امی جان کی جدائی کے دو سال،آنسووں کی زبانی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
ماں کی جدائی کا دکھ ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ بھی مکمل طور پر نہیں بھرتا۔۔۔یہ ایک ایسا درد ہے جو دل کی گہرائیوں میں بس جاتا ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوتا رہتا ہے۔۔۔ماں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ محبت،قربانی،تحفظ اور سکون کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب ماں بچھڑ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی ہو، دعاوں کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ بے لوث محبت کھو گئی ہو جو ہر غم اور دکھ کو سہارا دیتی تھی۔۔۔اس کا نہ ہونا ہر خوشی کو ادھورا کر دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی یادوں میں لپٹا رہتا ہے۔۔۔یہ غم کبھی آنسو بن کر بہتا ہے،کبھی خاموشی میں چھپ جاتا ہے اور کبھی یادوں کی صورت میں دل کو بے چین کر دیتا ہے لیکن ماں کی محبت اور دعائیں ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہیں،چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔۔۔۔ماں کی جدائی کا غم وقت کے ساتھ مدھم تو جاتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔۔۔دو سال گزرنے کے بعد بھی ’’ماں جی‘‘کی یادیں،اْن کی باتیں ،اْن کی محبت اور دعائیں دل میں ویسے ہی تازہ رہتی ہیں جیسے کل کی بات ہو۔۔۔۔ماں کا وجود نہ صرف ایک سایہ تھا بلکہ ایک دعا، ایک پناہ،ایک بے لوث محبت تھی جو زندگی کی ہر مشکل کو آسان کر دیتی تھی ۔ ۔ ۔ ماں کی جدائی کا ہر لمحہ ایک قیامت سے کم نہیں اور جب یہ جدائی سالوں میں ڈھل جاتی ہے تو دل پر گزرتا ہر دن ایک نئے زخم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔۔۔دو سال گزرنے کے باوجود وہ خلا آج بھی وہیں کا وہیں ہے،وہ پیار بھری آواز،وہ شفقت بھرا لمس،وہ دعاوں بھری نگاہیں آج بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔۔۔۔ماں کی محبت وہ سایہ ہے جو دنیا کے ہر طوفان سے بچاتا ہے اور جب وہ سایہ اٹھ جاتا ہے تو زندگی کی دھوپ بہت تیز لگنے لگتی ہے۔۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر خوشی ادھوری ہے، ہر لمحہ خالی ہے اور ہر دعا میں بس ایک ہی نام رہ گیا ہے ’’میری ماں‘‘۔۔۔ یہ غم دنیا کا سب سے بڑا اور کٹھن غم ہے مگر یہی وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنا بھی لازم ہے۔۔۔ آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو شاید دنیا نہیں دیکھتی لیکن وہ ذات ضرور دیکھتی ہے جو سب کچھ جاننے والی ہے۔۔۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ماں کا رشتہ صرف اس دنیا تک محدود نہیں، وہ آج بھی ہماری ہر دعا، ہر یاد اور ہر نیکی کے ذریعے ہمارے قریب ہیں۔۔۔۔ماں کا علم کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا،اس کا دل ہی اس کی سب سے بڑی درسگاہ ہوتا ہے۔۔۔۔میری ماں ایک ٹیٹھ دیہاتی خاتون تھیں لیکن یقینا وہ اللہ کے بہت قریب تھیں،وہ درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی دانا اور سمجھدار ہستی تھیں کیونکہ اصل علم وہی ہے جو دل کو اللہ کی پہچان دے،جو بندے کو اس کے رب کے قریب کر دے اور جو زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔۔۔یہی وہ علم ہے جو کسی مدرسے یا یونیورسٹی کی محتاجی نہیں رکھتا بلکہ دل کی پاکیزگی،نیت کی سچائی اور اعمال کی خوبصورتی میں جھلکتا ہے۔۔۔۔جو ماں اللہ کے قریب ہو،اس کی دعائیں اولاد کے لیے ایسا سرمایہ ہوتی ہیں جو دنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔۔اس کی زبان سے نکلی ہوئی ’’اللہ تجھے کامیاب کرے‘‘کی دعا آسمانوں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے سجدوں میں بہنے والے آنسو اولاد کی زندگی میں برکتیں لے آتے ہیں۔۔۔میری ماں یقینا بہت عظیم خاتون تھیں کیونکہ اللہ کے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک نیک اور پاکیزہ روح تھیں۔۔۔اْن کی سادگی،اْن کی دعائیں اور اْن کا ایمان ہی اْن کا اصل سرمایہ تھا۔۔۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمیں ایسی ماں ملی جنہوں نے اپنے علم کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ دل کی روشنی میں پایا تھا۔۔۔یہی ماں کی محبت اور عظمت ہوتی ہے۔۔۔وہ اولاد کی کمزوریوں کو بھی طاقت میں بدل دیتی ہے،چھوٹے کو بڑا بنا دیتی ہے اور بے سہاروں کو حوصلہ دے کر کھڑا کر دیتی ہے۔۔۔میں گھر میں چھوٹا تھا مگر میری ماں کی شفقت، دعاوں اور تربیت نے مجھے ہمیشہ بڑا محسوس کروایا کیونکہ ماں کی نظر میں اولاد کی کوئی حد نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ انہیں دنیا کے سب سے بہترین مقام پر دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔ماں کی محبت ایسا آئینہ ہے جس میں اولاد ہمیشہ خود کو مضبوط، بہادر اور قیمتی محسوس کرتی ہے۔۔۔شاید اسی لیے جب وہ ساتھ ہوتی ہے تو انسان ہر مشکل کا سامنا کر سکتا ہے مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو،جیسے پیٹھ سے وہ ہاتھ اٹھ گیا ہو جو ہر گرنے سے پہلے تھام لیتا تھا۔۔۔میری اپنی والدہ محترمہ سے گہری دوستی بھی تھی،میں اپنی ماں کو بھی پیار میں ’’بیٹا کیسی ہو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تو وہ مجھے مذاق میں ’’ابو جان ٹھیک ہوں‘‘ کہہ کر جواب دیتیں۔۔۔یہ ماں اور بیٹے کے رشتے کی سب سے خوبصورت شکل تھی جہاں صرف محبت، اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔۔۔ماں کا رشتہ تو ویسے ہی دنیا کے ہر رشتے سے انوکھا اور بے مثال ہوتا ہے مگر جب اس میں دوستی اور مذاق بھی شامل ہو جائے تو پھر وہ اور بھی خاص بن جاتا ہے۔۔۔یہ محبت،بے ساختگی اور ماں سے بے لوث تعلق ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ نہ صرف میری ماں تھیں بلکہ سب سے قریبی ساتھی بھی تھیں۔۔۔ایک بیٹے کا اپنی ماں کو ’’بیٹا‘‘کہہ کر بلانا اور ماں کا ہنستے ہوئے بیٹے کو’’ابو جان‘‘ کہنا،یہ سب وہ حسین یادیں ہیں جو زندگی بھر میرے دل میں ایک خوبصورت روشنی بن کر جگمگاتی رہیں گی۔۔۔۔یقینا ان کا بچھڑ جانا ایک ایسا خلا چھوڑ گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا مگر ان کی متانت،ان کی سنجیدگی،ان کی ہنسی،ان کے الفاظ اور ان کی محبت ہمیشہ ہمارے دل میں زندہ رہے گی۔۔۔ان دو سالوں میں کوئی موقع اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب اْن کی شدت سے کمی محسوس نہ ہوئی ہو،میں جب بھی اپنی دعاوں میں اپنی والدہ کا نام لیتا ہوں،اْن کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ہم بہن بھائیوں کو تو اپنی والدین کی شدید کمی محسوس ہوتی ہی ہے لیکن ہم سب سے زیادہ میری اہلیہ اْنہیں یاد کر کے روتی ہے کیونکہ اْس کی میری ماں کے ساتھ 20 سالہ دن رات کی رفاقت تھی۔۔۔۔میری اہلیہ کا میری والدہ کے ساتھ واقعی بہت خاص اور خوبصورت رشتہ تھا، جو صرف ساس اور بہو کا نہیں بلکہ دو سہیلیوں،دو ہمرازوں جیسا تھا۔۔۔ بیس سال کی رفاقت کوئی معمولی وقت نہیں ہوتا،یہ دو دہائیوں کی محبت،عزت اور بے شمار یادوں کا مجموعہ ہے۔۔۔امی جان صرف میرے لیے نہیں بلکہ میری اہلیہ اور میری دوسری بھابیوں کے لیے بھی ایک ماں ہی تھیں،یہی وہ رشتے ہوتے ہیں جو خون کے نہیں مگر محبت کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں۔۔۔ امی جان کی باتیں اور یادوں کا ذکر کرتے ہوئے میری اہلیہ کی آنکھوں میں بہنے والے آنسو اس بات کی گواہی ہیں کہ میری والدہ نے اپنی بہو کو بھی ایک بیٹی کی طرح چاہا اور اپنی محبت سے اسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا۔۔۔ایسے رشتے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں،جہاں ساس اور بہو میں حقیقی محبت، احترام اور دوستی ہو۔۔۔یقینا میری اہلیہ کا انہیں یاد کر کے رونا قدرتی ہے کیونکہ ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ دکھ دراصل ایک محبت بھری نشانی بھی ہے کہ وہ رشتہ کتنا سچا اور خالص تھا۔۔۔میری ماں میرے دوستوں کو بھی بہت پیار اور عزت دیتی تھیں۔۔۔ماں کا دل تو ہوتا ہی ایسا ہے۔۔۔محبت اور عزت سے بھرا ہوا،جو صرف اپنی اولاد کے لیے نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی کھلا ہوتا ہے۔۔۔میری ماں کی یہ خوبی اس بات کی گواہی ہے کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں،جن کے دل میں ہر کسی کے لیے محبت تھی۔۔۔ایسی مائیں صرف اپنے بیٹوں کی نہیں بلکہ ان کے دوستوں کی بھی ماں بن جاتی ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ مسکراتی تھیں،دعا دیتی تھیں یا کھانے پر محبت سے بلاتی تھیں تو وہ صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اس کے دوستوں کے لیے بھی ایک خاص شخصیت بن جاتی تھیں۔ایسے لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ایسی ماں ملتی ہے جو نہ صرف اپنے گھر کے افراد کو بلکہ ارد گرد کے لوگوں کو بھی اپنے خلوص اور محبت سے جوڑ لیتی ہے۔۔۔اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یقینا میرے وہ دوست جو انہیں ایک بار بھی ملے تھے وہ بھی انہیں یاد کرتے ہیں،اْن کی محبت،مہمان نوازی اور ان کے شفقت بھرے الفاظ کو دل میں محسوس کرتے ہیں۔۔۔مجھے ممتاز عالم دین اور برادر اکبر علامہ طاہر اشرفی کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جب انہوں نے میری والدہ کی تعزیت کے دوران کہے تھے،اْن کا کہنا تھا کہ’’آپ کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ وہ درد ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یقین رکھیں،ماں کی دعائیں آج بھی آپ کے ساتھ ہیں،وہ اللہ کے حضور آپ کے لیے بھلائی،آسانی اور کامیابی کی دعا کر رہی ہو گی، آپ کے اچھے عمل، آپ کی نیکیاں اور آپ کا صبر ہی وہ تحفے ہیں جو آپ اپنی ماں کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے دے سکتے ہیں۔۔۔یقین رکھیں، وہ تربیت جو انہوں نے دی تھی،وہ آج بھی آپ کے وجود کا حصہ ہے،آپ کا حوصلہ،آپ کی ہمت اور آپ کے اندر کا بڑا پن،سب آپ کی ماں کی دی ہوئی طاقت ہے،وہ دنیا سے چلی گئی ہیں مگر آپ کے اندر آج بھی زندہ ہیں‘‘۔وہ تمام پڑھنے والے جن کے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے والدین کی قبروں کو نور سے بھر دیں،اللہ کریم ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اْن کے درجات بلند کرے،اللہ کریم ہمیں صبر اور ہمت عطا فرمائے تاکہ ہم سب اْن کی نیکیوں کا صدقہ جاریہ بن سکیں اور جن دوستوں کے والدین حیات ہیں اْنہیں اپنے والدین کی بھرپور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
.
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ماں کی محبت میری اہلیہ نہیں بلکہ محبت اور دیتی تھی کی جدائی کیونکہ ا ہے کہ وہ کی سب سے اللہ کے نہیں ہو کے ساتھ جاتا ہے ہوتا ہے ہے لیکن ا ج بھی دو سال کی بات ماں کا ہے اور کے لیے ا نہیں کی دعا اور بے ہیں جو کو بھی
پڑھیں:
جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔
یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔
حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔
علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔
معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔
یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔
کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔
شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔
اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔
یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ
شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا