افغانستان سرحد سے دہشتگردوں کی در اندازی بند ،پاکستان سے تعلقات بہتربنائے، سربراہ ملائیشین اسلامی تنظیم
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
سربراہ ملائیشین اسلامی تنظیم محمد آظمی الحامد نے کہا ہے کہ مسلم امہ کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کو شکست دے کر ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرنا پڑے گا، پاکستان انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے، پاکستان انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، پاکستان میرے جسم اور خون میں شامل ہے، کشمیر ایک خوبصورت جگہ ہے، اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کردار ادا کریں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے محمد آظمی الحامد نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط ملک بنے، پاکستان اور ملائیشیا کے برادرانہ تعلقات ہیں، ہم چاہتے ہیں دونوں ملکوں کے مابین بھائی چارے کی فضا ہمیشہ قائم رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آزادی کو 67 برس ہوچکے ہیں، قوموں کی ترقی میں کئی چیزیں ہوتی ہیں، ہم اتنے امیر نہیں ہیں تاہم ہمارے پاس قدرتی وسائل موجود ہیں، ہم نے اپنی زراعت اور انڈسٹری کو بہتر بنایا ہے، اور ہم انسانی ارتقا کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
سربراہ ملائیشین اسلامی تنظیم کا کہنا تھا کہ ملائیشیا میں تقریبا 67فیصد مسلمان ہیں، 20 فیصد بدھ مت ہیں اور اس کے بعد ہندو ودیگر مذاہب کے لوگ موجود ہیں جو ملکی ترقی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔
محمد آظمی الحامد نےکہا کہ افغانستان اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہے، ملائیشیا ان کے ساتھ مل کر ان کی معاشی ترقی کے لئے کام کررہا ہے، مجھے ان کی باتیں مناسب لگتی ہیں، ہم کابل سے کہیں گے کہ وہ سرحد سے دہشت گردوں کے دخل اندازی بند کرائے اور پڑوسی ملک پاکستان سے اپنے تعلقات بہتربنائے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لئے
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔