اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2025ء) وفاقی دارالحکومت برلن سے بدھ 12 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق چانسلر اولاف شولس نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ زمینی سرحدوں کی نگرانی کے عمل میں مزید چھ ماہ کے لیے توسیع اس لیے کی گئی ہے کہ ملک میں غیر قانونی طریقے سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کو مزید کم کیا جا سکے۔

جرمنی: مستقل سرحدی نگرانی، غیر قانونی افراد کی آمد میں کمی

چانسلر اولاف شولس کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک تحریری بیان میں کہا گیا، ''جیسا کہ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہے، قومی سرحدوں پر نگرانی کے عمل سے ہم بےقاعدہ ترک وطن کے نتیجے میں مہاجرین کی جرمنی آمد کے عمل کا مؤثر طور پر رخ موڑ رہے ہیں۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ کا موقف

وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے سرحدی نگرانی کے عمل میں مزید چھ ماہ کی توسیع کے حکومتی فیصلے کے تناظر میں کہا، ''ہم انسانوں کے ان اسمگلروں کو روک رہے ہیں، جو انسانوں کو بڑی بےرحمی سے ایک اقتصادی جنس بنا کر انہیں اسمگل کرتے ہوئے ہماری قومی سرحدوں کے اندر تک پہنچاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس طرح ہم جرائم پیشہ افراد اور انتہا پسندوں کے خلاف بھی بند باندھ رہے ہیں۔‘‘

جرمنی نے مہاجرت کنٹرول کرنے کے لیے سرحدوں پر سختی کردی

جرمنی کے لیے قومی اور یورپی یونین دونوں سطحوں پر ملکی سرحدوں کی نگرانی کا معاملہ اس لیے بہت اہم ہے کہ یورپی یونین کا یہ سب سے زیادہ آبادی والا رکن ملک اس بلاک کے انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے شینگن معاہدے کا رکن بھی ہے اور اصولی طور پر جرمن سرحدوں کے آر پار کوئی بھی انسان کسی بھی طرح کی چیکنگ یا روک ٹوک کے بغیر آ جا سکتا ہے۔

دوبارہ سرحدی نگرانی پہلی بار 2015ء میں شروع ہوئی

قریب ایک دہائی پہلے برلن کی وفاقی حکومت نے شینگن زون کے کلیدی رکن ملک کے طور پر جرمنی میں پہلی مرتبہ سرحدی نگرانی کا عمل عارضی طور پر دوبارہ متعارف کرایا تھا۔

تب یہ نگرانی 2015ء میں جرمنی اور آسٹریا کے مابین زمینی سرحد پر شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد آسٹریا کے راستے قانونی دستاویزات کے بغیر آنے والے تارکین وطن کی آمد کو روکنا تھا۔

جرمنی: تمام زمینی سرحدوں پر عارضی چیکنگ کی مدت میں توسیع

کئی سال بعد 2023ء میں جرمنی نے اپنی قومی سرحدوں کی دوبارہ نگرانی کا یہ عمل بڑھا کر اس میں اپنی پولینڈ، سوئٹزرلینڈ اور چیک جمہوریہ کے ساتھ ملنے والی قومی سرحدوں کو بھی شامل کر دیا تھا۔

اس کے بعد ستمبر 2024ء میں جرمن حکومت نے بارڈر کنٹرول کا یہی عمل ملک کی تمام زمینی سرحدوں پر نافذ کر دیا تھا۔

سوشل ڈیموکریٹ چانسلر اولاف شولس کی حکومت کی طرف سے اس کی وجہ بےقاعدہ مہاجرت، دہشت گردوں اور شدت پسند مسلمانوں کی آمد اور قومی سرحدوں کے آر پار جرائم کی روک تھام کی حکومتی کوشش بتائی گئی تھی۔

اب اسی بارڈر کنٹرول کی مدت میں برلن حکومت نے ایک بار پھر مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرحدوں کی کے عمل

پڑھیں:

جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت شامی پناہ گزینوں کو محدود وقت کے لیے، جرمنی میں تحفظ کی حیثیت سے محرومی کے بغیر ہی، اپنے آبائی ملک واپس جانے کی اجازت دینا چاہتی ہے۔

جرمنی میں قانونی طور پر اگر مہاجرین اپنے آبائی ملک کا دورہ کرتے ہیں، تو ایسے پناہ گزین اپنی پناہ کے تحفظ کی حیثیت سے، محروم ہو سکتے ہیں۔

تاہم اب حکومت نے پناہ گزینی کی حیثیت ختم کیے بغیر انہیں اپنے وطن کا دورہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

گزشتہ دسمبر میں شام کے حکمران بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے برلن نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کیے ہیں اور دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔

(جاری ہے)

جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ

جرمنی نے یہ تجویز کیوں پیش کی؟

اس نئی تجویز کے تحت جرمنی میں پناہ گزینوں کی حیثیت رکھنے والے شامی باشندوں کو چار ہفتوں یا دو مختلف ہفتوں کے لیے اپنے ملک جانے کی اجازت ہو گی۔

وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ اس تجویز کا مقصد شامیوں کو رضاکارانہ طور پر واپسی کا فیصلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔

اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا، "ایسا کرنے کے لیے شام کے لوگوں کو خود یہ دیکھنے کے قابل بنانا ہے، مثال کے طور پر، آیا (ان کے) گھر ابھی تک برقرار ہیں یا نہیں، آیا ان کے رشتہ دار ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

"

کچھ شامی باشندوں کو جرمنی سے جانا پڑ سکتا ہے، وزیر داخلہ

ترجمان نے مزید کہا کہ اگر شام میں صورتحال مزید مستحکم ہوتی ہے تو اس طرح کے دورے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ملک واپس جانے کے قابل بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

البتہ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے دوروں کی صرف "کچھ سخت شرائط کے تحت" ہی اجازت دی جانی چاہیے، اگر یہ شام میں "مستقل واپسی کی تیاری" کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ جو لوگ اس استثنیٰ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے دوروں کو متعلقہ امیگریشن حکام کے پاس رجسٹر کرانا ہو گا۔

ترکی سے وطن لوٹنے والے شامی پناہ گزینوں کی نئی جدوجہد

حکمران پارٹی نے تجویز مسترد کر دی

جرمنی کی کرسچن سوشلسٹ یونین (سی ایسی یو) اور ریاست باویریا کی اس کی ہم خیال جماعت کے وزیر داخلہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔

باویرین ریاست کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن نے مجوزہ دوروں کو "حقائق تلاش کرنے والے دوروں کی آڑ میں چھٹیوں کے دورے" قرار دیا۔ ہرمن نے جرمنی اور شام کے درمیان "بے قابو سفر" کے خلاف دلیل دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے "تنہا قومی کوششوں" کے بجائے یورپ کے اندر ایک مربوط حل کی تلاش کی حمایت کی ہے۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے اب نقد رقم کے بجائے پیمنٹ کارڈ

دسمبر میں اسد کی معزولی کے اگلے ہی دن جرمن حکام نے کئی دیگر یورپی ممالک کے ساتھ شامی شہریوں کے لیے سیاسی پناہ کی کارروائی کو منجمد کر دیا تھا۔

دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے خانہ جنگی کے دوران اپنے وطن چھوڑ کر جرمنی پہنچے تھے، اب بھی وہیں مقیم ہیں۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • پوری قوم سلامتی کمیٹی کے فیصلوں اور اقدامات کے ساتھ کھڑی ہے، آصف علی زرداری
  • پاکستان اپنی خود مختاری اور سرحدوں کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، دفتر خارجہ
  • صدر آصف زرداری سے وفاقی وزیر داخلہ کی ملاقات،قومی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • میہڑ: کینال منصوبے کے خلاف قوم پرست تنظیموں کا دھرنا ختم، سندھ بھر کا زمینی رابطہ بحال
  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • نہری منصوبہ، وفاقی حکومت نے پیپلزپارٹی کی تمام شرائط مان لیں
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • سعودی عرب میں جرائم پر مزید 4 ہزار 300 پاکستانیوں کے پاسپورٹ منسوخ
  • قومی زبان اپنا کر ترقی کی جاسکتی ہے، احسن اقبال
  • وزیراعظم نے FBR کا جائزہ ماڈل تمام وفاقی ملازمین پر لاگو کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی