Nai Baat:
2025-04-25@09:19:49 GMT

ڈاکے پہ ڈاکہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ڈاکے پہ ڈاکہ

قومی اسمبلی میں گزشتہ روز بدترین غربت مہنگائی اور بیروزگاری کے شکار عوام کے مفادات یا حقوق پر ایک اور ڈاکہ ڈالا گیا ھے , ایک اور بل کی منظوری دی گئی ہے جس کے مطابق ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے، ایک رْکن پارلیمینٹ کی تنخواہ دو لاکھ اٹھارہ ہزار روپے سے بڑھا کر اب پانچ لاکھ اْنیس ہزار کر دی گئی ہے ، یہ بل سینٹ سے شاید پہلے ہی منظورہو چکا ہے ، کام کا کوئی کام نہ کرنے کے لئے ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہیں اب بھی کم ہیں ، پاکستان میں فارغ رہنے کی تنخواہ لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہونی چاہئے، ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے کے بعد سرکاری محکموں میں جتنے او ایس ڈی ہیں اْن سب کا اب یہ حق بن گیا ہے وہ بھی سرکار سے یہ مطالبہ کریں ‘‘ہم بھی فارغ بیٹھے ہیں ہماری تنخواہوں میں بھی فوری اضافہ کیا جائے ’’ ارکان پارلیمنٹ نے جس طرح عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کی چھبیسویں آئینی یا آہنی ترمیم کی منظوری دی اْس کے صلے یا بدلے میں اْن کا بھی واقعی یہ حق بنتا تھا اْن کی تنخواہوں میں تھوک کے حساب سے اضافہ کیا جائے جو کہ کر دیا گیا ہے ، وہ اگر اپنی تنخواہوں میں مزید اضافہ چاہتے ہیں سرکار کو مجبور کریں ایسی ترامیم پارلیمینٹ میں لاتی رہا کرے جس سے مْلک کے اصل مالکان کو فائدے پہنچتے رہیں ، ایسی صورت میں مْلک کے اصل مالکان کو ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں لاکھوں کیا کروڑوں کے اضافے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، پی ٹی آئی کے کچھ ارکان اسمبلی نے اس بل کی اسی طرح کمزور مخالفت کی جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کی کمزور مخالفت کر کے گونگلوؤں سے اْنہوں نے مٹی جھاڑی تھی ، اس چھبیسویں آئینی یا آہنی ترمیم کے ثمرات سے موجودہ سیاسی حکمران تو ظاہر ہے فیض یاب ہوہی رہے ہیں ، آنے والی حکومتیں بھی اسی طرح فیض یاب ہوتی رہیں گی چاہے وہ عمران خان کی حکومت ہی کیوں نہ ہو ، ہمارے اکثر سیاستدانوں کو عدلیہ کی آزادی کی باتیں اْس وقت اچھی لگتی ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں ، حکمران بن کر عدلیہ کی صرف وہی آزادی اْنہیں اچھی لگتی ہے جس کے مطابق تمام فیصلے اْن کے حق میں ہوں ، صحافت کی آزادی کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے ، اس آزادی کے مروڑ بھی اْن کے پاپی پیٹوں میں صرف اْس وقت اْٹھتے ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں، جیسے ہی وہ حکمران بنتے ہیں صحافت کی بھی صرف وہی آزادی اْنہیں اچھی لگتی ہے جس میں اْن کے ہر بْرے کام کی اچھی طرح ستائش کی جائے ، کرپشن کی طرح منافقت بھی ہمارے رویوں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے ، ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل بھی پی ٹی آئی کی اسی منافقت کے نتیجے میں آسانی سے منظور کر لیا گیا ، اس منافقت کو قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بْری طرح ایکسپوز کر دیا ، اْنہوں نے اس موقع پر احتجاج کرتے اور شور مچاتے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سے کہا ‘‘جو بڑھی ہوئی تنخواہ نہیں لینا چاہتا وہ لکھ کر دے اْس کی تنخواہ نہیں بڑھائیں گے ’’ ، پی ٹی آئی کا ایک رْکن اسمبلی ایسا نہیں تھا جس نے کاغذ پر چند انکاری لائنیں لکھ کر وہ کاغذ سپیکر یا وزیر قانون کے منہ پر ماراہو ، اس سے ظاہر ہوگیا کئی اور معاملات کی طرح منافقت میں بھی پی ٹی آئی موجودہ حکمرانوں کے کاندھے سے کاندھا جوڑ کے کھڑی ہے ، پاکستان میں آتا ہوا مال چاہے کسی ذریعے سے آرہا ہو کسے اچھا نہیں لگتا ؟ البتہ پلے سے ایک پائی بھی جارہی ہو اْس کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے ، ایک رْکن اسمبلی سے میں نے پوچھا ‘‘آپ کے پاس سو مربع زمین ہو آدھی زمین آپ اللہ کی راہ میں دے دیں گے ؟ وہ بولے ‘‘بالکل دے دیں گے ’’ ، میں نے پوچھا ‘‘آپ کے پاس دو ہوائی جہاز ہوں ایک اللہ کی راہ میں دے دیں گے ’’ ، وہ بولے ‘‘بالکل دے دیں گے ’’ ، میں نے پوچھا ‘‘اگر آپ کی تنخواہ میں سو گنا اضافہ ہو جائے آپ آدھی تنخواہ اللہ کی راہ میں دے دیں گے ؟’’ ،وہ بولے ‘‘بالکل نہیں دیں گے ’’ ، میں حیران ہوا ، میں نے پوچھا ‘‘جب آپ سو مربع زمین اللہ کی راہ میں دے سکتے ہیں ، ایک جہاز اللہ کی راہ میں دے سکتے ہیں ، تو بڑھی ہوئی آدھی تنخواہ اللہ کی راہ میں کیوں نہیں دے سکتے ؟ وہ بولے دو سو مربع زمین اور دوہوائی جہاز تو میرے پاس ہیں نہیں جنہیں میں اللہ کی راہ میں دْوں جبکہ تنخواہ تو مجھے پتہ ہے میری بڑھ جانی ہے وہ میں اللہ کی راہ میں کیوں دْوں گا جی ؟ ،میں اکثر سوچتا ہوں رتی بھر شرم و حیا بھی ہمارے حکمرانوں میں نہیں رہی ، وہ شخص تو بالکل ہی بے شرم ہوگیا ہے جو کہتا تھا اپنے کپڑے بیچ کر غریبوں کو روٹی دے گا ، اب غریبوں سے روٹی چھین کر اپنے مزید کپڑے شاید وہ بنا رہا ہے ، زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے سے لے کر اپنے کپڑے بیچ کر غریبوں کو روٹی دینے تک کا ہر دعویٰ غلط ثابت ہوا ،ایک طرف عوام بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں کام کا علاج ہے نہ دوائیں ہیں ، کاروبار تباہ ہو رہے ہیں ، بیروزگاری کا عالم یہ ہے کسی محکمے میں دو خالی سیٹوں کا اعلان ہوتا ہے اْس پر ہزاروں لاکھوں بیروزگار اپنی درخواستیں جمع کراتے ہیں ، اور یہ خدشہ الگ سے اْن بیچاروں کو لگا رہتا ہے سفارش و رشوت آگے نکل جائے گی ٹیلنٹ پیچھے رہ جائے گا ، سڑکوں پر گداگروں کی تعداد اس قدر بڑھتی جا رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان گداگروں کے لئے اب سب سے محفوظ مقام ہے ، ان حالات میں امیر کبیر ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں اضافہ انتہائی تکلیف دہ ہے ، ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کے پاس اندرون و بیرون مْلک اتنا مال و زر ہے اتنی جائیدادیں ہیں اْنہیں تنخواہیں نہ بھی ملیں اْنہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ، مگر لالچ اورہوس اکثر سیاستدانوں کی اب بنیادی شناخت ہیں ، یہ شناخت ان سے چھن جائے ان کا کچھ نہیں بچنا ، مجھے یقین ہے ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہیں بڑھنے کے بعد ممبران صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہیں بھی اب مزید بڑھیں گی ، پنجاب اس معاملے بھی شاید بازی لے جائے ، جیسے پنجاب اپنے سرکاری ملازمین کے حقوق سلب کرنے میں بازی لے گیا ہے ، سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم اور پینشن میں صرف پنجاب میں کمی ہوئی ہے ، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اگر سرکاری ملازمین کو ‘‘بھیڑ بکریاں’’ نہیں سمجھتیں ، اْن کے دل میں سرکاری ملازمین کے لئے واقعی کوئی رحم یا نرم گوشہ ہے اْنہیں ریٹائرڈ ہونے والے سرکاری ملازمین کے حقوق پر اْس ڈاکہ زنی کا فوراً نوٹس لینا چاہئے جو صرف پنجاب میںہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ارکان پارلیمینٹ کی تنخواہوں میں اللہ کی راہ میں دے سرکاری ملازمین پی ٹی ا ئی دے دیں گے ا نہیں گیا ہے

پڑھیں:

غزہ کے بچوں کے نام

رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔

 وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔

غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔

یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟

میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔

میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔

ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔

کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔

پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘

متعلقہ مضامین

  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • وفاقی حکومت نے او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو کردی
  • وزیراعلیٰ سے فیصل آباد ڈویژن کے ارکان صوبائی اسمبلی عارف محمود گل اور آغا علی حیدر کی ملاقات
  • پی پی کا کینالز منصوبے پر حکومت کے خلاف احتجاج، سینیٹ سے واک آؤٹ
  • وزیراعلیٰ پنجاب کو مہنگائی میں کمی پر مبارکباد کس نے دی؟
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • سینیٹ اجلاس میں پی پی کا کینالز مںصوبے پر حکومت کے خلاف احتجاج، واک آؤٹ کرگئے
  • ’پانی چوری نامنظور‘، سینیٹ میں وزیر قانون کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے نعرے، پی پی کا واک آؤٹ