکمل طور پر نشر کیے جانے کی توقع ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس بات سے مطمئن ہے کہ بات چیت کس طرح آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ "صدر ٹرمپ شاید زمین پر واحد رہنما ہیں، جنہوں نے اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
"روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
کییف پر روسی حملہ زمینی کارروائی کے لیےیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس نے زمینی دراندازی میں اضافے کے لیے راتوں رات بڑے پیمانے پر فضائی حملے کرنے کی کوشش کی ہے۔
یوکرین کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ البتہ زمینی حملوں کو کامیابی سے پسپا کر دیا گیا ہے۔
زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر کہا، "روسیوں نے اپنے زبردست فضائی حملے کی آڑ میں زمینی حملے کی کارروائیوں کو تیار کرنے کی کوشش کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "جب ہماری افواج کی زیادہ سے زیادہ توجہ میزائلوں اور ڈرونز کے خلاف دفاع پر مرکوز تھی، تو روسیوں نے اپنے زمینی حملوں کو نمایاں طور پر تیز کر دیا۔ تاہم روسیوں کو اس کا مناسب جواب ملا۔"
اس دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف سمیت پورے یوکرین میں میزائل اور ڈرون حملوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)