Jasarat News:
2025-09-19@04:51:51 GMT

شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں

رحیم طلب
دھرتی زاد شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کیمحافظ ہیں، جنھوں نے ہمیشہ حملہ آوروں، قبضہ گیروں، ظلم وجبر اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف بلا خوف و خطر علم بلند کیا. اپنی دھرتی، مقامی لوگوں اور غربت وافلاس کو اپنی شاعری اور نثرنگاری میں موضوع بنایا۔
علم وادب کا گہوارہ احمد پور شرقیہ قیام پاکستان سے قبل بھی ریاست بہاولپور کاصدر مقام ہونے کے باعث شعراء اور ادیبوں کا من پسند شہر تھا ۔ادبی تخلیقات کا سفر کراچی سے شروع کیا.

اس وقت ان کا شمار اردو اور سرائیکی کے نامور شعراء اور نثر نگاروں میں ہوتا ہے. نظم لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا جو شاعری میں جدت و انقلابی قدم تھا، تصویر کو دیکھ کر نظم لکھنے کے تجربے کو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی
.شاعری اور نثرنگاری میں 9 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کی تصانیف میں، الحمداللہ،(بیاض سونی پتی کی سور ہ فاتحہ کی منظوم تفسیر)،سخن فرید،سونا چاندی،زمین آسمان،آکھیا مبارک شاہ، پرسیپیشن آف گاڈ اینڈ یونیورس، فراہم دی ستلج بنک، اور ایہو سچ اے شامل ہیں جبکہ 4 تصانیف مثنوی رسول اللہ، کونجاں دے گل کھانگے، بت شیشے دا دل شیشے دا اور ایک صدی کی کی سائنسی معلومات پر مبنی کتاب کنٹری آف سائنس (اردو، انگریزی) زیر طباعت ہیں. رحیم طلب نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کا احاطہ دنیا بھر میں معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف قلم اٹھانا جہاد ہے، ایک منظم ساڑش کے تحت وادی سندھ کی تہذیبوں میں تصادم کی سازش کی جارہی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، وادی سندھ کی ہزارہا صدیوں پرانی تہذیب وتمدن، زبانوں،ادب اور ان کے مشاہیر کی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کے آگے بندھ باندھنا ہوگا. ؎

ہمارے زمانے میں جو اصل میڈیا تھا،جس کی اپروچ ایزی تھی، وہ تھا ریڈیو۔ ریڈیو سے جو نغمے نشر ہوتے تھے وہ دل پر اثر کرتے تھے اور دوسرا یہ ہے کہ محرم کے ایام میں، میں مر ثیے اور نوحے سنا کرتا تھا، ہمارے محلے کی ایک ٹیم تھی جو مرثیے گروپ کی صورت میں گایا کرتی تھی تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، میرے دل میں بھی ایک امنگ ابھری کہ میں بھی شاعری کروں، گیت لکھوں، تو اس طرح میں نے گیت لکھنے کی شروعات کی. اس طرح میں نے شاعری کا اغاز کیا. اس دوران کالج پہنچا تو تعلیمی اخراجات کے لئے مقامی اخبارات میں کام کیا،پھر اردو ادب میں شاعری اور نثر نگاری میں اپنا ایک مقام بنایا. رحیم طلب کا کہنا تھا کہ شاعری پر میرے گھر والوں کا کوئی خاص رد عمل نہیں تھا کیونکہ میرے والدین ان پڑھ تھے اور میرے بھائی صرف اردو لکھنا پڑھنا جانتے تھے جنھوں میری حوصلہ افزائی کی اور میں ادبی میدان میں مزید آگے بڑھتا چلا گیا. رحیم طلب نے آخر میں کہا کہ اردو، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، پنجابی، براہوی اور دیگر مقامی زبانوں کے ادہبوں ودانشوروں کو چاہیئے کہ تہذیبوں کے ٹکراؤ کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شعراء اور شاعری اور

پڑھیں:

کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی

گزشتہ روز ہر سال کی طرح دنیا بھر میں ’عالمی یومِ تحفظِ اوزون‘ منایا گیا۔ اقوام متحدہ نے زمین کو سورج کی خطرناک بالائے بنفشی  (الٹرا وائلٹ) شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔

اس سال اقوام متحدہ کی جانب سے یہ دن نہ صرف ایک کامیابی کی علامت ہے بلکہ ایک یاد دہانی بھی ہے کہ جب دنیا متحد ہو کر سائنسی خبرداریاں سنجیدگی سے لیتی ہے، تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔

سائنس کی وارننگ، عالمی ردعمل

گزشتہ صدی میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اوزون کی تہہ تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ انسانی ساختہ کیمیکلز تھے جنہیں ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے تھے، جیسے کہ کلورو فلورو کاربن جو فریج، ایئرکنڈیشنر اور اسپرے کینز میں عام تھے۔

جب یہ مادے فضا میں پہنچ کر اوزون کو نقصان پہنچانے لگے تو دنیا بھر کے ممالک نے سنہ 1985 میں ’ویانا کنونشن‘ پر دستخط کیے جو اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لیے پہلا عالمی معاہدہ تھا۔ اس کے بعد سنہ 1987 میں ’مونٹریال پروٹوکول‘ نے ان نقصان دہ مادوں کی پیداوار اور استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

اقوام متحدہ: ایک تاریخی کامیابی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے عالمی یوم اوزون کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج اوزون کی تہہ میں موجود شگاف بند ہو رہے ہیں اور یہ کامیابی سائنس، کثیرالملکی عزم اور مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) کی ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کے مطابق آج اوزون کو نقصان پہنچانے والے زیادہ تر کیمیکلز تقریباً ختم کیے جا چکے ہیں اور توقع ہے کہ اوزون کی تہہ اگلی چند دہائیوں میں مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔

کثیر الفریقی تعاون کی شاندار مثال

یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سائنس کی وارننگ کو سنجیدگی سے لینا کیسا فرق لا سکتا ہے۔ جب ممالک، صنعتیں اور ادارے اکٹھے ہوتے ہیں تو بڑے ماحولیاتی خطرات کو کیسے ٹالا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں نے اس میں عملی کردار ادا کیا۔

مستقبل کا چیلنج: کیگالی ترمیم

سیکریٹری جنرل نے دنیا بھر کی حکومتوں سے ’کیگالی ترمیم‘ پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ترمیم مونٹریال پروٹوکول میں شامل کی گئی ہے تاکہ ہائیڈرو فلورو کاربنز جیسی مزید نقصان دہ گیسوں پر بھی قابو پایا جا سکے۔ اگر اس پر مکمل عمل ہوا تو ماہرین کے مطابق ہم سنہ 2100 تک زمین کا درجہ حرارت 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اگر اس کے ساتھ توانائی بچانے والی کولنگ ٹیکنالوجیز اپنائی جائیں تو یہ فائدہ دوگنا ہو سکتا ہے۔

نتیجہ: سبق، امید اور عزم

یہ کامیابی نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ اس بات کا عملی سبق بھی ہے کہ اگر انسان چاہے تو زمین کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

انتونیو گوتیرش کہتے ہیں کہ اوزون کے اس عالمی دن پر سب ہی کو یہ گیس محفوظ رکھنے اور انسانوں اور زمین کے تحفظ کے عزم کو دہرانا ہو گا۔

اوزون تہہ کیا ہے اور زمین کے لیے اہم کیوں ہے؟

اوزون کی تہہ زمین کے گرد فضا میں موجود ایک قدرتی حفاظتی ڈھال ہے جو ہمیں سورج کی مضر شعاعوں (الٹرا وائلٹ شعاعوں) سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ مضر شعاعیں جانداروں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں اس لیے اوزون تہہ کو زمین کی محافظ سمجھا جاتا ہے جو زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

اوزون تہہ کا کردار

یہ سورج سے آنے والی نقصان دہ بالا بنفشی شعاعوں کو جذب کر لیتی ہے۔ اس طرح یہ شعاعیں زمین کی سطح تک پہنچنے سے رک جاتی ہیں۔ یہ شعاعیں اگر براہ راست زمین تک پہنچیں تو انسانی صحت، جنگلی حیات، اور فصلوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

اوزون تہہ دراصل زمین کے ماحول کی قدرتی حفاظتی ڈھال ہے جو زندگی کے بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔

اوزون تہہ کی اہمیت

اگر اوزون تہہ نہ ہو تو سورج کی مضر شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچیں گی۔ اس صورت میں زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں رہے گا لہذا یہ زمین پر جانداروں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے.

اوزون تہہ کو خطرات

فضائی آلودگی کی وجہ سے اوزون کی اس حفاظتی تہہ میں شگاف پیدا ہوا ہے جس سے زمین پر سورج کی شعاعیں براہ راست پڑنے لگی ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے اوزون تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے۔

تاہم عالمی سطح پر کیے گئے اقدامات، خصوصاً مونٹریال پروٹوکول کی بدولت، ان مادوں پر پابندی عائد کی گئی اور اب اوزون تہہ بتدریج بحال ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو اوزون کی تہہ آئندہ چند دہائیوں میں مکمل طور پر بحال ہو سکتی ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • رحیم یار خان، انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کی بدولت انڈھڑ گینگ کی قید سے 9 مغوی بازیاب
  • انصاف کے دروازے میرے اور اہلیہ پر بند ہیں: بانی پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کو خط
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • پاکستان حرمین شریفین کا محافظ بن گیا، پاک سعودی دفاعی معاہدے کے اہم نکات
  • سعودی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف کے جہاز کا شاہانہ استقبال
  • بسکٹ میں سوراخ کیوں ہوتے ہیں؟ حیران کن وجہ جانیے
  • 17 ارکان کے کمیٹیوں سے استعفے میرے پاس آگئے، آج جمع کراؤں گا، سینیٹر علی ظفر
  • فلسطینی جنگلی جانور ہیں، امریکی وزیر خارجہ کی بوکھلاہٹ