جان کاشمیری کا ’’سرمایہ نجات‘‘
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
عقیدت کے حصار میں لفظ جذبوں کے سامنے بے بس سے دکھائی دیتے ہیں۔ جب مدحتِ سرکارؐ دو عالم کی بات ہوتی ہے تو آپؐ کے شایانِ شان الفاظ کا تلاش کرنا اور انھیں ایک تسبیح کی مانند پرونا بہت مشکل کام ہے، کیونکہ نعت کا معاملہ عقیدت و محبت اپنی جگہ برحق لیکن اصل معاملہ احتیاط بلکہ انتہائی احتیاط کا ہے۔
یہاں قلم میں سیاہی نہیں دل کی دھڑکنوں اور روح کی پاکیزگی کو انڈیلنا پڑتا ہے کیونکہ نعتِ حضورؐ کی شاعرانہ توصیف کا نام نہیں ہے بلکہ نبوت کے کمالات کی ایسی تصویر کشی کا نام ہے جس سے ایمان میں تازگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہو سکے اور یہ بالیدگی اسی وقت مقرر کر رکھی ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ ان ہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جان کاشمیری شعر و ادب کے صفِ اول کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں، وہ ان تمام تر باتوں سے بخوبی آگہی رکھتے ہیں۔
اپنے کرم سے مالکا، اتنی رسائی دے
آنکھیں کروں جو بند مدینہ دکھائی دے
جان کاشمیری غزل کا شاعر ہے، اس حوالے سے یقینا اہلِ دانش انھیں تسلیم بھی کرتے ہیں، اگر ان کے اُوپر تحریر کردہ شعر کو پڑھ کر یہ کہا جائے کہ یہ آدمی کئی صدیوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی جس خواب کی تعبیر تک رسائی چاہتا ہے وہ خواب ایک فرد کا نہیں بلکہ ہر عاشقِ مصطفیؐ کا ہے کہ وہ روضہِ رسول ؐ اور خدا کے گھر کعبہ بیت اللہ کی زیارت کرے، مگر یہ سعادت ہر کسی کو تھوڑی نصیب ہوتی ہے۔ بہرحال جان اپنی بند آنکھوں سے جہاں مدینہ دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں، وہیں وہ اپنے ان اشعار میں یہ بھی لکھتے ہیں۔
آب ایسی بھی کوئی دل کے نگینے میں ہو
حمد مکے میں کہوں نعت مدینے میں ہو
صرف الفاظ سے توصیف نہیں ہو سکتی
کچھ نہ کچھ عشقِ محمدؐ بھی تو سینے میں ہو
جان صاحب کے نعتیہ اشعار میں روانی اور برجستگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ جس میں الفاظ کا در و بست خاص اہتمام کیا گیا ہے جس کا ثبوت ان کا حال ہی میں منصئہ شہود پر آنے والا نعتیہ مجموعہ ’’سرمایہ نجات‘‘ ہے۔ جس میں 34 حمد اور 38 عدد نعتوں کے علاوہ ایک قطعہ اور چند نعتیہ فردیات شامل ہیں۔ اس نعتیہ مجموعے میں شامل کلام کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے تاریخ ادب میں پہلی بار بعنوان ترتیب دیا گیا ہے۔ ان کی تمام حمد و نعت میں محاسنِ کلام کا خاص خیال رکھا گیا ہے، اس لیے معانی سے قطع نظر، فنی پہلو سے بھی ان کی حمدیں اور نعتیں، نعتیہ ادب کا ایک بیش بہا خزینہ ہیں ۔
دل میرا بن گیا ہے انوار کا خزینہ
اک آنکھ میں ہے مکہ، اک آنکھ میں مدینہ
جب تک نہ خاکِ طیبہ آنکھوں سے چوم لوں مَیں
بے کار میرا مرنا، بے کار میرا جینا
’’سرمایہ نجات‘‘ کے شاعر نے بعض حمد و نعت کو نہایت سحر آفریں تجربے بھی کیے ہیں، انھیں ہسیئتی تجربے تو نہیں کہا جاسکتا مگر نعت کے مخصوص غزلیہ پیٹرن میں رہ کر بعض جدتیں کی ہیں جن سے حمد ونعت کے صوتی حُسن اور موسیقیت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ جان کاشمیری نے اس پہلو سے نئی ردیفوں کے ساتھ ساتھ ایسے ہم قافیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں جس میں عام قاری کے بس کی بات نہیں،کیونکہ اُردو نعت میں یہ تجربہ اس سے قبل میری نظر سے نہیں گزرا۔
مثلا ایک حمد میں ردیف ’’ تیری کیا بات ہے‘‘ جسے فشاں، جہاں جیسے عام فہم قافیوں کے ساتھ ڈبل ردیف میں استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور حمد میں ردیف ’’خیر الٰہی‘‘ کو بھی دو بارخُو، عدو اور رفو جیسے مشکل ترین قافیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جان صاحب کی ایسی ردیفوں اور ہم قافیوں پر مشتمل پر بہت سی حمدیں ’’سرمایہ نجات‘‘ میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جس میں انھوں نے اپنی فنی اور فکری استعادات کے مطابق قلم آزمائی کی ہے۔ اسی طرح کی بعض اور حمدوں میں مماثل صوتیاتی نظام نے شعریت حسن جمال اور موسیقت میں اضافہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ چند متفرق حمدوں سے کچھ مثالیں دیکھیے ۔
چمن چمن ہے کھلبلی کرم کرم مرے خدا
کلی کلی ہے مر چلی کرم کرم مرے خدا
ابھی یہاں، ابھی وہاں، نظر میں اب مگر کہاں
وہ صورتیں بھلی بھلی کرم کرم مرے خدا
بشر بشر کی جانؔ تو خدائے کُل جہان تو
اُداس ہے گلی گلی کرم کرم مرے خدا
ایسی ہی کئی حمدیں مختلف ردیفوں اور ہم قافیوں میں ’’سرمایہ نجات‘‘ میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان حمدوں کے علاوہ اس شعری مجموعہ میں 38 عدد نعتوں کی ردیفوں اور ہم قافیوں پر بات کریں تو اُن ردیفوں اور قافیوں میں بھی جان کاشمیری اپنی فنی اور فکری لحاظ سے ہماری سوچ سے بھی کئی حد تک آگے دکھائی دیتے ہیں۔
پریشاں دلوں کے سہارے محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ ہمارے محمدؐ
بھنور ہے زمانہ کنارے محمدؐ، محمدؐ، محمد ؐہمارے محمدؐ
ادھر دیکھتا ہوں، اُدھر دیکھتا ہوں میں حیرت میں گم ہوں جدھر دیکھتا ہوں
محمدؐ کے گھر میں ہیں سارے محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ ہمارے محمدؐ
مدحِ رسولؐ میں لکھی ہوئی جن نعتوں میں ردیفوں کا استعمال کیا ہے وہ تمام تر ردیفیں اُردو ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ ’’سرمایہ نجات‘‘ کو انھوں نے سرمایہ فکر کی بدولت ایک ایسا رنگ دیا ہے جو آج سے پہلے کئی نظر نہیں آتا،کیونکہ ان کے نزدیک نعت وہ جذبہ رنگین ہے جو دل سے تپش، آنسوؤں سے روانی، نگاہوں سے کیف، روح سے بالیدگی اور قلم سے پرِہُما کی جنبش سے کام لیا گیا ہے کیونکہ نعت لکھی نہیں جاتی بلکہ روح القدس کی تائید سے وجود میں آتی ہے۔ تو تب جا کر ایسے اشعار وجود پاتے ہیں۔
حرف کاغذ پہ اُتاروں تو فرشتے چومیں
یہ قرینہ بھی عقیدت کے قرینے میں ہو
………
فلک نوری، زمیں نوری، مکاں نوری، مکیں نوری
عقیدت کی مسافت میں عقیدت کا مقام آیا
کہنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر جان کاشمیری کی عظیم حمد و نعت کے چند ردیفوں کے گوشوں کو اپنی استعادات کے مطابق اُجاگر کر سکا ہوں، ورنہ اس پر تو ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مختصرا کہوں گا کہ اگر نعت گو شعرا کے لیے منشور نام کی کوئی شے ہو سکتی ہے تو وہ جان کاشمیری کا نعتیہ مجموعہ ’’سرمایہ نجات‘‘ ہر ملتِ مسلمہ کے فرد کے لیے ایک تحفہ ہے، کیونکہ ’’ سرمایہ نجات‘‘ میں شامل حمد و نعت جیسا کلام کہنے کے لیے جس گداز، اپنے عہدِ موجود کے جس شعور، جس احساسِ توازن، جس فکرِ سلیم، جس وسعتِ مطالعہ اور جس قادر الکلامی کی ضرورت ہے وہ ہر ایک اہلِ سخن میں نہیں جو جان کاشمیری کے ہاں موجود ہیں۔اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے والدین کے نام کرتے ہوئے ایک قطعہ شامل کیا ہے۔
سو حقائق کا خلاصہ ہے سنو
دو جہاں کا قیمتی سرمایہ ہے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ نجات جان کاشمیری ہم قافیوں میں ہو گیا ہے
پڑھیں:
اپنا گھر
مناسب اور معیاری گھروں کی عدم دستیابی عالمی سطح پر ایک بحران کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ سستی، مہذب رہائش کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں رہائش کی قلت بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں کےلیے محفوظ رہائش کا متحمل نہ ہونا سماجی اور صحت کے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ بے گھری کی وجہ سے بیماریاں، روزگار، تعلیم، سماجی مرتبہ اور سماجی میل جول متاثر ہوتا ہے۔ یہ تمام مسائل غربت میں اضافے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 7 ارب آبادی میں سے 1.7 ارب انسانوں کے پاس رہائش کی بنیادی سہولت دستیاب نہیں۔ 15 کروڑ انسان مستقل بے گھرہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گھروں کی قلت ایک بحران کی شکل اختیار کررہی ہے۔
پاکستان کو اس وقت ملک میں کم از کم ایک کروڑ سے زائد گھروں کی قلت کا سامنا ہے اور ہر گزرتے دن یہ قلت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ زمینوں کی تسلسل سے بڑھتی ہوئی قیمت اور گھروں کی تعمیراتی لاگت کی وجہ سے اپنا گھر کا خواب اب متوسط طبقے کےلیے نسلوں کا خواب بن گیا ہے۔ اگر باپ زمین خریدے تو اولاد اس پر گھر تعمیر کرنے کے قابل ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو گھروں کی تعمیر، ملکیت کے حوالے سے سستے قرضوں کی اسکیم متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ حکومت کی بڑے گھروں کے بجائے کم قیمت گھروں کےلیے یہ اسکیم متعارف کرانا ہوگی۔
گھروں کی تعمیر سے ملک میں معاشی سرگرمیوں میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ عوام کو معیاری رہائش بھی دستیاب ہوسکے گی۔ پاکستان میں گھروں کی قلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے سرکاری سطح پر رہائشی اسکیموں کی بندش ہوئی ہے، ملک میں رہائشی یونٹس کی قلت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ گھروں کی قلت کے حوالے سے حکومتی سطح پر بھی سوچ پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے میرا گھر اسکیم، پانچ مرلہ اسکیم اور متعدد اسکیموں کو متعارف کرایا گیا۔ مگر سیاسی حکومتوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے ان اسکیموں سے عوام کو جو فائدہ پہنچنا چاہیے تھا وہ حاصل نہ ہوسکا۔
پاکستان میں گھروں کی قلت اور کم قیمت گھروں کی تعمیر کے حوالے سے نہ صرف ملکی سطح پر معاشی سرگرمیاں بہتر ہوسکتی ہیں بلکہ یہ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس سے حکومت اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے مسائل کو بھی حل کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کو روز گار فراہم کرنے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے چند سال قبل کمرشل بینکوں کے اشتراک سے مناسب لاگت کے گھروں کےلیے مالیاتی اسکیم ’’میرا پاکستان میرا گھر اسکیم‘‘ متعارف کرائی تھی۔ جس میں ابتدائی دس سال میں قرض پر شرح منافع 3 سے 9 فیصد کے درمیان تھا۔ جس کا عوامی سطح پر بہت خیرمقدم کیا گیا۔ اور بینکوں کو ایک قلیل عرصے میں 473 ارب روپے قرض کی ردخواستیں موصول ہوئیں اور عوام کو گھروں کےلیے 212ارب روپے تقسیم بھی کیے گئے۔ مگر جون 2022 میں اس اسکیم کو اچانک بند کردیا گیا اور اس وقت گھروں کی ملکیت کی خواہش رکھنے والوں کےلیے کوئی مالیاتی اسکیم دستیاب نہیں ہے۔
امریکا میں کامیاب کاروبار کرنے والے ڈاکٹر انوش احمد جو کہ شعبہ طب کے علاوہ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افراط زر میں تیزی سے ہونے والی کمی کے بعد بنیادی شرح سود بھی کم ہورہی ہے اور اب حکومت کے پاس یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ کم قیمت گھروں کےلیے مالیاتی اسکیم کو دوبارہ متعارف کرائے کیونکہ تعمیراتی صنعت سے منسلک 60 صنعتی شعبے جیسا کہ سیمنٹ، سریا، الیکٹرک مصنوعات، رنگ و روغن، ماربل، ٹائلز سینٹری ویئر، سمیت متعدد صنعتوں کی طلب بڑھتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی معاشی سرگرمی ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ حکومت کی ٹیکس آمدنی میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مگر حکومت کو نہ صرف سستے قرضوں کی اسکیم متعارف کرانے بلکہ اس کے طویل مدت تک جاری رہنے کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک کی ایکسپورٹ ری فنانس اور طویل مدتی فنانسنگ کی سہولت متعارف ہونے سے صنعتی ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر ان اسکیموں سے صرف بڑے تاجروں اور طبقہ اشرافیہ کو فائدہ ہوا ہے۔ اسی طرح گھروں کے سستے قرضوں کی اسکیم بھی عام آدمی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
انوش احمد کا کہنا ہے کہ حکومت نے جائیداد کی خرید و فروخت پر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مگر حکومت کو خالی پلاٹوں کی خرید و فروخت اور پراپرٹی فائلوں کے دھندے کے بجائے کوشش کرنا ہوگی کہ سرمایہ گھروں کی تعمیرات پر صرف ہو اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت سستے گھروں کی تعمیر کےلیے فنانسنگ اسکیم کو بحال کرے۔ امریکا کی صنعتی ترقی میں اور دنیا کے معاشی پاور ہاوس بننے میں اس کی تعمیراتی صنعت کا بڑا حصہ ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج بھی امریکی معشیت اپنے تعیراتی صنعت کی بدولت دنیا کی بڑی معیشت میں شمار کی جاتی ہے۔
2007 میں امریکی جی ڈی پی کے مقابلے جائیداد کے عوض قرضوں کا تباسب 74 فیصد تھا۔ جوکہ سب پرائم لون بحران، کورونا وبا اور حالیہ معاشی حالات کی وجہ سے کم ہوکر 15 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔ مگر گھریلو اخراجات کےلیے قرضہ اس وقت امریکی جی ڈی پی کا 71 فیصد تک ہے۔ برطانیہ میں گھروں کےلیے قرضوں کا اجرا جی ڈی پی کا 115 فیصد ہے۔ ان ملکوں میں نہ صرف گھروں کی خریداری بلکہ گھروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کےلیے بھی قرض دیا جاتا ہے۔ جسے مقامی صنعتوں میں پیداوار کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
انوش احمد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت گھر کےلیے سستا قرضہ فراہم کرے تو سمندر پار پاکستانی اپنے پیاروں کےلیے یہ قرض حاصل کریں گے اور اس سے ترسیلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس مقصد کےلیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ترسیلات بڑھانے کےلیے حکومت سمندر پار پاکستانیوں کےلیے خصوصی اپنا گھر اسکیم متعارف کرا سکتی ہے۔
تعمیراتی صنعت کی بحالی کے حوالے سے ایسوسی ایشن برائے بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے وائس چیئرمین سید افضل احمد کا کہنا ہے کہ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع ہیں۔ یہاں ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی راغب کیا جاسکتا ہے۔ بڑا چیلنج پالیسی اور گورننس میں مستقل مزاجی کو پیدا کرنا ہے۔ مگر بار بار ریگولیٹری تبدیلیاں یا سیاسی رکاوٹوں کی وجہ سے تعمیراتی صنعت پراعتماد کم ہوتا ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کرکے ہی پاکستان کو ریئل اسٹیٹ میں ایک علاقائی سرمایہ کاری کے مرکز میں تبدیل کرسکتا ہے۔
آباد کے سینئر وائس چیئرمین سید افضل حمد نے کہا کہ ملکی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کےلیے ایس آئی ایف سی جہاں زراعت، لائیو اسٹاک، آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور کان کنی جیسے اہم شعبوں پر توجہ دے رہی ہے، انہیں تعمیراتی صنعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کےلیے کاوشیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبوں میں خاص طور پر مراعات اور ٹیکس کے حوالے سے حکومتی اعتماد اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں گھروں کی قلت پر قابو پانے کےلیے حکومتی سطح پر جامع پالیسی سازی کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ حکومت کو نہ صرف سستے گھروں کی تعمیر یا خریداری کےلیے اسکیم متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بصورت دیگر پاکستان میں گھروں کی قلت عوام کو انہی مسائل سے دوچار کردے گی جیساکہ دنیا بھر میں غیر معیاری رہائش کی وجہ سے غربت،افلاس اور بیماری پھیل رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔