چیف جسٹس عامر فاروق کا ایک اور فیصلہ، ججز کی سینیارٹی تبدیل کرنے کے خلاف 5 ججوں کی ریپریزنٹیشن مسترد
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ججز کی سینیارٹی تبدیل کرنے کے خلاف 5 ججوں کی ریپریزنٹیشن مسترد کردی، اور صوبائی ہائیکورٹس سے تین ججوں کے تبادلے کے بعد جاری کی گئی سینیارٹی لسٹ کو برقرار رکھا۔
چیف جسٹس کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آنے والے جج جسٹس سرفراز ڈوگر عدالت عالیہ کے سینیئر پیونی جج برقرار رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی نئی سنیارٹی لسٹ جاری، محسن اختر کیانی دوسرے نمبر پر چلے گئے
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ صوبائی ہائیکورٹس سے تبادلے کے بعد ججز کو دوبارہ حلف اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں، جسٹس سرفراز ڈوگر نے 2015 میں بطور ہائیکورٹ جج حلف اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے مطابق ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دو مختلف باتیں ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس محسن اخترکیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابرستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت کی ریپریزنٹیشنز کو مسترد کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ صوبائی ہائیکورٹس سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلوں کے بعد سینیارٹی لسٹ تبدیل ہوگئی تھی۔ جس پر عدالت عالیہ کے پہلے سے موجود 5 ججوں نے ریپریزنٹیشن میں کہا تھا کہ دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کے بعد جج کے لیے ضروری ہے کہ نیا حلف اٹھائے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججوں کے تبادلے کے بعد سینیئر پیونی جج جسٹس محسن اختر کیانی دوسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔
سنیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا تیسرا اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کا چوتھا نمبر ہے۔
نئی سنیارٹی لسٹ میں جسٹس بابر ستار پانچویں نمبر پر چلے گئے ہیں، جبکہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا چھٹا نمبر ہے۔
سنیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹس ارباب محمد طاہر ساتویں نمبر پر ہیں، جبکہ جسٹس ثمن رفعت کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس خادم حسین سومرو نویں اور جسٹس اعظم خان دسویں نمبر پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈیوٹی روسٹر جاری، 3 نئے ججز بھی شامل
اس کے علاوہ سنیارٹی لسٹ میں جسٹس آصف کا گیارہواں اور جسٹس انعام امین منہاس کا بارہواں نمبر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews جسٹس عامر فاروق چیف جسٹس پاکستان ریپریزنٹیشن مسترد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس عامر فاروق چیف جسٹس پاکستان ریپریزنٹیشن مسترد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی وی نیوز اسلام ا باد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق سنیارٹی لسٹ کے مطابق چیف جسٹس اور جسٹس نمبر ہے کے بعد
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔