لیبیا ساحل کے قریب کشتی حادثہ قابل مذمت ہے،جاوید قصوری
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
لاہور (وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے لیبیا میں پاکستانیوں سمیت تارکین وطن کی ایک اور کشتی حادثے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا کے ساحل کے قریب پاکستانی شہریوں کی ایک اور کشتی حادثے کا شکار ہونا قابل مذمت ہے ہر سال سیکڑوں نوجوان غیر قانونی راستوں سے یورپ جاتے ہوئے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ حکومت اور اس کے تمام متعلقہ ادارے ڈنگی روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ہر سال تقریباً 15 ہزار افراد غیر قانونی راستوں سے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے اس سفر میں کامیابی سے منزل پر پہنچنے کی شرح 50 فی صد تھی لیکن اب یہ شرح کم ہو کر محض 20 فی صد رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جاری تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ٹھوس سفارشات پیش کرنے، سہولت کاری میں ملوث وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں کی نشاندہی اور ان کے خلاف سخت کارروائی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کو آپس کے رابطے مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی،گزشتہ ماہ ایف آئی اے کے سربراہ احمد اسحق سمیت 40 سے زائد اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا مگر المیہ یہ ہے کہ چند دکھاوے کے اقدامات کر کے اس معاملے کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ اس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹ آزما ہونے کی ضرور ت ہے۔روزگار کے لیے یورپ جانے کا سلسلہ 70 کی دہائی میں شروع ہوا تھا جو آج اپنے عروج پر پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔جہاں مقامی افراد میں دوسروں کی کامیاب زندگی کو دیکھتے ہوئے خطرات مول لینے کی خواہش پیدا ہوئی وہیں کئی ایسے نیٹ ورک اور ایجنٹس بھی منظم ہوئے جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر یورپ لے جانے کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔آج یہ نیٹ ورک اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کی جڑیں ہر ادارے میں سراہیت کر گئیں ہیں۔دنیا بھر میں تارکین وطن کی اسمگلنگ کا مالی حجم 5.                
      
				
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تارکین وطن نیٹ ورک اور اس کے لیے
پڑھیں:
سندھ کے کسانوں کا جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ کے سیلاب متاثرہ کسانوں نے کہا ہے کہ وہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں زمینیں، فصلیں اور روزگار کھو بیٹھے، اور اب وہ جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔
کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ کمپنی کو باضابطہ قانونی نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ اگر کسانوں کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں جرمن عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ کسانوں کا مؤقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کاربن اخراج میں بڑا حصہ ڈالنے والی بڑی کمپنیاں ہی اس تباہی کی ذمہ دار ہیں، اس لیے انہیں نقصان کی ادائیگی بھی کرنی چاہیے۔
کسانوں نے کہا کہ وہ خود ماحولیات کی بربادی میں سب سے کم حصہ دار ہیں لیکن نقصان سب سے زیادہ انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ چاول اور گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں، زمینیں برباد ہوئیں، اور تخمینے کے مطابق صرف سندھ کے ان متاثرہ کسانوں کو 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ وہ ان کمپنیاں سے چاہتے ہیں۔ ادھر جرمن کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ملنے والے قانونی نوٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس نے 2022 میں پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثر ملک قرار دیا تھا۔ اس سال کی بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، 1،700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے اور اقتصادی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سندھ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بعض اضلاع تقریباً ایک سال تک پانی میں ڈوبے رہے۔