برطانیہ نے روسی سفارتکار کو ملک بدر کردیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
سفارتی تعلقات میں کشیدگی کے بعد برطانیہ نے روسی سفارتکار کو ملک بدر کردیا۔
برطانوی وزیر خارجہ کے مطابق کارروائی روس کی جانب سے برطانوی سفارت کار کی بےدخلی کے جواب میں کی گئی ہے۔
برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ روس نے برطانوی سفارت کار کو جاسوسی کے الزام پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے مزید کارروائی کو اشتعال انگیزی سمجھا جائے گا۔
برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے تحفظ پر سجمھوتہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس ہمارے خلاف کارروائی کرے گا تو ہم بھی جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ روس نے گزشتہ برس نومبر میں برطانوی سفارت کار کی سفارتی حیثیت جاسوسی کے الزام میں ختم کر دی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
یوکرینی فوج کی کامیاب کارروائی ، روسی بحریہ کانائب سربراہ ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک) یوکرینی فوج نے اپنے حالیہ حملوں میں روس کے شہر کرسک میں روسی بحریہ کے نائب سربراہ میجر جنرل میخائل گڈکوف کو ہلاک کر دیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق میجر جنرل میخائل گڈکوف نے یوکرین کے خلاف جنگ میں بریگیڈ کی قیادت کی تھی۔ ان کے مارے جانے کی تصدیق مشرقی روسی علاقے کے گورنر اولیگ کوزیمیاکو نے کی۔ اس سے قبل غیر سرکاری روسی اور یوکرینی ٹیلی گرام چینلوں نے اطلاع دی تھی کہ یوکرین کی سرحد سے متصل کرسک میں میجر جنرل میخائل گڈکوف کو 10 فوجیوں سمیت ہلاک کیا گیا،جس میں سینئر افسران بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ یوکرین کے ہاتھوں مارے گئے روسی بحریہ کے نائب سربراہ سب سے سینئر روسی فوجی افسران میں سے ایک ہیں۔ گورنر اولیگ کوزیمیاکو نے اپنے بیان میں کہا کہ میخائل گڈکوف ایک افسر کے طور پر اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ انہیں یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی میں بہادری کا ایوارڈ ملا تھا ،جب کہ یوکرین نے ان پر جنگی جرائم کا الزام لگایا تھا۔ دوسری جانب ڈنمارک نے اپنی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے لیے لازمی فوجی سروس کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اقدام روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں ناٹو کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں فوجی افرادی قوت بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے، جس کا مقصد ممکنہ سیکورٹی خطرات سے نمٹنے اور ناٹوکے دفاعی تقاضے پورے کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ڈنمارک کی آبادی 60 لاکھ ہے اور وہ اس وقت تقریباً 9 ہزار پیشہ ور فوجی اہلکار رکھتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 2033ء تک ہر سال فوج میں بھرتی ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھ ے6 ہزار تک پہنچائی جائے گی، جو کہ 2024 میں 4 ہزار 700 تھی۔ ڈنمارک کی پارلیمان میں منظورہ کردہ قانون کے تحت 18 سال کی عمر کی تمام خواتین کے لیے فوجی خدمت لازمی ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ بھرتیاں قرعہ اندازی کے نظام کے تحت کی جائیںگی۔