Jasarat News:
2025-07-25@02:55:45 GMT

پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی کی تشویش؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی کی تشویش؟

پاکستان میں صحافتی تنظیموں، وکلا اور اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود بالآخر قومی اسمبلی ا ور سینیٹ میں منظوری کے بعد صدر مملکت نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے ہیں، صدر کے دستخط کے بعد اب پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ دی پریونشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بدامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر ا ور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سمیت اس بل کے خلاف ملک بھر کی صحافی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن سراپا احتجاج ہیںحکومتی پارٹنر پیپلزپارٹی و ن لیگ کے رہنمائوں نے بھی اس بل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے اہم اتحادی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول زرداری نے بھی اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’’پیکا ایکٹ پر میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا نمائندوں سے مشاورت ہوتی تو بہتر ہوتا، حکومت کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ پی پی چیئرمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپنی مرضی کی قانون سازی کے لیے پیپلز پارٹی کے پاس نمبر نہیں ہیں حالانکہ 26 ویں ترمیم کے سلسلے میں وہ سب سے زیادہ متحرک تھے۔ اس سے قبل جب پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کے دور میں اس طرح کی قانون سازی کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ کے باہر شامیانہ لگا کر احتجاج کیا تھا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اپنے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف سمیت سب سے پہلے پہنچے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ایک اور اہم رہنما و سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے پیکا ایکٹ 2025 کے حوالے سے کراچی پریس کلب پر منعقدہ مکالمے میں پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگے گی مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے اب مفاہمت کی جاتی ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے۔ اس عمل کا ذمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے۔ میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جدوجہد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم پر میڈیا ہاؤسز اور صحافی برادری سے مشاورت نہیں کی گئی۔ پیکا ترامیم کیخلاف صحافی برادری کے تحفظات ہیں، جو ایک حد تک بجا بھی ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیتی اور مشاورت سے ترمیم لاتی۔ وفاقی حکومت ہم سے کسی طرح کی مشاورت نہیں کرتی۔ جب کمیٹی میں کوئی قانون لایا جاتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ بس پاس کردیں۔ ایسا اگر کوئی قانون بن جاتا ہے تو وہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ اسی طرح شنید ہے کہ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی بھی حکومت سے ناراض ہیں۔ انہوں نے سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی کے رکن سینیٹ اعجاز چودھری کی شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے جو سینیٹ چیئرمین کی ذمے داری اور ہر رکن کا استحقاق ہوتا ہے مگر حکومت نے اس آرڈر پر عملدرآمد ضروری نہیں سمجھا۔ خود بعض حکومتی ارکان اور ن لیگ پارٹی رہنما پیکا ایکٹ سمیت حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرچکے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی مرضی کے بغیر یہ قانون سازی کون اور کیوں کر رہا ہے؟ آخر سیاسی جماعتوں کی تشویش اور صحافیوں کے احتجاج کو اہمیت کیوں نہیں دی جارہی ہے!

پیپلز پارٹی ایک جمہوری اور عوامی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، مگر اس نے اس کے بالکل برعکس ہی جس طرح سے دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے کے مذموم فیصلے، 26 آ ئینی ترمیم کی غیر مناسب انداز میں منظوری اور اب حال ہی میںآ زادیٔ رائے کا گلا گھونٹنے کے لیے پیکا ایکٹ جیسے سیاہ ترین ایکٹ کی وطن عزیز میں نفاذ کے لیے جو آئین، جمہوریت، صحافت اور عوام دشمنی پر مبنی مکروہ اقدامات کے لیے آ گے بڑھ چڑھ کر غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کے لیے ایک ادنیٰ سہولت کار کا کردار تک ادا کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے اور اس کی وجہ سے اب وہ جس طرح سے مختلف النوع سنگین الزامات کی زد میں آ چکی ہے، اس پر اس کی قیادت کو ضرور غور و فکر کرکے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت بن کرسامنے آچکی ہے کہ جس طرح آج پیپلزپارٹی عوام کے سامنے ایکسپوز ہوچکی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ مطلب یہ کہ وہ حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی! بدقسمتی سے یہی کچھ حال مسلم لیگ ن کا ہے۔ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو جمہوریت کی رٹ اور اظہار رائے کی آزادی کا شور غوغا کرتے نہیں تھکتی مگر اقتدار کی کرسی ملتے ہی آمرانہ، عوام و صحافت دشمن اقدامات میں لگ جاتی ہے، انتقامی سیاست سے لیکر پیکا ترمیمی بل کے ذریعے آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے تک کے حکومتی اقدامات اس کا واضح ثبوت ہے۔

زندہ، ترقی یافتہ اور جمہوری معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی اس طرح سے ضروری ہے جس طرح ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ فیک نیوز یا کسی فرد کی تذلیل و توہین کی کوئی بھی ذی شعور آدمی ہرگز حمایت نہیں کرسکتا تاہم فیک نیوز کی آڑ میں آزادی اظہار پر قدغن تشویش ناک اور قابل مذمت ہے۔ آج کے حکمرانوں کو یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ خود جب اپوزیشن میں ہوں گے یہی الزامات ان پر لگ جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ مثبت تنقید کے ذریعے اپنی اصلاح اور پالیساں مرتب کی کرتی ہیں البتہ اندھے، گونگے، بہرے معاشروں میں آزادی اظہار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔!

حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ حق گوئی کا فریضہ سر انجام دینے والے پیکا ایکٹ کے نفاذ کے باوجود اسے خاطر میں لائے بغیر ہر دور کی طرح اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ بلا خوف وخطر حق بات کہتے اور لکھتے رہیں گے۔ حکمران خواہ کتنی ہی پابندیاں عائد کر دیں اور ہزار ہا قدغنیں اور بھی لگا دیں علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر حق گوئی کے خوگر افراد کا ہمیشہ شعار بنا رہے گا۔

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
ازل سے یہی رہا ہے قلندروں کا طریق

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ کے مطابق پارٹی کے جاتا ہے میں بھی پی ٹی ا کے لیے

پڑھیں:

سوشل میڈیا اور ہم

انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم  جما لیے اور حکمران بن  بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ،  ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔

انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔

جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔

خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں  کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم  کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔  

آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔

ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں  کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔

آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔ 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گرد پناہ گاہوں پر تشویش، طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی: دفتر خارجہ
  • سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • کراچی، سندھ حکومت کا گھوٹکی میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا نوٹس، مکمل تحقیقات کا حکم
  • سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد اسمبلی میں جمع
  • سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!
  • حکومت کو قانون ناموسِ رسالت ﷺ سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑے گی، جواد لودھی
  • علی امین گنڈا پور کو مبارک ہو، پیپلزپارٹی ،(ن )لیگ ، جے یو آئی کا سینیٹر بھی بنوا دیا، پی ڈی ایم کو پوری طرح سپورٹ کیا، ایمل ولی خان