سعودی ٹیچر نے 10 لاکھ ڈالر کا ایوارڈ جیت لیا؛ یتیموں کیلیے اسکول بنانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
دبئی میں ولی عہد شیخ حمدان بن محمد بن راشد آل مکتوم نے ورلڈ گورنمنٹس سمٹ میں منصور بن عبداللہ المونسور کو بہترین استاد کے اعزاز سے نوازا۔
عرب میڈیا کے مطابق عالمی اساتذہ ایوارڈ، جیمز ایجوکیشن کی جانب سے سعودی ٹیچر کو تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔
منصور بن عبداللہ المونسور سعودی عرب کے معروف تعلیمی ادارے پرنس سعود بن جلاوی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔
سعودی استاد نے رضاکارانہ طور پر دن و رات کی انتھک محنت سے ہزاروں معذور اور یتیم بچوں سمیت قیدیوں میں علم کی شمع جلائے رکھی۔
انہوں نے اپنے طلباء کے لیے مختلف تربیتی پروگرامز بھی ترتیب دیے، جن کے ذریعے طلباء نے عالمی سطح پر ایوارڈز جیتے۔
سعودی استاد نے مختلف موضوعات پر 21 کتب لکھیں اور اساتذہ کی تربیت کے لیے سیکڑوں کورسز بھی کرائے۔
منصور بن عبداللہ المونسور نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے علاوہ ہزاروں گھنٹے کمیونٹی کی خدمت میں گزارے۔
دبئی کے ولی عہد کی جانب سے ایوارڈ کی ایک ملین ڈالر رقم کو سعودی استاد منصور بن عبداللہ نے غریب اور یتیم بچوں کے لیے ایک اسکول بنانے کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا۔
سعودی استاد نے کہا کہ ہر بچے کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وہ ہر وقت سرگرم رہیں گے۔
واضح رہے کہ اس ایوارڈ کے لیے دنیا بھر سے 5 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: منصور بن عبداللہ سعودی استاد کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
ایک ایسے وقت میں کہ جب کہ غزہ کی پٹی آگ و محاصرے میں بری طرح سے گھر چکی ہے، اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کے آغاز سے ہی آزاد صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت تک نہیں دی! اسلام ٹائمز۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی - انروا (UNRWA) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی (Philippe Lazzarini) نے اپنے انتباہی بیان میں اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیلی رژیم حالیہ جنگ کے آغاز سے ہی غزہ کی پٹی کا غیر انسانی محاصرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی صحافیوں کو رسائی دینے سے انکاری ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں "انسانی صورتحال کی نگرانی" کرنے والے "اعلی حکام" میں سے ایک فلپ لازارینی، نے اس اقدام کو "جنگوں کی جدید تاریخ میں انوکھا" قرار دیا اور اسے نہ صرف میڈیا کی سنسرشپ بلکہ "سچ کو دنیا کے سامنے لانے پر پابندی" بھی قرار دیا۔
اپنے بیان میں فلپ لازارینی کا کہنا تھا کہ غزہ میں صحافیوں کی عدم موجودگی نے عملی طور پر "حقیقت کو مسخ" کرنے، "غلط معلومات" کے رواج اور بالآخر متاثرین کے چہروں سے "انسانیت کو مٹا ڈالنے" کی راہ ہموار کی ہے۔ کمشنر جنرل انروا نے عالمی رائے عامہ پر زور دیا کہ وہ اس پابندی کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدام اٹھائیں۔ اپنے بیان کے آخر میں فلپ لازارینی نے تاکید کی کہ دنیا بھر کو ضرور جاننا چاہیئے کہ غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آزاد صحافیوں کو وہاں موجود رہنے اور رپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے!