عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ قبول نہیں، علامہ علی اکبر کاظمی
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنی ابتداء سے لے کر آج تک ہمیشہ مومنین، زائرین اور عزاداروں کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ فروغ عزاداری اور تحفظ عزاداری کیلئے اپنا بہترین کردار ادا کیا اور دشمن کی ہر سازش کو بے نقاب اور ناکام بناتے ہوئے عزاداری کے قیام کو 100 فیصد یقینی بنایا اور وقت کے یزید کیخلاف قیام کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ پنجاب کے سیکرٹریٹ لاہور میں بانیاں عشرہ اور ماتمی سنگتوں کے سالاروں نے شیعہ بیٹھک کے عنوان سے اہم اجلاس میں بھر پور شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی صدر پنجاب علامہ سید علی اکبر کاظمی نے کہا کہ ہم کسی صورت عزاداری سید الشہداء امام مظلوم کربلاؑ پر سمجھوتہ کسی صورت قابل قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، ہم عزاداری سید شہداء امام مظلوم کربلا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنی ابتداء سے لے کر آج تک ہمیشہ مومنین، زائرین اور عزاداروں کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ فروغ عزاداری اور تحفظ عزاداری کیلئے اپنا بہترین کردار ادا کیا اور دشمن کی ہر سازش کو بے نقاب اور ناکام بناتے ہوئے عزاداری کے قیام کو 100 فیصد یقینی بنایا اور وقت کے یزید کیخلاف قیام کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم عزاداروں کے نوکر ماتمیوں کے جوتے اٹھانے والے ہیں۔ مولا علیؑ کے مانیے والے منظم ہوتے ہیں اور ہمیں منظم ہونا پڑے گا، تاکہ دشمن کو ہر سطح پر ناکام کیا جا سکے۔ علامہ علی اکبر کاظمی کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کی حکومت کو قائم کرنا ہے، ہم عزاداروں اور عزاداری کے تحفظ کیلئے ہر قربانی کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی صورت دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ہماری قیادت سینٹ میں بھی قوم و ملت جعفریہ کی آواز بن کر ہر مطالبہ ہیش کر رہی ہے اور اپنا فرضں ادا کر رہی ہے، ہمیں سب کو مل کر ہر ساسیی میدان میں کامیاب ہونا ہو گا، جو آپ کے اتحاد کے بغیر مکن نہیں، ان شاءاللہ ہم کسی دباو اور سازش کو قبول نہیں کریں گے، اور آپ کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ ہم
پڑھیں:
شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔
یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔
پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔
مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔
یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔
مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔ ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔