Express News:
2025-06-09@19:53:03 GMT

فلسطینیوں کی جبری منتقلی، نسلی تطہیر

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ ختم ہونے اور آبادی کی منتقلی کے بعد اسرائیل فلسطینی علاقے کو امریکا کے حوالے کر دے گا۔ اس سے پہلے وائٹ ہاؤس نے تردید کی تھی کہ صدر ٹرمپ فلسطینیوں کی عارضی منتقلی چاہتے ہیں، مستقل نہیں۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کی تجویز غیر منصفانہ اور تشویشناک ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے متنازع بیان کو عالمی سطح پر ناپسند کیا گیا اور اس پر شدید ناراضی کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع تجویز کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ ان کے بیانات حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے سے متعلق دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کاٹز نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے لیے فوج کو منصوبہ تیار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

 اسرائیل کے خلاف سات اکتوبر کی حماس کی کارروائی کے جواب میں اسرائیل کے اقدام کے بارے میں یہودی ریاست کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کے خلاف اعلانِ جنگ پر بے دریغ عمل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا سیاسی نقشہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

 اس میں فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے، حالانکہ عالمی برادری جس میں عرب اور مسلمان ممالک بھی شامل ہیں ’’ دو ریاستی فارمولے‘‘ پر اصرار کر رہے ہیں، لیکن اس فارمولے پر اسرائیل کے دیرینہ موقف اور سات اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اس فارمولے کی بنیاد پر فلسطین میں مستقل امن کے قیام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

دو ریاستی فارمولا، جو دراصل نومبر 1947میں فلسطین کو دو، عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر مبنی تھا، انتہا پسند یہودیوں کو قبول نہ تھا اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے علاوہ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے عرب اسرائیل تنازع میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہو گیا تھا، یعنی مغربی کنارے، غزہ اور شام کی سطح مرتفع گولان پر قبضے کا۔ مشہور دانشور نوم چومسکی کے مطابق 1967کی جنگ میں عربوں کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل کے ہاتھ اپنے عرب ہمسایہ ممالک اور فلسطینیوں کے ساتھ مستقل امن اور سلامتی کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنے کا ایک تاریخی موقع آیا تھا کیونکہ ان علاقوں کو واپس کرکے اسرائیل نہ صرف عرب بلکہ مسلم ممالک کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات اور سیکیورٹی حاصل کر سکتا تھا۔

جنوری 1967 میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے چار عرب ممالک یعنی مصر، اُردن، شام اور لبنان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد، خود مختار اور با اختیار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جس کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی سرحدوں کی ضمانت بھی دیں گے، لیکن اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ اس طرح اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا تھا۔

 مشرقِ وسطیٰ میں امن کے فقدان اور آئے دن کے تصادم کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکا کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ 1967کے بعد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر امن پیشکش کو امریکا کی شہ پر اسرائیل نے مسترد کیا، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1991میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ اسرائیل کو بھی ’’ دو ریاستی‘‘ فارمولے پر راضی ہونا پڑا تھا۔ اس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں کے بجائے لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آنا تھا‘ تاہم 2009 میں جب نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی ایک مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اوسلو معاہدے (1993) کے تحت ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔

ان میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست میں تبدیل کرنا اور دوسرے بیت المقدس کے ان علاقوں میں، جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے‘ یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کرنا ہے۔سات اکتوبر کے بعد بھی امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کے علاوہ بین الاقوامی برادری دو ریاستی فارمولے کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کی حمایت کرتی ہے، لیکن بیشتر مبصرین کی رائے میں ’’دو ریاستی فارمولا‘‘ اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ انھیں ان کی بستیوں سے نکال کر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنا ناممکن ہے۔اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش کئی سال گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔

 دو ریاستی حل میں 1967کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خودمختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل ’’ زمین کے بدلے امن ‘‘ کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔دراصل اسرائیل اور فلسطین تنازع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی نے اس کوشش کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ یہ زمین ان کی ہے اور وہ یہاں نسل در نسل آباد ہیں۔

اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کی قدامت پسند اور مذہبی انتہا پسند حکومت کے قیام کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ نیتن یاہو نے نہ صرف ان مذاکرات کے انعقاد سے انکار کردیا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے، جسے فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا تھا، میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں تاکہ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ناممکن ہو جائے۔

اسرائیل کی طرف سے یہ سب اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پون صدی گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔ چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کے مطابق دو ریاستی حل کے ذریعے ہی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا حصول ہوسکتا ہے اور اسی سے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک ا زاد ریاست فلسطینی ریاست ریاست کے قیام فلسطینیوں کی دو ریاستی حل اور اسرائیل میں اسرائیل یہودی ریاست کی بنیاد پر اور فلسطین اسرائیل نے اسرائیل کے ریاست قائم میں فلسطین کے قیام کی عرب ممالک کے مطابق متحدہ کی دریائے ا کے ساتھ میں ایک اور اس کے بعد

پڑھیں:

ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش

کانگریس لیڈر نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم ریاستی حالات کو لیکر مسلسل خاموش رہے، نہ کبھی عوام سے مخاطب ہوئے، نہ کسی نمائندہ وفد سے ملے اور نہ ہی منی پور کا دورہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے بھارتی ریاست منی پور میں مسلسل جاری بحران پر بی جے پی کی حکومت اور خاص طور پر نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایکس پر جاری کئے گئے تفصیلی بیان میں انہوں نے کہا کہ ریاست میں تشدد، لاقانونیت اور عوام کی بے بسی کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران امپھال ویسٹ، امپھال ایسٹ، تھوبال، کاکچنگ اور بشنو پور میں دوبارہ تشدد بھڑک اٹھا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں صدر راج نافذ کئے جانے کے باوجود زمینی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ فروری 2022ء میں بی جے پی کو منی پور اسمبلی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن صرف 15 مہینے بعد 3 مئی 2023ء کو ریاست کو جلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سینکڑوں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے، ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا۔ جے رام رمیش نے بتایا کہ اگرچہ 4 جون 2023ء کو بی جے پی حکومت نے ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا لیکن اس کی رپورٹ کی ڈیڈلائن مسلسل ملتوی ہوتی رہی اور اب نئی تاریخ 20 نومبر 2025ء مقرر کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یکم اگست 2023ء کو عدالت نے خود تسلیم کیا تھا کہ ریاست میں آئینی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

کانگریس لیڈر نے بھارتی وزیراعظم پر الزام لگایا کہ وہ مسلسل خاموش رہے، نہ کبھی عوام سے مخاطب ہوئے، نہ کسی نمائندہ وفد سے ملے اور نہ ہی منی پور کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے پوری ذمہ داری وزیر داخلہ پر ڈال دی، جو مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کانگریس نے ابتداء ہی سے صدر راج کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے نظرانداز کیا گیا، یہاں تک کہ 10 فروری 2025ء سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں کانگریس کی جانب سے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی دھمکی کے بعد 9 فروری کو بی جے پی نے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لیا اور 13 فروری کو صدر راج نافذ ہوا۔ تاہم صدر راج کے باوجود حالات میں بہتری کے آثار نہیں، یہاں تک کہ ریاستی گورنر کو بھی امپھال ایئرپورٹ سے اپنے گھر جانے کے لئے ہیلی کاپٹر کا سہارا لینا پڑا۔

جے رام رمیش نے طنزیہ انداز میں کہا کہ جن مودی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یوکرین-روس جنگ رکوا دی تھی، وہ منی پور کے بحران پر بالکل خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی بے حسی پورے ملک کے لئے باعث تکلیف ہے، یہ صرف شمال مشرق کا نہیں، پورے ہندوستان کا درد ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہفتے کی شب شدت پسند میتئی تنظیم "ارمبائی تنگول" کے ایک رہنما کی مبینہ گرفتاری کے بعد امپھال ویسٹ اور ایسٹ سمیت پانچ اضلاع میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ پُرتشدد احتجاج کے بعد ان اضلاع میں پانچ روز کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا خدمات معطل کر دی گئی ہیں، جب کہ بشنو پور میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت نے ان اقدامات کو امن و قانون کی صورتحال قابو میں رکھنے کے لئے ضروری قرار دیا ہے لیکن جے رام رمیش کے مطابق یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ بحران آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی منظم نسل کشی مہم میں برطانیہ کے براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
  • بھارت میں کروڑوں افراد سے جبری مشقت لی جارہی ہے، رپورٹ
  • غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا
  • نسلی تعصب؛ حریف ٹیم کے کوچ کیخلاف شکایت درج
  • بھارتی ریاست منی پور میں ایک بار پھر احتجاج
  • غزہ، امداد کے حصول کیلئے آنیوالے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فائرنگ، 5 شہید، 70 زخمی
  • بھارتی ریاست منی پور نسلی فسادات کی لپیٹ میں، کرفیو نافذ، انٹرنیٹ سروس معطل
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!