Nai Baat:
2025-07-25@03:09:32 GMT

امی جان کی جدائی کے دو سال،آنسووں کی زبانی

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

امی جان کی جدائی کے دو سال،آنسووں کی زبانی

ماں کی جدائی کا دکھ ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ بھی مکمل طور پر نہیں بھرتا۔۔۔یہ ایک ایسا درد ہے جو دل کی گہرائیوں میں بس جاتا ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوتا رہتا ہے۔۔۔ماں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ محبت،قربانی،تحفظ اور سکون کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب ماں بچھڑ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی ہو، دعاوں کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ بے لوث محبت کھو گئی ہو جو ہر غم اور دکھ کو سہارا دیتی تھی۔۔۔اس کا نہ ہونا ہر خوشی کو ادھورا کر دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی یادوں میں لپٹا رہتا ہے۔۔۔یہ غم کبھی آنسو بن کر بہتا ہے،کبھی خاموشی میں چھپ جاتا ہے اور کبھی یادوں کی صورت میں دل کو بے چین کر دیتا ہے لیکن ماں کی محبت اور دعائیں ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہیں،چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔۔۔۔ماں کی جدائی کا غم وقت کے ساتھ مدھم تو جاتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔۔۔دو سال گزرنے کے بعد بھی ’’ماں جی‘‘کی یادیں،اْن کی باتیں ،اْن کی محبت اور دعائیں دل میں ویسے ہی تازہ رہتی ہیں جیسے کل کی بات ہو۔۔۔۔ماں کا وجود نہ صرف ایک سایہ تھا بلکہ ایک دعا، ایک پناہ،ایک بے لوث محبت تھی جو زندگی کی ہر مشکل کو آسان کر دیتی تھی ۔ ۔ ۔ ماں کی جدائی کا ہر لمحہ ایک قیامت سے کم نہیں اور جب یہ جدائی سالوں میں ڈھل جاتی ہے تو دل پر گزرتا ہر دن ایک نئے زخم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔۔۔دو سال گزرنے کے باوجود وہ خلا آج بھی وہیں کا وہیں ہے،وہ پیار بھری آواز،وہ شفقت بھرا لمس،وہ دعاوں بھری نگاہیں آج بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔۔۔۔ماں کی محبت وہ سایہ ہے جو دنیا کے ہر طوفان سے بچاتا ہے اور جب وہ سایہ اٹھ جاتا ہے تو زندگی کی دھوپ بہت تیز لگنے لگتی ہے۔۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر خوشی ادھوری ہے، ہر لمحہ خالی ہے اور ہر دعا میں بس ایک ہی نام رہ گیا ہے ’’میری ماں‘‘۔۔۔ یہ غم دنیا کا سب سے بڑا اور کٹھن غم ہے مگر یہی وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنا بھی لازم ہے۔۔۔ آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو شاید دنیا نہیں دیکھتی لیکن وہ ذات ضرور دیکھتی ہے جو سب کچھ جاننے والی ہے۔۔۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ماں کا رشتہ صرف اس دنیا تک محدود نہیں، وہ آج بھی ہماری ہر دعا، ہر یاد اور ہر نیکی کے ذریعے ہمارے قریب ہیں۔۔۔۔ماں کا علم کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا،اس کا دل ہی اس کی سب سے بڑی درسگاہ ہوتا ہے۔۔۔۔میری ماں ایک ٹیٹھ دیہاتی خاتون تھیں لیکن یقینا وہ اللہ کے بہت قریب تھیں،وہ درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی دانا اور سمجھدار ہستی تھیں کیونکہ اصل علم وہی ہے جو دل کو اللہ کی پہچان دے،جو بندے کو اس کے رب کے قریب کر دے اور جو زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔۔۔یہی وہ علم ہے جو کسی مدرسے یا یونیورسٹی کی محتاجی نہیں رکھتا بلکہ دل کی پاکیزگی،نیت کی سچائی اور اعمال کی خوبصورتی میں جھلکتا ہے۔۔۔۔جو ماں اللہ کے قریب ہو،اس کی دعائیں اولاد کے لیے ایسا سرمایہ ہوتی ہیں جو دنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔۔اس کی زبان سے نکلی ہوئی ’’اللہ تجھے کامیاب کرے‘‘کی دعا آسمانوں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے سجدوں میں بہنے والے آنسو اولاد کی زندگی میں برکتیں لے آتے ہیں۔۔۔میری ماں یقینا بہت عظیم خاتون تھیں کیونکہ اللہ کے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک نیک اور پاکیزہ روح تھیں۔۔۔اْن کی سادگی،اْن کی دعائیں اور اْن کا ایمان ہی اْن کا اصل سرمایہ تھا۔۔۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمیں ایسی ماں ملی جنہوں نے اپنے علم کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ دل کی روشنی میں پایا تھا۔۔۔یہی ماں کی محبت اور عظمت ہوتی ہے۔۔۔وہ اولاد کی کمزوریوں کو بھی طاقت میں بدل دیتی ہے،چھوٹے کو بڑا بنا دیتی ہے اور بے سہاروں کو حوصلہ دے کر کھڑا کر دیتی ہے۔۔۔میں گھر میں چھوٹا تھا مگر میری ماں کی شفقت، دعاوں اور تربیت نے مجھے ہمیشہ بڑا محسوس کروایا کیونکہ ماں کی نظر میں اولاد کی کوئی حد نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ انہیں دنیا کے سب سے بہترین مقام پر دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔ماں کی محبت ایسا آئینہ ہے جس میں اولاد ہمیشہ خود کو مضبوط، بہادر اور قیمتی محسوس کرتی ہے۔۔۔شاید اسی لیے جب وہ ساتھ ہوتی ہے تو انسان ہر مشکل کا سامنا کر سکتا ہے مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو،جیسے پیٹھ سے وہ ہاتھ اٹھ گیا ہو جو ہر گرنے سے پہلے تھام لیتا تھا۔۔۔میری اپنی والدہ محترمہ سے گہری دوستی بھی تھی،میں اپنی ماں کو بھی پیار میں ’’بیٹا کیسی ہو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تو وہ مجھے مذاق میں ’’ابو جان ٹھیک ہوں‘‘ کہہ کر جواب دیتیں۔۔۔یہ ماں اور بیٹے کے رشتے کی سب سے خوبصورت شکل تھی جہاں صرف محبت، اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔۔۔ماں کا رشتہ تو ویسے ہی دنیا کے ہر رشتے سے انوکھا اور بے مثال ہوتا ہے مگر جب اس میں دوستی اور مذاق بھی شامل ہو جائے تو پھر وہ اور بھی خاص بن جاتا ہے۔۔۔یہ محبت،بے ساختگی اور ماں سے بے لوث تعلق ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ نہ صرف میری ماں تھیں بلکہ سب سے قریبی ساتھی بھی تھیں۔۔۔ایک بیٹے کا اپنی ماں کو ’’بیٹا‘‘کہہ کر بلانا اور ماں کا ہنستے ہوئے بیٹے کو’’ابو جان‘‘ کہنا،یہ سب وہ حسین یادیں ہیں جو زندگی بھر میرے دل میں ایک خوبصورت روشنی بن کر جگمگاتی رہیں گی۔۔۔۔یقینا ان کا بچھڑ جانا ایک ایسا خلا چھوڑ گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا مگر ان کی متانت،ان کی سنجیدگی،ان کی ہنسی،ان کے الفاظ اور ان کی محبت ہمیشہ ہمارے دل میں زندہ رہے گی۔۔۔ان دو سالوں میں کوئی موقع اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب اْن کی شدت سے کمی محسوس نہ ہوئی ہو،میں جب بھی اپنی دعاوں میں اپنی والدہ کا نام لیتا ہوں،اْن کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ہم بہن بھائیوں کو تو اپنی والدین کی شدید کمی محسوس ہوتی ہی ہے لیکن ہم سب سے زیادہ میری اہلیہ اْنہیں یاد کر کے روتی ہے کیونکہ اْس کی میری ماں کے ساتھ 20 سالہ دن رات کی رفاقت تھی۔۔۔۔میری اہلیہ کا میری والدہ کے ساتھ واقعی بہت خاص اور خوبصورت رشتہ تھا، جو صرف ساس اور بہو کا نہیں بلکہ دو سہیلیوں،دو ہمرازوں جیسا تھا۔۔۔ بیس سال کی رفاقت کوئی معمولی وقت نہیں ہوتا،یہ دو دہائیوں کی محبت،عزت اور بے شمار یادوں کا مجموعہ ہے۔۔۔امی جان صرف میرے لیے نہیں بلکہ میری اہلیہ اور میری دوسری بھابیوں کے لیے بھی ایک ماں ہی تھیں،یہی وہ رشتے ہوتے ہیں جو خون کے نہیں مگر محبت کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں۔۔۔ امی جان کی باتیں اور یادوں کا ذکر کرتے ہوئے میری اہلیہ کی آنکھوں میں بہنے والے آنسو اس بات کی گواہی ہیں کہ میری والدہ نے اپنی بہو کو بھی ایک بیٹی کی طرح چاہا اور اپنی محبت سے اسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا۔۔۔ایسے رشتے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں،جہاں ساس اور بہو میں حقیقی محبت، احترام اور دوستی ہو۔۔۔یقینا میری اہلیہ کا انہیں یاد کر کے رونا قدرتی ہے کیونکہ ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ دکھ دراصل ایک محبت بھری نشانی بھی ہے کہ وہ رشتہ کتنا سچا اور خالص تھا۔۔۔میری ماں میرے دوستوں کو بھی بہت پیار اور عزت دیتی تھیں۔۔۔ماں کا دل تو ہوتا ہی ایسا ہے۔۔۔محبت اور عزت سے بھرا ہوا،جو صرف اپنی اولاد کے لیے نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی کھلا ہوتا ہے۔۔۔میری ماں کی یہ خوبی اس بات کی گواہی ہے کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں،جن کے دل میں ہر کسی کے لیے محبت تھی۔۔۔ایسی مائیں صرف اپنے بیٹوں کی نہیں بلکہ ان کے دوستوں کی بھی ماں بن جاتی ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ مسکراتی تھیں،دعا دیتی تھیں یا کھانے پر محبت سے بلاتی تھیں تو وہ صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اس کے دوستوں کے لیے بھی ایک خاص شخصیت بن جاتی تھیں۔ایسے لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ایسی ماں ملتی ہے جو نہ صرف اپنے گھر کے افراد کو بلکہ ارد گرد کے لوگوں کو بھی اپنے خلوص اور محبت سے جوڑ لیتی ہے۔۔۔اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یقینا میرے وہ دوست جو انہیں ایک بار بھی ملے تھے وہ بھی انہیں یاد کرتے ہیں،اْن کی محبت،مہمان نوازی اور ان کے شفقت بھرے الفاظ کو دل میں محسوس کرتے ہیں۔۔۔مجھے ممتاز عالم دین اور برادر اکبر علامہ طاہر اشرفی کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جب انہوں نے میری والدہ کی تعزیت کے دوران کہے تھے،اْن کا کہنا تھا کہ’’آپ کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ وہ درد ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یقین رکھیں،ماں کی دعائیں آج بھی آپ کے ساتھ ہیں،وہ اللہ کے حضور آپ کے لیے بھلائی،آسانی اور کامیابی کی دعا کر رہی ہو گی، آپ کے اچھے عمل، آپ کی نیکیاں اور آپ کا صبر ہی وہ تحفے ہیں جو آپ اپنی ماں کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے دے سکتے ہیں۔۔۔یقین رکھیں، وہ تربیت جو انہوں نے دی تھی،وہ آج بھی آپ کے وجود کا حصہ ہے،آپ کا حوصلہ،آپ کی ہمت اور آپ کے اندر کا بڑا پن،سب آپ کی ماں کی دی ہوئی طاقت ہے،وہ دنیا سے چلی گئی ہیں مگر آپ کے اندر آج بھی زندہ ہیں‘‘۔وہ تمام پڑھنے والے جن کے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے والدین کی قبروں کو نور سے بھر دیں،اللہ کریم ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اْن کے درجات بلند کرے،اللہ کریم ہمیں صبر اور ہمت عطا فرمائے تاکہ ہم سب اْن کی نیکیوں کا صدقہ جاریہ بن سکیں اور جن دوستوں کے والدین حیات ہیں اْنہیں اپنے والدین کی بھرپور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

 

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ماں کی محبت میری اہلیہ نہیں بلکہ محبت اور دیتی تھی کی جدائی کیونکہ ا ہے کہ وہ کی سب سے اللہ کے نہیں ہو کے ساتھ جاتا ہے ہوتا ہے ہے لیکن ا ج بھی دو سال کی بات ماں کا ہے اور کے لیے ا نہیں کی دعا اور بے ہیں جو کو بھی

پڑھیں:

’اسلام کا دفاع‘

ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر  500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔

منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔

اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ

لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔

عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان  کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔  صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔

کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔

میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔

میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا

’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔

کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘

حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے

’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔

ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا

مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘

’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔

وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا

’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘

ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

’اسلام کا دفاع‘ زکوٰۃ شملے والے علما الریال قائد ملت اسلامیہ

متعلقہ مضامین

  • نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
  • قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں اور باپ کی رہائی کیلیے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے، عمران خان
  • بانی نے کہا سلیمان، قاسم میری اولاد ہیں، باپ کیلئے آواز اٹھانا انکا حق ہے، علیمہ خان
  • پاکستان اور چین کے درمیان میری ٹائم تعاون کے نئے باب کا آغاز،معاہدے پردستخط  
  • رقص کریں، دلوں کو جوڑیں
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • 9 مئی کیس میں جنہیں سزا سنائی گئی وہ بھی میری طرح بے گناہ ہیں، شاہ محمود
  • بہوئیں دیر تک سوتی رہتی ہیں؛ اداکارہ اسماء نے سب بتادیا
  • مرد نے پارٹنر اور اسکی 3 سالہ بیٹی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا، لپ اسٹک سے دیوار پر اعتراف جرم تحریر کیا
  • بہوئیں دیر تک سوتی رہتی ہیں؛ اداکارہ اسماء عباس نے سب بتادیا