خیبرپختونخوا حکومت کا صوبے بھر کی جیلوں میں قیدیوں کا ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
پشاور:
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کی جیلوں میں قید افراد کے ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے ، ڈوپ ٹیسٹ کے بعد صوبے کے تمام جیل سپرنٹنڈنٹس کو جیلوں میں قید نشے کے عادی افراد کا ڈیٹا کمشنر پشاور ڈویژن آفس کو فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر صدارت خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قید نشے کے عادی افراد کے علاج کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں قیدیوں کے ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس آئی جی جیل خانہ جات عثمان محسود کی درخواست پر منعقد کیا گیا جس میں آئی جی جیل خانہ جات عثمان محسود سمیت صوبائی دارالحکومت پشاور اور خیبر پختونخوا کے تمام سنٹرل جیل سپرٹینڈنٹس نے شرکت کی۔
اجلاس میں محکمہ سماجی بہبود، بحالی مراکز کے منتظمین اور جیل سپرنٹنڈنٹس کو جیلوں میں قید نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے مشترکہ پلان مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی، پلان کی منظوری کے لیے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔
اجلاس میں شرکاء کوکمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر قیادت نشے سے پاک پشاور مہم کے تینوں ادوار کے متعلق آگاہی دی گئی اور نشے کے عادی افراد کے علاج سے متعلق آگاہ کیا گیا۔
اجلاس میں سیکرٹری ٹو کمشنر پشاور ڈویژن ڈاکٹر شبیر احمد آکاش، اور ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر نور محمد کو فوکل پرسن مقرر کرکے بحالی مراکز کے منتظمین اور جیل انتظامیہ کے ساتھ صوبے کے تمام جیلوں میں قید نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے مشترکہ پلان ترتیب دینے کے احکامات جاری کیے،پلان صوبائی حکومت کو پیش کیا جائے گا۔
بعد ازاں تمام سنٹرل جیل سپرٹینڈنٹس کو بحالی مراکز کے دورے کروائے گئے اور زیر علاج نشے کے عادی افراد کے علاج کے متعلق آگاہی دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نشے کے عادی افراد کے علاج کے پشاور ڈویژن اجلاس میں
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔