خضدار سے اغوا ہونے والی لڑکی بازیاب، 16 مشتبہ افراد گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
جمعرات کی شب بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے شہزاد سٹی سے اغوا ہونے والی عاصمہ بی بی کو 2 روز بعد بازیاب کروالیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مغویہ کو خضدار تحصیل زہری سے بازیاب کرایا گیا۔ مختلف دشوار گزار علاقوں میں 20 سے 25 چھاپے مارے گئے۔ چھاپوں کے دوران 16 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جن سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔ مغویہ کو جلد اہل خانہ کے حوالے کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں خضدار سے لڑکی کا اغوا اور لواحقین کا احتجاج، معاملہ کیا ہے؟
خضدار پولیس کے مطابق مغویہ کے اہل خانہ تاحال سراپا احتجاج ہیں، لواحقین نے احتجاجاً کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو آمدورفت کے لیے بند کر رکھا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے خضدار سے اغوا ہونے والی خاتون کے واقعے پر سخت ترین ایکشن لینے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہاکہ بحیثیت وزیر اعلیٰ ذاتی طور پر اس سانحے کی تفتیش کی نگرانی کررہا ہوں۔ آئی جی پولیس کو واضح ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ ملوث ملزمان کے خلاف کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی، حکومت مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے، ظالم انجام کو پہنچے گا۔
یہ بھی پڑھیں مظفرآباد: خواتین سمیت 8 افراد نے نوجوان کو اغوا کیوں کیا؟
واضح رہے کہ مغویہ کے اہل خانہ نے بااثر قبائلی شخصیت پر الزام عائد کیا تھا کہ شادی سے انکار پر ان کی بچی کو گھر میں گھس کر اسلحے کے زور پر اغوا کیا گیا تھا۔ بچی کے اغوا کے خلاف اہل خانہ کا احتجاجی دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بازیاب بلوچستان خضدار سرفراز بگٹی قبائلی شخصیت لڑکی اغوا وزیراعلیٰ بلوچستان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بازیاب بلوچستان سرفراز بگٹی قبائلی شخصیت لڑکی اغوا وزیراعلی بلوچستان وی نیوز اہل خانہ
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔