وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن سے تر ک سفیر کی ملاقات، آئی ٹی،فائیوجی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 فروری2025ء) وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ سے ترکیہ کے سفیر عرفان نذیر اوغلو نے ملاقات کی جس کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے درمیان آئی ٹی،فائیوجی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔جمعرات کو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے جاری کردہ بیان کے مطابق ملاقات کے دوران ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن، ای۔
گورننس اور سمارٹ ٹیکنالوجیز میں اشتراک کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان ڈیجیٹل ترقی، روزگار کے مواقع اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر اتفاق کیا گیا ۔پاکستان کے نیشنل آئی ٹی بورڈ اور ترکیہ کے ترک سیٹ کے درمیان بی ٹوبی تعاون پر غور کیا گیا ۔(جاری ہے)
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) بین الاقوامی آئی ٹی تعاون کے فروغ کےلئےپرعزم ہے، ڈیجیٹل معیشت میں مہارت ڈگری سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، سکل ڈویلپمنٹ کو فروغ دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کے نفاذ سے معیشت، ای۔گورننس اور ڈیٹا ایکسچینج میں بڑی پیشرفت ہوگی۔ ترکیہ کے سفیر عرفان نذیر اوغلو نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان آئی ٹی، ٹیلی کام اور ڈیجیٹل بزنس میں اشتراک ضروری ہے، ترکیہ میں 67 ملین افراد ای۔گورننس سسٹم سے مستفید ہو رہے ہیں اور 8,000 ڈیجیٹل سروسز فعال ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور ترکیہ کے کے درمیان کیا گیا آئی ٹی
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔