Nai Baat:
2025-06-10@20:31:23 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

کسی ملک میں آزادی اظہار ، آزادی صحافت کو ترقی یافتہ دنیا اس ملک کی اصل جمہوریت کہتی ہے اور اسے جمہوری ملک گردانتی ہے ، اگر دیکھا جائے تووہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کی آواز اٹھاتی ہیں وہ بیشترممالک میں آزادی اظہار کے معاملے پر اپنی آنکھیں بند بھی رکھتی ہیں جس بنا پر ایسی تنظیموں کو انسانی حقوق کی نام نہا د تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے آج دنیا میں اسطرح کی بیشتر تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے ماضی سے لیکر آج تک حکمران صرف اسے ہی آزادی صحافت کہتے ہیں جو انکی مداح سرائی کرے ۔ ماضی میں حکومت کی مداح سرائی نہ کرنے کی پاداش میں اس ملک کے کئی اخبارات کچھ مدت کیلئے بند کئے گئے ، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور سخت تنقیدی آرٹیکل لکھنے کے الزام میں کئی نامور صحافی اٹھائے گئے ، پابند سلاسل کئے گئے، صحافیوں کی تحریکوں کی کہانی ایک طویل کہانی ہے مگر 1978ء میں چلنے والی صحافیوں کی تحریک جو PFUJ اور APNEC (عامل صحافیوں، اخباری کارکنوںکی مشترکہ ایک مضبوط تنظیم جس کی کال پر پاکستان سے بھر سے نہ صرف صحافیوں ،طلبا ، کسان اور مزدور تنظیموں نے لبیک کہا بلکہ انکے ہمراہ جیلوںکی صعوبتیں بھی برداشت کیں، سیاست دانوں اور ارباب اختیار کی منافقت کا اندازہ لگائیںکہ مرحوم ضیاء الحق نے صحافیوںکو پابند سلاسل کیا اور الزام یہ عائد کیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے اشارے پر مارشل لاء کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے جب اس تحریک کے دوران میںکراچی پریس کلب سے گرفتا ر ہوکر خیر پور جیل میں دیگر صحافی رہنمائوں کے ہمراہ پابند سلاسل تھا اسوقت مارشل لاء انتظامیہ نے ایک white paper شائع کیا جس میںوہ کاغذ بھی لگاتھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت تھی کہ PFUJ کوپنجاب میںپریس کلب اور تنظیم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے ، وائٹ پیپر شائع کرنے والوںکی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتا تھا ایک طرف صحافیوں کی تحریک پر الزام ہے کہ یہ پی پی پی کے اشارے پر کام کررہے ہیںاور فنڈز لے رہے ہیں اور اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت شائع کررہے ہیں کہ ان لوگو ں کو ناکام کرو ہر محاذ پر ۔ غرض ہمارے ملک میں صحافت کو بدقسمتی سے ہر سیاست دان اور حکومت نے اپنا حامی کرنے کی کوشش کی ۔ حالیہ PECA قانون کا شور شرابا لے لیں، 2016ء میں مسلم لیگ ن نے متعارف کرایا ، اسکے بعد تحریک انصاف نے اس میں سزائوں کا اضافہ کرتے ہوئے اسے نافذرکھا آج پی ٹی آئی اسکے خلاف ہے اگر یہ کالا قانون ہے تو کیوں نہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں اسے ختم کیا ؟؟ پاکستان کے موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز تو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر مسئلہ ہے بے لگام سوشل میڈیا جسے شہ ملی ہے پی ٹی آئی کی حکومت میںاور اس خرابی نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلی ہے نہ کسی کا گھر ، نہ کسی کی بیٹی، بہو، نہ عسکری ادارے محفوظ ہیںاور خاص طور پر AIکے بے لگام گھوڑے کی موجودگی میں کسی کے دھڑ پر کسی کا چہرہ ، کسی کی گود میں کسی کو بھی نہایت بے حیائی سے بٹھا کرتشہیر کردیا جاتا ہے ، دراصل میری دانست میںاسے کنٹرول کرنا اور اس ناسور کو ختم کرنا اس کے ذمہ داروںکو سخت سزائیںدینے کا قانون قابل عمل کرنا بہت ضروری ہے، PECA کا شور و غل ہونے کی اصل وجہ حکومت کی نہ جانے کیوں عجلت اور اس پر وزارت اطلاعات کا بھرپور انداز میں کام نہ کرنا متعلقہ افراد اور تنظیموںسے بات چیت مشورے نہ کرنا ہے ۔ اور تاحال وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ اس پر بات ہوسکتی ہے انہیں شائد علم نہیں کہ صدر مملکت بھی نہائت تیزی میںاس پر دستخط کرچکے ہیں۔ملک بھر کی صحافی تنظیمیں گو منتشر ہیں ان میں وہ اتحاد نہیںجو ماضی کی صحافی برادری میں ہوا کرتا تھا ، مادیت کا شکار صحافی برادری میں حصے بخرے ہیںمگر یہ خوش آئین بات ہے صحافیوںکے تمام گروپس چاہے ہو PFUJ ( برنا ) ہو یا PFUJ (دستور) وہ سب ایک آواز ہوکر اسکی مخالفت کررہے ہیںاسکی وجہ یہ ہی ہے کہ کسی تنظیم سے مشاورت نہیں کی گئی اگر دانشمندی سے مشاورت کرکے انہیںخاص طور پر جعلی ، جھوٹی اور شر انگیز خبروں کے متعلق حکومتی تاثرات جس کا شکار اس وقت سار املک ہے، ہمارے عسکری ادارے ہیںتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ PECAکا حالیہ قانو ن نہایت خوش اسلوبی سے نافذ ہوتا ملک بھر کی صحافی برادری پیکاایکٹ کے خلاف احتجاج میں بھرپور شرکت کر رہی ہے اورہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ پیکا ایکٹ حق اور سچ کی آواز دبانے کی کوشش ہے اسے ہر حال میں واپس لیناہوگا اس سے پہلے حکومت کے تمام ذمہ داران میڈیا کی تمام تنظیموں سے مذاکرات کااعلان کرتے رہے کہ آپ لوگوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگاپاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون (پی ای سی اے) خاص طور پر پریس اور اظہار رائے کی آزادی پر اس کے اثرات کے حوالے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ پی ای سی اے کس طرح پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے ہتک عزت کے پی ای سی اے میں ایسی شقیں شامل ہیں جو ہتک عزت کو جرم قرار دیتی ہیں، جسے تنقیدی رپورٹنگ کے لئے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پی ای سی اے کی دفعہ 20 (جو آن لائن ہتک عزت سے متعلق ہے) متنازع رہی ہے، کیونکہ اسے اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی سنسر شپ میں اضافہ حکومت کے پاس آن
لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے وسیع اختیارات ہیں جو اسے قومی سلامتی، اخلاقیات یا عوامی نظم و نسق کے خلاف لگتا ہے۔ اس شق کو تحقیقاتی صحافت اور تنقیدی آراء کو دبانے کے ایک آلے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ہراساں کرنا بہت سے صحافیوں اور ڈیجیٹل کارکنوں کو پی ای سی اے کے تحت حکام کی طرف سے ”قابل اعتراض” سمجھا جانے والا مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے اور خوامخواہ کی میڈیا ناراضی مول نہیںلینا چاہئے انہیں میڈیا ہائوسز کویقین دلانا چاہئے کہ یہ قانون صرف غیر اخلاقی معاملات پر ہتک عزت پر سزائیںدیگا ، کسی سیاسی نظریے کی مخالفت پر نہیں، ماضی میں اس قانون سے نامور صحافیوںکو نقصان پہنچا اب ایسا نہیں ہوگا ۔وزیراعظم اس بات کو ممکن بنائیںکہ بے ہودہ مواد کے حامی کی پشت پناہی کرنے والے اسے پھیلانے والوںکی سخت سزائیںتجویز ہوں اور کچھ سزائیں نظر بھی آئیںتاکہ عوام کو علم ہو کہ قانون بھی موجود ہے ۔ جرائم پیشہ افراد کے سوشل میڈیا کے ذریعے مائوں بہنوں، اداروںکی عزت حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کاش ہمارا میڈیا از خود رضاکارانہ طور محب الوطنی کا فریضہ ادا کرے تو کسی کالے قانون کی ضرورت نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: صحافیوں کی پی ای سی اے حکومت کی کے خلاف اور اس

پڑھیں:

بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف

واشنگٹن (اوصاف نیوز)امریکہ روزنامے دی واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیاہے کہ بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور میں کامیابی سے متعلق عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ان سے مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق دی واشنگٹن پوسٹ نے آپریشن سندور سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر بے نقاب کیاہے جس سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کاسامنا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی میڈیا نے بی جے پی حکومت کے اشارے پرپاک بھارت جنگ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائیں، پاکستان کے تمام بڑے شہروں پر بمباری ،قبضے اور فتح کے جھوٹے دعوے کیے گئے جو کہ حقیقت کے برعکس تھے۔اے آئی کے ذریعے جنگ کی جھوٹی اور فرضی ویڈیوز،تصاویراور من گھڑت خبریں اورتصاویریں بنا کر عوام میں پھیلائی گئیں۔

اخبار کے مطابق یہ صحافت نہیں بلکہ بھارتی ریاستی سرپرستی میں تیار کردہ فکشن تھا، جس کا مقصد بھارت کی عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا اور خطے میں کشیدگی کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے نام نہاد دعوئوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران جھوٹی جنگی خبریں پھیلائیں۔

فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثہ، ویڈیو گیمز کے مناظرکو “پاکستان پر حملے”کے مناظر کے طورپرپیش کیاگیا۔ زی نیوز، این ڈی ٹی وی، آج تک اور ٹائمز نائو جیسے بھارتی چینلز نے جھوٹی ویڈیوز چلائیں۔

غزہ اور سوڈان کی ویڈیوز کو پاکستان پر حملے کی ویڈیوز کے طورپرپیش کیا گیا۔ بی جے پی کے زیر اثر بھارتی میڈیا چینلز نے کراچی پر حملے اور پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے جھوٹے دعوے کئے گئے جن کا دور دور تک سچائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے کسی حملے کی تصدیق نہیں کی مگر نیوز چینلز نے جنگی جنون کو ہوا دینے کیلئے پاکستان کے بیشتر شہروں پر حملوں اور قبضے اور پاکستانی فضائیہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے من گھڑت دعوے نشر کئے۔

گودی میڈیا نے ریٹائرڈ بھارتی فوجی افسران کوجنگ سے متعلق جھوٹی خبروں کو سچائی پر مبنی قراردینے کے لیے بطور ترجمان استعمال کیا ۔ بی جے پی حکومت کے واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے اینکرز کوجھوٹی خبریں پہنچائی گئیں اور انہوں نے تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کئے بغیر انہیں اسی طرح نشر کردیا۔

واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاہے کہ بھارتی “ٹی وی چینلز جھوٹی کہانیاں گھڑنے والوں کے زیر تسلط ہیں”۔ پاک بھارت جنگ سے متعلق بھارتی عوام کو گمراہ کیا گیا جس سے خود عالمی سطح پر بھارت کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

اخبار کے مطابق ایک بھارتی سکیورٹی عہدیدارنے اعتراف کیاہے کہ جھوٹی معلومات عوام تک پہنچانا ایک جنگی حکمت عملی تھی، لیکن اس کا نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑا۔

ریاستی پروپیگنڈا حقائق پر غالب آ گیا: سچائی کی جگہ سیاسی وفاداری نے لے لی۔ واشنگٹن ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے اس تمام صورتحال پر خاموشی اختیار کی اور نریدنر مودی نے سیز فائر کے دو دن بعد بیان دیا لیکن اس دوران خلا کو جھوٹ سے پر کیا گیا۔

بھارتی میڈیا نے نام نہاد قوم پرستی کو پراپیگنڈے کیلئے استعمال کیا اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے تاہم اس کا نقصان ملک اور میڈیا دونوںکو اٹھانا پڑا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کے جھوٹ کی قلعی کھولنے پر مودی سرکار نے بی بی سی اور ٹی آر ٹی سمیت متعدد عالمی میڈیا پر پابندیاں عائدکردیں ۔

بی جے پی کے جھوٹے بیانیہ کو چیلنج کرنے والے مقامی صحافیوں کو گرفتار کر کے انکے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، روئٹرز، ٹی آر ٹی، الجزیرہ اور بی بی سی نے جنگ سے متعلق بھارتی میڈیا کے جھوٹ کوبے نقاب اور پاکستانی میڈیا کو پیشہ ورانہ شفافیت کو سراہا ہے۔
غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا

متعلقہ مضامین

  • حکومت بڑا فیصلہ ،، ٹیکس ادا نا کرنیوالے گرفتار ہو سکیں گے ،، کیسے ، کیوں اور کون کرے گا ؟تفصیلات سب نیوز پر
  • اسمگل شدہ گاڑیوں کی روک تھام کیلئے نیا قانون تجویز، چیسس نمبر میں چھیڑ چھاڑ پر گاڑی ضبط ہوگی
  • برطانیہ : صحافیوں کو نشانہ بنانے کی سازش پر 3ایرانیوں پر فردِ جرم عائد
  • خیبر پی کے میں علی بابا چالیس چوروں کی حکومت: فیصل کنڈی 
  • صحافیوں نے اقتصادی سروے کے اعداد و شمار چیلنج کردیے
  • متعلقہ پانیوں میں چینی جنگی جہازوں کی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون اور عمل کے مطابق ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • حسد کا علاج نہیں ، وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل آگیا
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • سندھ حکومت کے پاس بتانے کو کچھ نہ دکھانے کو، عظمیٰ بخاری