Nai Baat:
2025-07-26@07:15:49 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

کسی ملک میں آزادی اظہار ، آزادی صحافت کو ترقی یافتہ دنیا اس ملک کی اصل جمہوریت کہتی ہے اور اسے جمہوری ملک گردانتی ہے ، اگر دیکھا جائے تووہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کی آواز اٹھاتی ہیں وہ بیشترممالک میں آزادی اظہار کے معاملے پر اپنی آنکھیں بند بھی رکھتی ہیں جس بنا پر ایسی تنظیموں کو انسانی حقوق کی نام نہا د تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے آج دنیا میں اسطرح کی بیشتر تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے ماضی سے لیکر آج تک حکمران صرف اسے ہی آزادی صحافت کہتے ہیں جو انکی مداح سرائی کرے ۔ ماضی میں حکومت کی مداح سرائی نہ کرنے کی پاداش میں اس ملک کے کئی اخبارات کچھ مدت کیلئے بند کئے گئے ، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور سخت تنقیدی آرٹیکل لکھنے کے الزام میں کئی نامور صحافی اٹھائے گئے ، پابند سلاسل کئے گئے، صحافیوں کی تحریکوں کی کہانی ایک طویل کہانی ہے مگر 1978ء میں چلنے والی صحافیوں کی تحریک جو PFUJ اور APNEC (عامل صحافیوں، اخباری کارکنوںکی مشترکہ ایک مضبوط تنظیم جس کی کال پر پاکستان سے بھر سے نہ صرف صحافیوں ،طلبا ، کسان اور مزدور تنظیموں نے لبیک کہا بلکہ انکے ہمراہ جیلوںکی صعوبتیں بھی برداشت کیں، سیاست دانوں اور ارباب اختیار کی منافقت کا اندازہ لگائیںکہ مرحوم ضیاء الحق نے صحافیوںکو پابند سلاسل کیا اور الزام یہ عائد کیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے اشارے پر مارشل لاء کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے جب اس تحریک کے دوران میںکراچی پریس کلب سے گرفتا ر ہوکر خیر پور جیل میں دیگر صحافی رہنمائوں کے ہمراہ پابند سلاسل تھا اسوقت مارشل لاء انتظامیہ نے ایک white paper شائع کیا جس میںوہ کاغذ بھی لگاتھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت تھی کہ PFUJ کوپنجاب میںپریس کلب اور تنظیم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے ، وائٹ پیپر شائع کرنے والوںکی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتا تھا ایک طرف صحافیوں کی تحریک پر الزام ہے کہ یہ پی پی پی کے اشارے پر کام کررہے ہیںاور فنڈز لے رہے ہیں اور اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت شائع کررہے ہیں کہ ان لوگو ں کو ناکام کرو ہر محاذ پر ۔ غرض ہمارے ملک میں صحافت کو بدقسمتی سے ہر سیاست دان اور حکومت نے اپنا حامی کرنے کی کوشش کی ۔ حالیہ PECA قانون کا شور شرابا لے لیں، 2016ء میں مسلم لیگ ن نے متعارف کرایا ، اسکے بعد تحریک انصاف نے اس میں سزائوں کا اضافہ کرتے ہوئے اسے نافذرکھا آج پی ٹی آئی اسکے خلاف ہے اگر یہ کالا قانون ہے تو کیوں نہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں اسے ختم کیا ؟؟ پاکستان کے موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز تو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر مسئلہ ہے بے لگام سوشل میڈیا جسے شہ ملی ہے پی ٹی آئی کی حکومت میںاور اس خرابی نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلی ہے نہ کسی کا گھر ، نہ کسی کی بیٹی، بہو، نہ عسکری ادارے محفوظ ہیںاور خاص طور پر AIکے بے لگام گھوڑے کی موجودگی میں کسی کے دھڑ پر کسی کا چہرہ ، کسی کی گود میں کسی کو بھی نہایت بے حیائی سے بٹھا کرتشہیر کردیا جاتا ہے ، دراصل میری دانست میںاسے کنٹرول کرنا اور اس ناسور کو ختم کرنا اس کے ذمہ داروںکو سخت سزائیںدینے کا قانون قابل عمل کرنا بہت ضروری ہے، PECA کا شور و غل ہونے کی اصل وجہ حکومت کی نہ جانے کیوں عجلت اور اس پر وزارت اطلاعات کا بھرپور انداز میں کام نہ کرنا متعلقہ افراد اور تنظیموںسے بات چیت مشورے نہ کرنا ہے ۔ اور تاحال وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ اس پر بات ہوسکتی ہے انہیں شائد علم نہیں کہ صدر مملکت بھی نہائت تیزی میںاس پر دستخط کرچکے ہیں۔ملک بھر کی صحافی تنظیمیں گو منتشر ہیں ان میں وہ اتحاد نہیںجو ماضی کی صحافی برادری میں ہوا کرتا تھا ، مادیت کا شکار صحافی برادری میں حصے بخرے ہیںمگر یہ خوش آئین بات ہے صحافیوںکے تمام گروپس چاہے ہو PFUJ ( برنا ) ہو یا PFUJ (دستور) وہ سب ایک آواز ہوکر اسکی مخالفت کررہے ہیںاسکی وجہ یہ ہی ہے کہ کسی تنظیم سے مشاورت نہیں کی گئی اگر دانشمندی سے مشاورت کرکے انہیںخاص طور پر جعلی ، جھوٹی اور شر انگیز خبروں کے متعلق حکومتی تاثرات جس کا شکار اس وقت سار املک ہے، ہمارے عسکری ادارے ہیںتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ PECAکا حالیہ قانو ن نہایت خوش اسلوبی سے نافذ ہوتا ملک بھر کی صحافی برادری پیکاایکٹ کے خلاف احتجاج میں بھرپور شرکت کر رہی ہے اورہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ پیکا ایکٹ حق اور سچ کی آواز دبانے کی کوشش ہے اسے ہر حال میں واپس لیناہوگا اس سے پہلے حکومت کے تمام ذمہ داران میڈیا کی تمام تنظیموں سے مذاکرات کااعلان کرتے رہے کہ آپ لوگوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگاپاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون (پی ای سی اے) خاص طور پر پریس اور اظہار رائے کی آزادی پر اس کے اثرات کے حوالے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ پی ای سی اے کس طرح پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے ہتک عزت کے پی ای سی اے میں ایسی شقیں شامل ہیں جو ہتک عزت کو جرم قرار دیتی ہیں، جسے تنقیدی رپورٹنگ کے لئے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پی ای سی اے کی دفعہ 20 (جو آن لائن ہتک عزت سے متعلق ہے) متنازع رہی ہے، کیونکہ اسے اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی سنسر شپ میں اضافہ حکومت کے پاس آن
لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے وسیع اختیارات ہیں جو اسے قومی سلامتی، اخلاقیات یا عوامی نظم و نسق کے خلاف لگتا ہے۔ اس شق کو تحقیقاتی صحافت اور تنقیدی آراء کو دبانے کے ایک آلے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ہراساں کرنا بہت سے صحافیوں اور ڈیجیٹل کارکنوں کو پی ای سی اے کے تحت حکام کی طرف سے ”قابل اعتراض” سمجھا جانے والا مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے اور خوامخواہ کی میڈیا ناراضی مول نہیںلینا چاہئے انہیں میڈیا ہائوسز کویقین دلانا چاہئے کہ یہ قانون صرف غیر اخلاقی معاملات پر ہتک عزت پر سزائیںدیگا ، کسی سیاسی نظریے کی مخالفت پر نہیں، ماضی میں اس قانون سے نامور صحافیوںکو نقصان پہنچا اب ایسا نہیں ہوگا ۔وزیراعظم اس بات کو ممکن بنائیںکہ بے ہودہ مواد کے حامی کی پشت پناہی کرنے والے اسے پھیلانے والوںکی سخت سزائیںتجویز ہوں اور کچھ سزائیں نظر بھی آئیںتاکہ عوام کو علم ہو کہ قانون بھی موجود ہے ۔ جرائم پیشہ افراد کے سوشل میڈیا کے ذریعے مائوں بہنوں، اداروںکی عزت حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کاش ہمارا میڈیا از خود رضاکارانہ طور محب الوطنی کا فریضہ ادا کرے تو کسی کالے قانون کی ضرورت نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: صحافیوں کی پی ای سی اے حکومت کی کے خلاف اور اس

پڑھیں:

’’پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئیں‘‘

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو تمام سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئی ہیں۔

یہ بات انہوں نے پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ شروع سے کہہ رہے ہیں کہ شفاف ٹرائل ہونا چاہیے اور ہمیں بھی صفائی کاموقع ملنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کا تقاضہ ہے کہ تمام کیسز جس میں ایک ہی الزام ہو ایک ہی مقدمہ ہوگا،
سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی لیکن اس پر آج تک فیصلہ نہیں ہوا۔

بیرسٹرگوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو بھی حکم دیا لیکن پھر بھی کیس نہیں روکا گیا، یہ آج تیسرا کیس ہے جس میں ہمارے رہنماؤں کو10،10سال قید کی سزا دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ تمام سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئی ہیں،
عدلیہ کے متنازع فیصلوں میں آج ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نو مئی شیر پاؤ پل پرجلاؤ گھیراؤ کےمقدمے میں یاسمین راشد ،میاں محمود الرشید ،اعجاز چوہدری،عمر سرفرازچیمہ کو دس دس سال قید کی سزا سنا دی جبکہ شاہ محمود قریشی کو مقدمے سے بری کردیا۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی ذہنی دباؤ کا شکار، فیلڈ مارشل کیخلاف مہم کی قیادت کررہے: عظمیٰ بخاری
  • غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
  • پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
  • پنجاب حکومت گندم کی قمیتیں مقرر کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرے، لاہور ہائیکورٹ
  • لاہورہائیکورٹ کا پنجاب حکومت کو گندم کی قمیتیں مقررکرنے سے متعلق قانون پرعملدرآمد کا حکم
  • ڈیجیٹل دہشتگردی کیخلاف تعاون کی اپیل،حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے ڈیٹا شیئرنگ اور تعاون کا مطالبہ کردیا
  • سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر
  • صوبہ دہشتگردوں کے حوالے کرنے والی حکومت کی اے پی سی میں شرکت کیوں کریں؟گورنر خیبرپختونخوا
  • انتہاپسند مواد سرچ کرنےاور وی پی این کے استعمال پرجرمانہ ،نیاقانون منظور
  • ’’پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئیں‘‘