جہیز لینے کا ذمے دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
آنٹی صباحت آج کل بہت پریشان رہنے لگی ہیں، ان کی بیٹی روحی کی شادی سر پر ہے لیکن سفید پوشی کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کا من پسند جہیز لے کر دینے سے قاصر ہیں۔ روحی کہیں ملازمت بھی نہیں کرتی اور والد کی قلیل تنخواہ میں آٹو میٹک واشنگ مشین، بھاری فرنیچر اور شادی کے بہترین لہنگے کی خریداری بھی ممکن نہیں۔
سوشل میڈیا کی چکاچوند سے متاثر ہوکر بہت سی لڑکیاں اپنے والدین کا جینا حرام کردیتی ہیں اور ان سے اپنا من پسند جہیز لینے کا تقاضا کرتی ہیں، جو والدین کےلیے دینا ممکن نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں جہیز کے خلاف بہت سی باتیں کی جاتی ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اسے نہیں لینا چاہیے۔ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ لڑکے والے جہیز کی بہت لمبی لسٹ تھما دیتے ہیں، موٹر سائیکل، کار، اے سی، الیکڑونکس کا سامان، سب کی سب چیزوں کی مانگ کی جاتی ہے لیکن کوئی اس بات پر نظر نہیں ڈالتا کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہورہی ہوتی ہے تو وہ بھی ہر چیز کا تقاضا اپنے گھر والوں سے کرتی ہے کہ اس کا لہنگا بھی بیش قیمت ہو، سلائی مشین ہو، جوسر، بلینڈر، چوپر، آٹو میٹک واشنگ مشین، گھریلو استعمال کی تمام چیزیں، بھاری فرنیچر اور بہترین ملبوسات بھی اس کے ہمراہ کیے جائیں۔
صورتحال یہیں پر بس نہیں ہوتی کیونکہ جب کوئی عورت ساس بنتی ہے تو وہ بھی جہیز کا تقاضا کرتی ہے۔ پوری لسٹ تیار کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہم بھی ٹرک بھر کر جہیز لے کر آئے تھے، ہمارے والدین نے بھی ہماری تمام تر خواہشات پوری کی تھیں لہٰذا اب یہ لڑکی والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اپنی بیٹی کو استعمال کی ہر ایک چیز دیں، کیونکہ آخر استعمال تو ان کی بیٹی نے ہی کرنی ہے۔ گویا اس طرح وہ تاریخ کو دہرا رہی ہوتی ہیں۔ انھیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ لڑکی والے کس مشکل سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور اپنی نازوں پلی بیٹی کو اس مہنگائی کے دور میں بیاہ رہے ہیں۔ بس انھوں نے ٹرک بھر کر جہیز کی ضد کرنی ہے تو کرنی ہے۔
میرا یہ کہنا ہرگز نہیں ہے کہ لڑکے والے جہیز کا تقاضا نہیں کرتے۔ کرتے ہیں بلکہ بڑے دھڑلے سے اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ صرف مرد حضرات ہی جہیز کا تقاضا کرتے ہیں تو یہ ایک غلط سوچ ہے۔ مرد جب شادی کرتا ہے تو اس کے ذہن میں جہیز کا خیال ایک عورت یعنی اس کی ماں ہی ڈالتی ہے اور پھر اسی خیال پر عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے۔ مرد بھی یہ بھولنے لگتا ہے کہ کوئی باپ جو اپنی کل کائنات اپنی بیٹی اسے سونپ رہا ہے کیا اس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اس کا پورا گھر بھی سامان سے بھردے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ لڑکا اپنی ماں کو یہ کہے کہ گھر میں تمام سامان موجود ہے۔ بیڈ، کرسیاں، فرنیچر، پردے، سب کچھ موجود ہے تو لڑکی والوں کو ان چیزوں کےلیے تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن وہ بھی جہیز لینے کے معاملے میں اپنی ماں کا ہمنوا بن جاتا ہے جو قابل مذمت ہے۔
ایک مرد یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ گھر میں ضروری اشیا کی چند چیزیں میں خود بھی لے سکتا ہوں، ضروری نہیں کہ نیا فرنیچر لیا جائے، ضروری نہیں کہ جدید الیکٹرونکس کا سامان لیا جائے۔ کچھ بنیادی چیزوں سے بھی باآسانی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ جو پیسے ان چیزوں پر ضائع ہی ہونے ہیں ان کو پس انداز کرکے مستقبل میں کوئی بڑی چیز لی جاسکتی ہے، جیسا کہ اپنا گھر۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر پیسہ لگانے کے بجائے ایک بڑے مقصد کےلیے پیسہ بچایا جاسکتا ہے۔
یہاں پر ہمیں معاشرہ دہرے معیار کا حامل بھی نظر آتا ہے۔ ایک لڑکا جو اپنی شادی پر جہیز لیتا ہے جب انھیں اپنی بہن کی شادی پر ٹکر کے سمدھی مل جائیں تو پھر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ یعنی جب لڑکی سے جہیز لینا ہو تو طرح طرح کے جواز بنا دیے جاتے ہیں، طرح طرح کی اسلامی دلیلیں دی جاتی ہیں لیکن جب اپنی بہن بیٹی پر بات آتی ہے تو ’جہیز ایک لعنت ہے‘ کا نعرہ یاد آنے لگتا ہے۔
ہم نے مان لیا کہ جہیز ایک لعنت ہے، معاشرتی ناسور ہے لیکن اسے پھیلانےمیں ہم سبھی کا ہاتھ ہے۔ چاہے وہ شادی کے انتظار میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں ہوں یا بیٹے کی شادی کی آس میں اپنا پورا گھر بھر دینے کی خواہش مند مائیں یا ماؤں کی باتوں میں آکر جہیز لینے کے خواہش مند لڑکے۔ بدلنا ہم سب کو چاہیے۔ یاد رکھیں تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ہم ایک سائیڈ پر الزام لگا کر خود کو بے قصور قرار نہیں دے سکتے۔
ہمیں اجتماعی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے انفرادی قدم اٹھانا اور پھر اس انفرادی قدم کی حوصلہ افزائی کرنا اہم ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جہیز لینے کا تقاضا ہے لیکن جہیز کا کی شادی وہ بھی
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭
سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔