ڈونلڈ ٹرمپ اوراُن کے فیصلے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا منصب سنبھالتے ہی بہت ہی تیزی اور پھرتی سے ایسے فیصلے کرنا شروع کردیے جن کی اُن سے توقع نہیں کی جارہی تھی۔خیال کیا جارہا تھاکہ وہ اس بار اُن غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے جو انھوں نے اپنے پہلے دورصدارت میں سرزد کی تھیں۔پہلے دور صدارت میں غیر ذمے دارانہ فیصلوں کی وجہ سے ہی وہ 2020 میں دوبارہ منتخب نہیں ہوپائے تھے ،حالانکہ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ انھیں زبردستی ہرایاگیا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم اور بانی تحریک انصاف اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سے خصوصیت ایک جیسی ہیں۔ دونوں کا انداز حکومت بھی ایک جیسا ہی ہے۔دونوں ہی اپنی جیت کو اپنی ذاتی مقبولیت اورذہانت سمجھ کرمخالفوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ وہ مخالفوں سے بات چیت تودور کی بات ،ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں۔حکومت سے معزول کیے جانے کو اپنی تضحیک اوربے عزتی سمجھتے ہوئے وہ احتجاج کی آخری حدوں کو چھولینے کو تیار رہتے ہیں۔جس طرح ہمارے یہاں 9 مئی کو جوکچھ ہوا ، اسی طرز پرٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں کیپیٹل ہلز پرہلہ بول دیا۔دونوں پرمقدمات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں اوردونوں ہی قسمت کے دھنی تصور کیے جاتے ہیں۔
آج جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھرمنتخب ہوکر امریکا کے حکمراں بن گئے ہیں ، بانی تحریک انصاف کے حامی بھی انھیں دوبارہ وزیراعظم دیکھنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم سمجھا کرتے تھے کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ آج کے حکمراں کل کے قیدی اورآج کا قیدی کل کا حکمراں بن سکتا ہے۔مگر نہیں یہ سب کچھ امریکا میں بھی ممکن ہے۔ کسی سیاستدان کے خلاف بے شمار مقدمات بنائے بھی جاتے ہیں اوروقت بدلنے پروہ سارے مقدمات یکسر ختم بھی کردیے جاتے ہیں بلکہ دوبارہ صدارت یا وزارت عظمیٰ کے منصب سے سرفراز بھی کردیا جاتا ہے۔
یہی کچھ آج ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہوچکا ہے ، اُن پر کیپٹل ہلز پرحملے سمیت سارے مقدمات ختم کردیے گئے ہیں اورجس میں وہ سزا کے مستحق بھی سمجھے جارہے تھے انھیں بھی معطل کردیا گیا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سخت ناپسندیدگی کے باوجود وہ آج امریکا کے دوبارہ صدر منتخب ہوچکے ہیں بلکہ جلد بازی اورعجلت میں وہ ایسے خطرناک فیصلے بھی کررہے ہیں جن کے نتائج خود امریکا کے حق میں اچھے نہیں ہونگے۔ ایسا لگتا ہے وہ اسٹبلشمنٹ سے اپنا بدلہ چکا رہے ہیں۔
وہ آج جو فیصلے کررہے ہیں اگر اپنی انتخابی مہم میںاُن کاعندیہ دے دیاہوتا تو شاید وہ اتنی اکثریت سے جیت بھی نہیں پاتے۔ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں نے انھیں اپنے لیے بہتر سمجھ کرانھیں بھاری تعداد میں ووٹ بھی دیاتھا مگر اقتدار میں آتے ہیں انھوںنے فلسطین اورغزہ سے متعلق جواپنے ارادے اورعزائم ظاہر کیے ہیںاُن سے وہاں کے مسلمانوں کو بہت مایوسی ہی ہوئی ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ پریس کانفرنس میں انھوں نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیا کے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ انھوںنے کینیڈا ، فرانس اورچین کو بھی اپنا دشمن بناڈالا ہے۔غزہ کے فلسطینیوں سے ہمدردی کرنے کے بجائے انھوں نے انھیں اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کردینے کی باتیں کی ہیں اوربظاہر تعمیرنو کے نام پروہاں اپنا قبضہ قائم کرنے کے ارادوں کا جو اظہار کیا ہے اُس نے ساری دنیا کو ابتلا میں مبتلا کردیا ہے،جو مسلمان انھیں اپنا خیرخواہ سمجھ رہے تھے انھیں جان لینا چاہیے کہ ٹرمپ اپنے سابقہ حکمرانوں سے مختلف نہیں ہیں ۔امریکا میں خواہ کوئی بھی شخص حکمران بن جائے لیکن اُس کی اولین ترجیح اسرائیل کی حمایت اورگریٹر اسرائیل کی تعمیر ہی ہوتی ہے۔
خلیج اورمڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کی تعریف اورتوصیف کے پیچھے بھی اُن کے وہی عزائم کارفرما ہوتے ہیں۔جناب ٹرمپ نے آتے ہی اپنے اس مشن پرکام شروع کردیا ہے۔ سوا سال جاری رہنے والی غزہ کی جنگ کے خاتمے کاکریڈٹ اپنے نام کرکے جس طرح انھوں نے وہاں تعمیرنو کی باتیں کی ہیں وہ دراصل گریٹر اسرائیل کی جانب ہی اُن کے عزائم کی نشان دہی کررہا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پراضافی ٹیکس لگا کرانھوں نے ایک اوربڑا فیصلہ کرڈالا ہے ۔اِن فیصلوں کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
اس سے قطع نظرانھوں نے اپنی دانست میں ایک درست فیصلہ کیا ہے۔جس طرح ہمارے بانی تحریک انصاف صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگاکرایک دانشمندانہ فیصلہ تصورکرتے رہے ہیں اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے ایسے ہی فیصلوں کو انتہائی دانشمندانہ سمجھتے ہیں۔اُنکی باڈی لینگویج اورانداز گفتگو اس بات کا غماز ہے کہ جیسے سارے امریکا میں وہی ایک سب سے ذیادہ ذہین اورعقلمند شخص ہیں۔اُپنی اس خوش فہمی میں وہ یکے بعد دیگرے غلط اورخطرناک فیصلے کرتے جارہے ہیں جن کا خمیازہ آنے والے دنوںمیں امریکا ہی نہیں ساری دنیا بھگتے گی۔وہ دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے اُن کے پاس وقت بہت کم ہے اوروہ بہت ہی عجلت میں امریکا کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں۔ نئے پاکستان کی طرح نیا امریکا جنم لے رہا ہے جس کا دنیا میں شاید ہی کوئی دوست باقی رہے ، وہ سب سے دشمنی مولتے جارہے ہیں۔ یورپی ممالک ابھی اُن کے فیصلوں کو بغوردیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنا مؤقف اورجواب بعد میں ظاہرکرینگے ۔ٹرمپ جب اس بازیچہ اطفال سے کھیل کرتھک چکے ہونگے پھر اُن کی طرف سے کوئی ری ایکشن یاردعمل ظاہرکیاجائے گا۔ٹرمپ کے سارے فیصلے اِن میچوراورعاجلانہ ہیں۔ہر روز اُن کا کوئی ایسا فیصلہ آجاتا ہے جس پرساری دنیا تبصرہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیںکہ اس طر ح وہ دنیا کی خبروں میں دیر تک زندہ اورمقبول رہیں گے۔
ابھی عہدہ صدارت سنبھالے انھیں ایک ماہ بھی نہیںگزرا ہے اورانھوں نے بے شمارمتنازع فیصلے کرڈالے ہیں۔وہ خود کو دنیا کاسب سے طاقتورحکمراں سمجھ کر غلطیوں پر غلطیاں کرتے جارہے ہیں ۔
فی الحال اُن کی توجہ مشرق وسطیٰ پرمرکوز ہے۔ پاکستان اُنکی نظرالتفات سے محروم ہے۔ وہ جب ایک محاذسے نمٹ چکے ہونگے تو پھر انھیں ہمارا جوہری پروگرام اورسی پیک یاد آئے گا۔ اپنے پچھلے دور میں انھوں سی پیک پرقدغنیں لگاکر اسے رول بیک کروادیاتھا۔ اب دیکھتے ہیں وہ کیاکرتے ہیں، ہم پاکستانیوںکو اُن سے وفا کی کوئی امید نہیںرکھنا چاہیے۔امریکا کاکوئی بھی حکمراں ہماری محبت میں اپنا سینہ چوڑا نہیں کرے گا۔ جس طرح وہ اسرائیل کے لیے کرتا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں شاندار استقبال کیے جانے کو اپنا اعزاز سمجھ کرکاندھے اچکانے کے بجائے ہمیں اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیںکرنا چاہیے کہ اس استقبال کے پیچھے بھی ان کے مکروہ عزائم کارفرما ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
رواں مالی سال کے پہلے 3 ماہ کے دوران کمپنی (ٹیسلا) کے منافع اور آمدنی میں کمی کے بعد ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اپنا کردار کم کریں گے۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق فروخت میں کمی آئی اور الیکٹرک کار ساز کمپنی کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ مسک وائٹ ہاؤس کا ایک سیاسی حصہ بن گئے تھے۔
منگل کے روز ٹیسلا نے 2025 کی پہلی سہ ماہی میں فروخت میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد کمی کی اطلاع دی، جب کہ منافع میں 70 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔
کمپنی نے سرمایہ کاروں کو متنبہ کیا کہ یہ ’درد‘ جاری رہ سکتا ہے، انہوں نے ترقی کی پیش گوئی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’بدلتے ہوئے سیاسی جذبات‘ طلب کو معنی خیز طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
کمپنی کی دولت میں حالیہ گراوٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب ٹرمپ کی نئی انتظامیہ میں ایلون مسک کے کردار پر احتجاج کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حکومت کی ذمہ داریوں نے ان کی توجہ کمپنی سے ہٹا دی ہے۔
ٹیک باس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب میں ایک چوتھائی ارب ڈالر سے زیادہ کا حصہ ڈالا تھا، وہ وفاقی اخراجات میں کمی اور سرکاری افرادی قوت میں کمی کے لیے ٹرمپ کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈوج) کی قیادت بھی کرتے ہیں۔
ایلون مسک نے کہا کہ اگلے ماہ سے ڈوج کے لیے ان کے وقت میں نمایاں کمی آئے گی، وہ ہفتے میں صرف ایک سے دو دن حکومتی معاملات پر صرف کریں گے، جب تک صدر چاہتے ہیں کہ میں ایسا کروں اور جب تک یہ کارآمد ہو۔
امریکی حکومت میں مسک کی سیاسی شمولیت نے دنیا بھر میں ٹیسلا کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے اس کا الزام ان لوگوں پر عائد کیا جو ’مجھ پر اور ڈوج ٹیم پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے‘ لیکن انہوں نے ڈوج میں اپنے کام کو ’نازک‘ قرار دیا اور کہا کہ حکومت کے اداروں کو زیادہ تر ٹھیک کرلیا گیا ہے۔
نئے اعداد و شمار کے مطابق، ٹیسلا نے سہ ماہی کے دوران مجموعی آمدنی میں 19 ارب 30 کروڑ ڈالر لائے، جو سال بہ سال 9 فیصد کم ہے۔
تجزیہ کاروں کی توقع کے مطابق یہ رقم 21 ارب 10 کروڑ ڈالر سے بھی کم تھی اور یہ اس وقت سامنے آئی، جب کمپنی نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے قیمتوں میں کمی کی۔
کمپنی نے اشارہ دیا کہ چین پر ٹرمپ کے محصولات نے ٹیسلا پر بھی بھاری بوجھ ڈالا، اگرچہ ٹیسلا اپنی ہوم مارکیٹ میں جو گاڑیاں فروخت کرتی ہے وہ امریکا میں اسمبل کی جاتی ہیں، لیکن اس کا انحصار چین میں بننے والے بہت سے پرزوں پر ہوتا ہے۔
کمپنی کے مطابق ’تیزی سے بدلتی ہوئی تجارتی پالیسی‘ اس کی سپلائی چین کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور اخراجات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
ٹیسلا کی سہ ماہی اپ ڈیٹ میں کہا گیا ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی جذبات کے ساتھ ساتھ یہ متحرک مستقبل قریب میں ہماری مصنوعات کی طلب پر معنی خیز اثر ڈال سکتا ہے۔
ایلون مسک کا ٹرمپ انتظامیہ کی دیگر شخصیات بشمول تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کے ساتھ تجارت کے معاملے پر اختلافات ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں انہوں نے ٹیسلا کے بارے میں کیے گئے تبصروں پر ناوارو کو ’بدتمیز‘ قرار دیا تھا، ناوارو نے کہا تھا کہ مسک ’کار مینوفیکچرر نہیں ہیں بلکہ کار اسمبلر ہیں۔‘
منگل کے روز مسک نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹیسلا وہ کار کمپنی ہے جو شمالی امریکا، یورپ اور چین میں مقامی سپلائی چین کی وجہ سے ٹیرف سے سب سے کم متاثر ہوئی ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ ٹیرف ایک ایسی کمپنی پر اب بھی سخت ہیں جہاں مارجن کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں زیادہ ٹیرف کے بجائے کم ٹیرف کی وکالت کرتا رہوں گا، لیکن میں صرف یہی کر سکتا ہوں۔
ٹیسلا کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی میں کردار ادا کرے گی، حالانکہ سرمایہ کار ماضی میں اس طرح کے دلائل سے مطمئن نہیں تھے۔
کمپنی کے حصص اس سال منگل کو مارکیٹ بند ہونے تک اپنی قیمت کا تقریباً 37 فیصد گر چکے تھے، نتائج کے بعد گھنٹوں کی ٹریڈنگ میں ان میں 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
اے جے بیل میں سرمایہ کاری کے تجزیہ کار ڈین کوٹس ورتھ نے توقعات کو ’راک باٹم‘ قرار دیا، جب کمپنی نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ سہ ماہی میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 13 فیصد کم ہو کر 3 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔
کوٹس ورتھ نے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی سپلائی چین میں ممکنہ خلل نے بھی خطرات پیدا کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ ٹیسلا کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
Post Views: 1