کسی ملک میں آزادی اظہار ، آزادی صحافت کو ترقی یافتہ دنیا اس ملک کی اصل جمہوریت کہتی ہے اور اسے جمہوری ملک گردانتی ہے ، اگر دیکھا جائے تووہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کی آواز اٹھاتی ہیں وہ بیشترممالک میں آزادی اظہار کے معاملے پر اپنی آنکھیں بند بھی رکھتی ہیں جس بنا پر ایسی تنظیموں کو انسانی حقوق کی نام نہا د تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے آج دنیا میں اسطرح کی بیشتر تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے ماضی سے لیکر آج تک حکمران صرف اسے ہی آزادی صحافت کہتے ہیں جو انکی مداح سرائی کرے ۔ ماضی میں حکومت کی مداح سرائی نہ کرنے کی پاداش میں اس ملک کے کئی اخبارات کچھ مدت کیلئے بند کئے گئے ، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور سخت تنقیدی آرٹیکل لکھنے کے الزام میں کئی نامور صحافی اٹھائے گئے ، پابند سلاسل کئے گئے، صحافیوں کی تحریکوں کی کہانی ایک طویل کہانی ہے مگر 1978ء میں چلنے والی صحافیوں کی تحریک جو PFUJ اور APNEC (عامل صحافیوں، اخباری کارکنوںکی مشترکہ ایک مضبوط تنظیم جس کی کال پر پاکستان سے بھر سے نہ صرف صحافیوں ،طلبا ، کسان اور مزدور تنظیموں نے لبیک کہا بلکہ انکے ہمراہ جیلوںکی صعوبتیں بھی برداشت کیں، سیاست دانوں اور ارباب اختیار کی منافقت کا اندازہ لگائیںکہ مرحوم ضیاء الحق نے صحافیوںکو پابند سلاسل کیا اور الزام یہ عائد کیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے اشارے پر مارشل لاء کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے جب اس تحریک کے دوران میںکراچی پریس کلب سے گرفتا ر ہوکر خیر پور جیل میں دیگر صحافی رہنمائوں کے ہمراہ پابند سلاسل تھا اسوقت مارشل لاء انتظامیہ نے ایک white paper شائع کیا جس میںوہ کاغذ بھی لگاتھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت تھی کہ PFUJ کوپنجاب میںپریس کلب اور تنظیم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے ، وائٹ پیپر شائع کرنے والوںکی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتا تھا ایک طرف صحافیوں کی تحریک پر الزام ہے کہ یہ پی پی پی کے اشارے پر کام کررہے ہیںاور فنڈز لے رہے ہیں اور اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت شائع کررہے ہیں کہ ان لوگو ں کو ناکام کرو ہر محاذ پر ۔ غرض ہمارے ملک میں صحافت کو بدقسمتی سے ہر سیاست دان اور حکومت نے اپنا حامی کرنے کی کوشش کی ۔ حالیہ PECA قانون کا شور شرابا لے لیں، 2016ء میں مسلم لیگ ن نے متعارف کرایا ، اسکے بعد تحریک انصاف نے اس میں سزائوں کا اضافہ کرتے ہوئے اسے نافذرکھا آج پی ٹی آئی اسکے خلاف ہے اگر یہ کالا قانون ہے تو کیوں نہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں اسے ختم کیا ؟؟ پاکستان کے موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز تو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر مسئلہ ہے بے لگام سوشل میڈیا جسے شہ ملی ہے پی ٹی آئی کی حکومت میںاور اس خرابی نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلی ہے نہ کسی کا گھر ، نہ کسی کی بیٹی، بہو، نہ عسکری ادارے محفوظ ہیںاور خاص طور پر AIکے بے لگام گھوڑے کی موجودگی میں کسی کے دھڑ پر کسی کا چہرہ ، کسی کی گود میں کسی کو بھی نہایت بے حیائی سے بٹھا کرتشہیر کردیا جاتا ہے ، دراصل میری دانست میںاسے کنٹرول کرنا اور اس ناسور کو ختم کرنا اس کے ذمہ داروںکو سخت سزائیںدینے کا قانون قابل عمل کرنا بہت ضروری ہے، PECA کا شور و غل ہونے کی اصل وجہ حکومت کی نہ جانے کیوں عجلت اور اس پر وزارت اطلاعات کا بھرپور انداز میں کام نہ کرنا متعلقہ افراد اور تنظیموںسے بات چیت مشورے نہ کرنا ہے ۔ اور تاحال وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ اس پر بات ہوسکتی ہے انہیں شائد علم نہیں کہ صدر مملکت بھی نہائت تیزی میںاس پر دستخط کرچکے ہیں۔ملک بھر کی صحافی تنظیمیں گو منتشر ہیں ان میں وہ اتحاد نہیںجو ماضی کی صحافی برادری میں ہوا کرتا تھا ، مادیت کا شکار صحافی برادری میں حصے بخرے ہیںمگر یہ خوش آئین بات ہے صحافیوںکے تمام گروپس چاہے ہو PFUJ ( برنا ) ہو یا PFUJ (دستور) وہ سب ایک آواز ہوکر اسکی مخالفت کررہے ہیںاسکی وجہ یہ ہی ہے کہ کسی تنظیم سے مشاورت نہیں کی گئی اگر دانشمندی سے مشاورت کرکے انہیںخاص طور پر جعلی ، جھوٹی اور شر انگیز خبروں کے متعلق حکومتی تاثرات جس کا شکار اس وقت سار املک ہے، ہمارے عسکری ادارے ہیںتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ PECAکا حالیہ قانو ن نہایت خوش اسلوبی سے نافذ ہوتا ملک بھر کی صحافی برادری پیکاایکٹ کے خلاف احتجاج میں بھرپور شرکت کر رہی ہے اورہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ پیکا ایکٹ حق اور سچ کی آواز دبانے کی کوشش ہے اسے ہر حال میں واپس لیناہوگا اس سے پہلے حکومت کے تمام ذمہ داران میڈیا کی تمام تنظیموں سے مذاکرات کااعلان کرتے رہے کہ آپ لوگوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگاپاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون (پی ای سی اے) خاص طور پر پریس اور اظہار رائے کی آزادی پر اس کے اثرات کے حوالے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ پی ای سی اے کس طرح پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے ہتک عزت کے پی ای سی اے میں ایسی شقیں شامل ہیں جو ہتک عزت کو جرم قرار دیتی ہیں، جسے تنقیدی رپورٹنگ کے لئے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پی ای سی اے کی دفعہ 20 (جو آن لائن ہتک عزت سے متعلق ہے) متنازع رہی ہے، کیونکہ اسے اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی سنسر شپ میں اضافہ حکومت کے پاس آن
لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے وسیع اختیارات ہیں جو اسے قومی سلامتی، اخلاقیات یا عوامی نظم و نسق کے خلاف لگتا ہے۔ اس شق کو تحقیقاتی صحافت اور تنقیدی آراء کو دبانے کے ایک آلے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ہراساں کرنا بہت سے صحافیوں اور ڈیجیٹل کارکنوں کو پی ای سی اے کے تحت حکام کی طرف سے ”قابل اعتراض” سمجھا جانے والا مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے اور خوامخواہ کی میڈیا ناراضی مول نہیںلینا چاہئے انہیں میڈیا ہائوسز کویقین دلانا چاہئے کہ یہ قانون صرف غیر اخلاقی معاملات پر ہتک عزت پر سزائیںدیگا ، کسی سیاسی نظریے کی مخالفت پر نہیں، ماضی میں اس قانون سے نامور صحافیوںکو نقصان پہنچا اب ایسا نہیں ہوگا ۔وزیراعظم اس بات کو ممکن بنائیںکہ بے ہودہ مواد کے حامی کی پشت پناہی کرنے والے اسے پھیلانے والوںکی سخت سزائیںتجویز ہوں اور کچھ سزائیں نظر بھی آئیںتاکہ عوام کو علم ہو کہ قانون بھی موجود ہے ۔ جرائم پیشہ افراد کے سوشل میڈیا کے ذریعے مائوں بہنوں، اداروںکی عزت حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کاش ہمارا میڈیا از خود رضاکارانہ طور محب الوطنی کا فریضہ ادا کرے تو کسی کالے قانون کی ضرورت نہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: صحافیوں کی پی ای سی اے حکومت کی کے خلاف اور اس
پڑھیں:
اسرائیلی فوج غزہ میں داخل،3 صحافیوں سمیت 62 فلسطینی شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ /تل ابیب /واشنگٹن /نیویارک /میڈرڈ /لکسمبرگ (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) اسرائیلی فوج نے اپنی زمینی کارروائی کو مزید وسیع کر دیا ‘ منگل کو اسرائیلی فضائی حملوں میں 3 صحافیوں سمیت کم از کم 62 فلسطینی شہید ہوگئے۔ مقامی حکام کے مطابق ان میں سے کم از کم 52 افراد غزہ سٹی میں مارے گئے ہیں، جہاں اسرائیل نے شہر پر قبضے کرنے کے لیے زمینی یلغار کی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ’ایکس‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ غزہ جل رہا ہے‘ اسرائیلی فوج دہشت گردی کے ڈھانچے پر ’آہنی مکے‘ سے وار کر رہی ہے، تاکہ یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کو شکست دینے کے لیے حالات پیدا کیے جا سکیں‘ جب تک مشن مکمل نہیں ہو جاتا، ہم ڈگمگائیں گے نہ ہی پیچھے ہٹیں گے۔ اسرائیلی فوجی عہدیدار نے اندازہ لگایا ہے کہ جیسے جیسے فوج شہر کے مرکز میں مزید گہرائی تک داخل ہو رہی ہے، غزہ سٹی کے تقریباً 40 فیصد رہائشی محصور شہر کو چھوڑ کر جنوب کی طرف فرار ہو گئے ہیں‘ فلسطینیوں کو جنوب میں المواسی کیمپ جانے پر مجبور کیا گیا ہے، جہاں لاکھوں لوگ خیموں کے سمندر میں ٹھنسے ہوئے ہیں اور صفائی ستھرائی، پانی کی باقاعدہ فراہمی اور بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ لکسمبرگ کے وزیرِاعظم لُک فریڈن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ان یورپی ممالک میں شامل ہو گا جو رواں ماہ کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ گلوبل صمود فلوٹیلا بین الاقوامی پانیوں میں داخل ہو گیا ہے اور اسے شمالی افریقاسے آنے والے مزید جہازوں نے جوائن کر لیا ہے، جو تیونس کی بندرگاہوں سے روانہ ہوئے تھے، اب یہ تعداد تقریباً 40 تک پہنچ گئی ہے۔فلوٹیلا کی انتظامیہ نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ سفر کے دوران اس بیڑے میں ایک اطالوی بحری بیڑا بھی شامل ہو جائے گا، جس کے بعد یہ غزہ کی جانب روانہ ہوگا۔تقریباً 400 کارکنان اس مشن میں شریک ہیں، جو 50 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد لے جانے والی کشتیوں کے قافلے گلوبل صمود فلوٹیلا کی سیکورٹی پر پاکستان سمیت 16 ممالک نے اظہار تشویش کیا ہے۔ پاکستان سمیت 16 ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گلوبل صمود فلوٹیلا کا مقصد غزہ کو انسانی امداد پہنچانا ہے، فلوٹیلا کے خلاف کسی غیر قانونی یا پرتشدد اقدام سے گریز کیا جائے۔یہ مشترکہ بیان پاکستان کے علاوہ بنگلا دیش، برازیل، کولمبیا، انڈونیشیا، آئرلینڈ، لیبیا، ملائشیا، مالدیپ، میکسیکو، عمان، قطر، سلووینیا، جنوبی افریقا، اسپین اور ترکیہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ مغربی یروشلم میں نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیںتاکہ غزہ شہر میں زمینی حملے کے پھیلاؤ کی مذمت کر سکیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے پیاروں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اسپین نے اسرائیلی ہتھیاروں کی ایک بڑی ڈیل منسوخ کر دی ہے جس کی مالیت تقریباً 70 کروڑ یورو (825 ملین ڈالر) تھی۔ یہ معاہدہ اسرائیلی کمپنی ایل بٹ سسٹمز کے ڈیزائن کردہ راکٹ لانچر سسٹمز کی خریداری کے لیے کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس تاثر کی سختی سے نفی کی ہے کہ ان کا ملک دنیا میں تنہا اور بے یار و مددگار ہوچکا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صحافیوں سے گفتگو میں پوچھا کہ کیا آپ کے پاس موبائل فون ہے۔ مثبت میں جواب ملنے پر نیتن یاہو نے فخریہ انداز میں کہا کہ جس جس کے پاس موبائل فون ہے اس کے پاس دراصل اسرائیل کا ٹکرا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے؟ بہت سارے موبائل فون، ادویات، خوراک اور وہ چیری، ٹماٹر جو آپ مزے سے کھاتے ہو سب اسرائیل میں بنتے ہیں‘ کچھ نے ہتھیاروں کی ترسیل روک دی تو کیا ہم اس سے صورت حال سے نکل سکتے ہیں؟ ہاں ہم کر سکتے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ مغربی یورپ میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیں کچھ چیزوں کی فراہمی سے انکار کر کے مشکل میں ڈال سکتے ہیں تو وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے پہلی بار غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کو نسل کشی قرار دیدیا۔ اقوام متحدہ انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے اور اعلیٰ اسرائیلی حکام بشمول وزیراعظم نیتن یاہو نے اس نسل کشی پر زور دیا اور حمایت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی افواج نے گھروں، شیلٹرز اور محفوظ علاقوں میں شہریوں پر بمباری کی ہے اور اسرائیلی بمباری میں نصف سے زیادہ خواتین، بچے اور بزرگ جاں بحق ہوئے۔ انکوائری کمیشن کی سربراہ ناوی پیلی (Navi Pillay) نے کہا کہ ‘غزہ میں نسل کشی جاری ہے، ہم نے نیتن یاہو، اسرائیلی صدر اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلانٹ کے بیانات کے جائزے کے بعد اپنا نتیجہ اخذ کیا کیونکہ یہی 3 لوگ اسرائیلی ریاست کے نمائندے تھے، اس لیے اسرائیل کو نسل کشی کا ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے’۔دوسری جانب اسرائیلی حکام نے کمیشن کی تحقیقات کے آغاز سے ہی اس کا بائیکاٹ کیا اور اب رپورٹ آنے کے بعد اس رپورٹ کو جھوٹا اور توہین آمیز قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں قحط نہ ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے لاکھوں یورو خرچ کیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ویڑن نیوز اسپاٹ لائٹ اور جرمن نشریاتی ادارے کی فیکٹ چیک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے امریکا اور یورپ میں اپنی سرکاری اشتہاری ایجنسی کا استعمال کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو دھمکی دی کہ وہ یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرے۔صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ کچھ خبریں ایسی سامنے آرہی ہیں کہ حماس نے یرغمالیوں کو زمین پر لا کھڑا کردیا تاکہ انہیں اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی کے سامنے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ٹرمپ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حماس رہنماؤں کو بخوبی علم ہے کہ اس اقدام کے کتنے سنگین نتائج ہوں گے۔ امریکی صدر نے حماس کو پیغام دیا کہ یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے اور یرغمالیوں کو رہا کیا جائے ورنہ تمام شرطیں ختم سمجھی جائیں گی۔
غزہ: اسرائیلی فضائیہ کیجانب سے ایک دکان پر بمباری کے بعد تباہی کا منظر۔ ان سیٹ میں اسرائیلی حملے کے بعد 10گھنٹے ملبے تلے دبے رہنے والی شدید زخمی بچی کو اسپتال منتقل کیا جارہاہے