آئی ایم ایف نمائندے کی کسی بھی جائزہ مشن کے پاکستان آنے کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد : عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے نمائندے نے کسی بھی جائزہ مشن کے پاکستان آنے کی تردید کردی۔
پاکستان میں موجود آئی ایم ایف ٹیم کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بینیجی نے کہا کہ موجودہ ٹیم کا دورہ صرف تکنیکی معاملات کے جائزے کے لیے ہے، اسے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن سے منسلک نہ کیا جائے۔
ماہر بینیجی کا کہنا تھا کہ اس ٹیم کا مقصد پروگرام سے متعلقہ تکنیکی امور پر کام کرنا ہے، کسی بھی قسم کے دیگر جائزے شیڈول میں شامل نہیں۔ دوسری جانب وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے آئی ایم ایف وفد کی پاکستان آمد سے متعلق فی الحال کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا اور اب اس معاملے پر نمائندہ آئی ایم ایف نے وضاحت بھی جاری کردی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
دوحہ کانفرنس اور فیصلے
حمیداللہ بھٹی
دوحہ پرہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اِس کا واحد مقصدمشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کوسبوتاژکرناہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جوازحاصل رہیں۔ حملے کے اثرات ومضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیاکی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وجہ فیصلوں کافقدان رہا۔حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لے کر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگرایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پارہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزیدتباہ کُن ہے ۔فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتناکمزور اور بے بس ہو گا حیرت ہے۔ اسی لیے واقفانِ حال کاکہناہے قطر جوابی کارروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتاہے ۔امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک وشبہات برقرار ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدیدترین ہتھیاروں کے باوجودقطری آزادی وخود مختاری کی پامالی ہو گئی مگرامریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہرہوتی ہے ۔اسی بنا پر قطر مزید اعتمادکرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پراسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غوروخوض میں مصروف تھے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کررہے تھے ۔یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپرست امریکہ ہے اور وہ جانتاہے کہ سرپرستی سے دستکش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپناوجود کھو بیٹھیں گی ۔اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے ۔ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوںکو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی وخود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
اگر آزادی وخود مختاری کاتحفظ کرناہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کاہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبورہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روزگزرچکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کوبدستور گیس کی فراہمی جاری ہے ۔یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند وناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی ۔دنیا کے ذرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کاکنٹرول ضرور ہے۔ قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم ذریعہ موجودہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے ۔اِس کے باوجود وہ کیوں اپناموقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے ؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں ۔غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے ۔بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگرمسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اورغیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ توکیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کوکٹہرے میں لانے نیز اُسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو ۔
عربوں کی دُرگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ساراوزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہویا فضائیہ ،سب امریکی ومغربی ساختہ ہے ۔اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت ،اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یامغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متبادل کاآپشن بھی رکھیں تو حالات یکسرمختلف ہوں ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجودروسی ہتھیاربھی خریدتا ہے ۔خوش قسمتی سے چین و روس کونئے اتحادیوں کی تلاش ہے۔ اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں ذریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کوخود استعمال کرسکیںگے ۔پاکستان اورترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں ۔
قطر حملے پر پاکستان ،ترکیہ ،ملائشیااور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے توساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آذربائیجان ،پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھربھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کویواین اومیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطرپر حملے کی مذمت کرتی ہے ۔امیرترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہورہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خودکفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی
حوالے سے خود مختار ہو ں وگرنہ یادرکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔