Juraat:
2025-06-09@20:08:47 GMT

خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک

مختار احمد (مسافر پاکستانی)

٭ جب لوگوں کی تھیٹروں میں دلچسپی بڑھی تو سب سے پہلے نیپئر روڈ راکسی سینما کی جگہ راحیل تھیٹر بنایا گیا اور پھر کمہار سینما جو کہ نیپئر روڈ پر ہی واقع تھا کی جگہ موتی لال تھیٹر قائم کیا گیا جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ٭ انگریز سرکار طاقتور تھی لہٰذا اُس نے احتجاج کرنے والوں کی آواز دبا کر سینما گھر بنانے کا سلسلہ شروع کردیا اور اِس سلسلے میں سب سے پہلے بندر روڈ کے علاقے میں پکچر ہاؤس نامی سینما قائم کیا ٭جہاں تک موجودہ دور میں سینما گھروں کا تعلق ہے تو ایم اے جناح روڈ پر پرنس سینما، نشاط سینما، پلازہ سینما، ناز سینما، کیپری سینما، لائٹ ہاؤس سینما سمیت درجنوں سینما گھر واقع تھے، اب صرف ایک کیپری سینما گھر قائم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ماضی کے کراچی کو کھیل کے میدانوں، کلبوں، تھیٹروں اور باغات کا مرکز قرار دیا جائے تو یہ ہرگز غلط نہ ہوگا کیونکہ کراچی میں تھیٹر، کلب، باغات اور کھیل کے میدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، جہاں تھکے ماندہ لوگ دن بھر کی تھکاوٹ کو مٹانے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

اب جہاں تک کراچی میں تھیٹر کے آغاز کا تعلق ہے تو اِس کا آغاز شہر کے قدیم پارسی باشندوں نے کیا تھا۔ اُن کے قائم کئے جانے والے تھیٹروں میں بمبئی سے فنکار آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور داد و تحسین وصول کرکے دوبارہ اپنے شہروں کو لوٹ جاتے تھے۔

ابتداء میں ڈی جے کالج میں سب سے پہلی ڈرامیٹک سوسائٹی قائم ہوئی جس کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ شہر کراچی میں ایمیچر کے نام سے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جو کہ اصلاحی، ادبی اور مزاحیہ ڈرامے پیش کیا کرتے تھے۔ابتداء میں اِن ڈراموں کو پیش کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ تھیٹر قائم نہیں تھا مگر جب لوگوں کی تھیٹروں میں دلچسپی بڑھی تو سب سے پہلے نیپئر روڈ راکسی سینما کی جگہ راحیل تھیٹر بنایا گیا اور پھر کمہار سینما جو کہ نیپئر روڈ پر ہی واقع تھا کی جگہ موتی لال تھیٹر قائم کیا گیا جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔

اب جہاں تک شہر کراچی میں سینما گھروں کی ابتداء کا تعلق ہے تو کیونکہ ابتداء میں خاموش فلمیں چلا کرتی تھیں اور فنکار اشاروں کی زبان میں فلم کا مقصد بیان کرتے تھے جس میں اُس وقت دلچسپی پیدا کرنے کے لئے فلم اسکرین کے ساتھ باقاعدہ طور پر طبلہ نواز اور سارنگی نواز کو بٹھایا جاتا تھا اور وہ اپنی مدھر موسیقی کے ذریعے خوشی اور غمی کی دھنیں بجا کر فلمی سین کی ترجمانی کیا کرتے تھے۔ اُس وقت تک سینما گھروں کی چھتیں نہیں ہوتی تھیں، لہٰذا یہ فلمیں رات کے اندھیروں میں چلائی جاتی تھیں مگر اِس کے باوجود فلم دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سینماؤں کا رُخ کیا کرتی تھی۔ اُس وقت زیادہ تر فلمیں اِنہی تھیٹروں میں چلائی گئیں۔ پھر برصغیر میں جب بولنے والی فلموں کا آغاز ہوا تو اُس کا نام انگریزی زبان ٹاک یعنی کہ بات کے نام پر، ‘ٹاکیز’ رکھا گیا۔

یہ غالباً 1927ء کا دور تھا، جب برصغیر میں با قاعدہ طور پر سینما گھروں کا آغاز کیا گیا اور پھر کراچی بھی اِس سے محفوظ نہ رہا۔حکومت نے جب اِس سلسلے میں کراچی میں پہلے سینما گھر کی اجازت دی تو یہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اور انہوں نے اِس کیخلاف باقاعدہ طور پر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن کیونکہ انگریز سرکار طاقتور تھی لہٰذا اُس نے احتجاج کرنے والوں کی آواز دبا کر سینما گھر بنانے کا سلسلہ شروع کردیا اور اِس سلسلے میں سب سے پہلے بندر روڈ کے علاقے میں پکچر ہاؤس نامی سینما قائم کیا۔

مسلمان سینما گھروں کیخلاف سراپہ احتجاج تھے لہذا سینما فلم دیکھنے والا کوئی نہ تھا جبکہ شہر میں رہنے والے دیگر اقوام کے لوگ جن میں ہندو، عیسائی، یہودی، پارسیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی انہوں نے بھی فلم بینی سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا، جس پر لوگوں کو اِس جانب مائل کرنے کے لئے فلم شروع ہونے سے پہلے مقبول گانوں کی دھنیں بجائی جاتی تھیں جس سے لوگ سینما گھروں کا رخ کرنے لگے۔اب جہاں تک کراچی میں دیگر سینما گھروں کے قیام کا تعلق ہے تو جب فلمی شائقین بڑھے تو لوگوں نے اِس بزنس کی جانب توجہ دینی شروع کردی اور قیامِ پاکستان سے قبل ہی کراچی میں 20 سے زائد سینما گھر قائم ہوگئے، جن میں بندر روڈ کے علاقے میں لائٹ ہاؤس پر گلوپ سینما، ایمپائر ٹاکیز، رنجیت ٹاکیز، تاج محل سینما، پلازہ سینما، رادھا سینما، صدر کے علاقے میں ریگل سینما، کیپٹل سینما، پیلس سینما، مے فیئر سینما، نیپیئر روڈ کے علاقے میں پربھات سینما، ڈرامہ ٹاکیز، جگدیش ٹاکیز، کمار ٹاکیز و دیگر سینما قائم ہوئے جن میں ابتدائی طور پر رات کے وقت ایک شو اور پھر دن مین دو شو چلائے جانے لگے۔

اب جہاں تک اُس وقت کے سینما گھروں کا تعلق تھا تو اُن میں فلم بینوں کے لئے ابتدائی طور پر چھتیں بھی نہ تھیں، ایئرکنڈیشن سے عاری ہوتے تھے اور گرمی ہو یا سردی، یا پھر برسات، لوگ بڑی دلچسپی کے ساتھ فلمیں دیکھا کرتے تھے بلکہ اُس وقت کے معروف اداکار جن میں کے ایم سہگل، کنیا لعل، رتن بائی و دیگر ادکاروں کی باقاعدہ نقالی بھی کیا کرتے تھے۔ اب جہاں تک اُس وقت کے فنکاروں کا تعلق تھا تو اسکرین فیس کے ساتھ ساتھ اچھی اداکاری اور گلوکاری کا جاننا بھی ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ جو فنکار اداکاری کرتے تھے وہی اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کراتے تھے، یہی وجہ تھی کہ پہلے کے بڑے ایکٹر آگے چل کر معروف پلے بیک سنگر بھی بنے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جو پہلی فلم سینماؤں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی اس کا نام ‘عالم آراء’ تھا اور اِس میں سہگل، کنہیا لعل و دیگر نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے۔اب جہاں تک موجودہ دور میں سینما گھروں کا تعلق ہے تو ایم اے جناح روڈ پر پرنس سینما، نشاط سینما، پلازہ سینما، ناز سینما، کیپری سینما، لائٹ ہاؤس سینما سمیت درجنوں سینما گھر واقع تھے، اب صرف ایک کیپری سینما گھر قائم ہے جبکہ اِسی طرح ریگل سینما، ریو سینما سمیت تقریباً تمام سینما گھر ختم ہوچکے ہیں، جبکہ صدر میں واقع ایٹریم مال میں کچھ جدید سینما گھر کام کر رہے ہیں جہاں فلموں کے اصل شائقین کے بجائے وقت گزاری کرنے والے شائقین نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: روڈ کے علاقے میں سینما گھروں کا کا تعلق ہے تو کیا کرتے تھے تھیٹروں میں کیپری سینما سب سے پہلے اب جہاں تک کراچی میں سینما گھر قائم کیا اور پھر روڈ پر کی جگہ کے لئے

پڑھیں:

مریم نواز خود متحرک! عید پر مختصر وقت میں بہترین صفائی کا ریکارڈ قائم

 وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز عیدالاضحیٰ کے موقع پر صوبے صفائی کے حوالے سے خود متحرک ہو گئیں جس کے باعث مختصر وقت میں بہترین صفائی کا ریکارڈ قائم ہو گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف عید کے دوسرے روز بھی صفائی انتظامات کی ذاتی طور پر بھرپور مانیٹرنگ میں مصروف ہیں، وزیراعلیٰ نے صفائی ستھرائی کے بہترین انتظامات پر متعلقہ اداروں کو شاباش دی۔ہر ڈویژن میں کمشنر، ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ہر تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر صفائی انتظامات کے لئے خود فیلڈ میں نکل آئے، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز نے گھر گھر جا کر چیکنگ کی اور عوام سے فیڈ بیک لیا۔ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت عید سے ایک روز پہلے 94 فیصد ویسٹ کولیکشن، عید کے روز ایک لاکھ 11 ہزار ٹن ویسٹ ٹھکانے لگایا گیا، پروگرام کے تحت عوام کی 85 فیصد شکایات کا فوری ازالہ کیا گیا، ایک لاکھ 40 ہزار ورکرز ویسٹ کولیکشن کے لئے فیلڈ میں سرگرم عمل ہیں۔صفائی آپریشن میں 38 ہزار گاڑیوں اور ویسٹ کولیکشن کے لئے 3 لاکھ 80 ہزار سے زائد آلات کا استعمال کیا گیا، ویسٹ کولیکشن کے لئے پہلی مرتبہ ایک کروڑ 20 لاکھ ڈسپوزیبل بیگ تقسیم کیے گئے، آلائشوں کی بروقت تلفی یقینی بنانے کے لئے یونین کونسلز کی سطح پر 3970 کیمپس قائم کئے گئے۔اس کے علاوہ جانوروں کی آلائشوں سے پھیلنے کا تعفن دور کرنے لئے 30 ہزار لٹر سے زائد عرق گلاب، ایک لاکھ 43 ہزار لٹر فینائل کا استعمال کیا گیا، صفائی کیلئے 29 لاکھ 87 ہزار کلو گرام چونا بھی استعمال کیا گیا۔لاہور، بہاولپور اور سرگودھا ٹارگٹ سے 100 فیصد زائد ویسٹ کولیکشن کے ساتھ سرفہرست رہا، ڈیرہ غازی خان ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، ملتان اور ساہیوال سے 80 فیصد تک ویسٹ کولیکشن کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں شدید غذائی قلت سے بچوں کی حالت تشویشناک، امدادی مراکز بند، عالمی برادری خاموش
  • مریم نواز خود متحرک! عید پر مختصر وقت میں بہترین صفائی کا ریکارڈ قائم
  • آلائشیں اٹھانے کے حوالے سے صورتحال کنٹرول میں ہے، میئر کراچی
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
  • آلائشیں اٹھانے کے حوالے سے صورتحال کنٹرول میں ہے: میئر کراچی
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا
  • فلسطین کی آزمائش پر عالم اسلام خاموش، اللہ دشمنوں کو نابود کرے: خواجہ آصف
  • فلسطینی اس وقت آزمائش میں ہیں، عالم اسلام خاموش ہے، خواجہ آصف