پنجاب پولیس کاکرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کس طرح کام کرےگا؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
پنجاب پولیس کا کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کیس کام کرے گا اس سے متعلق تفصیلات سامنے آگئیں۔
پنجاب کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں 4 ہزار 250 افسران واہلکارشامل ہوں گے۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ آرگنائزڈکرائم کنٹرول کی جگہ لے گا۔ ڈیپارٹمنٹ17 سنگین جرائم کے خلاف کارروائیاں اور تفتیش سمیت کیسزکو چالان تک دیکھےگا۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں 3ڈی آئی جیزاور 10 ایس ایس پیزشامل ہوں گے۔ کل نفری میں13ایس پیز اور47 ڈی ایس پیز شامل ہیں۔
مزید تفصیلات کے مطابق ڈپارٹمنٹ میں 212 انچارج آپریشنزوانویسٹی گیشنز اور ایک ہزار 488اےایس آئیز، 425 ہیڈ کانسٹیبلز اور 2 ہزار 125 کانسٹیبلز ہوں گے۔ لاہورمیں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ900 افسران واہلکاروں پر مشتمل ہوگا۔ راولپنڈی،فیصل آباد،ملتان ،گوجرانوالہ میں ایک ہزارافسران واہلکارڈپارٹمنٹ کاحصہ ہوں گے۔ اےکیٹگری کےاضلاع میں1500،بی کیٹگری کےاضلاع میں850افسران واہلکارہوں گے۔
نئی سیٹوں کی منظوری تک پنجاب پولیس کی موجودہ نفری سےکام لیاجائےگا۔ کمپیوٹر،فرنیچر،اسلحہ سمیت دیگرسامان آئی جی آفس کی جانب سےفراہم کیاجائےگا۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں 6مختلف سیل قائم کیےجائیں گے۔ ان میں ہیڈمنی سیل،کریمنل ریکارڈآفس،پی اوز،اریسٹ سیل سمیت6مختلف سیل شامل ہیں۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں افسران واہلکاروں کوسپیشل الاؤنس دیاجائےگا۔ مخبر،انفارمر اورانٹیلی جنس کیلئےسیکرٹ فنڈبھی رکھاجائےگا۔
پنجاب کے تمام اضلاع میں موجودہ دفاترکواپڈیٹ کیاجائےگا اورنئی بلڈنگ کی جلد تعمیرکی جائےگی۔ لاہورکےآرگنائزڈکرائم کے3دفاترکرائم کنٹرول یونٹ کودیئےجائیں گے۔ دیگراضلاع میں 2،2دفاترکوکرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کودیئےجائیں گے۔ سی ٹی ڈی کاچوہنگ میں موجودسب جیل بھی سی سی ڈی کےحوالے ہو گا۔ ایڈیشنل آئی جی نے آئی جی پنجاب کے ساتھ مشاورت کےبعد سمری حکومت کوبھجوا دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوں گے
پڑھیں:
پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے
لاہور:پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور انسانی آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جنگلی جانوروں کے نظم و نسق سے متعلق دو اہم اقدامات کیے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک طرف ’’پنجاب وائلڈ لائف ہیزرڈ کنٹرول رولز 2025‘‘ نافذ کیا گیا ہے، تو دوسری جانب جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں کئی ترامیم منظور کی گئی ہیں، جن کے ذریعے صوبے میں تحفظِ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق نئے قواعد کا مقصد انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم یا خطرے کی صورت میں سائنسی، منظم اور فوری کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔ اگر کوئی جنگلی جانور انسانی جان یا دیگر جانداروں کے لیے خطرہ بن جائے، یا کسی بیماری یا چوٹ کے باعث زندہ رہنے کے قابل نہ ہو، تو چیف وائلڈ لائف رینجر فیلڈ رپورٹ، سائنسی شواہد اور عوامی شکایات کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دے سکتا ہے۔
ہنگامی حالات میں رینجر متعلقہ ماہرین سے مشورہ کرکے اس جانور کو قابو میں لانے، منتقل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ کر سکے گا۔
قواعد میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر ایسی کارروائی سے قبل پنجاب کیپٹیو وائلڈ لائف مینجمنٹ کمیٹی اور ویٹرنری ماہرین سے مشاورت لازم ہوگی تاکہ تمام اقدامات انسانی اصولوں اور سائنسی معیار کے مطابق ہوں۔ اس کے ساتھ مستقبل میں ایسے خطرات سے بچاؤ کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بھی تیار کی گئی ہے، جس کے تحت کسی نوع کو نقصان دہ یا ’’پیسٹ‘‘ قرار دیا جا سکے گا۔
بعض علاقوں میں محدود مدت کے لیے شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا سکیں گے، جبکہ حساس مقامات کو ’’وائلڈ لائف ہیزرڈ زون‘‘ قرار دے کر وہاں جانوروں کو کھلانے یا پالنے پر پابندی عائد کی جا سکے گی۔
نئے قواعد میں غیر ملکی انواع کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجنے اور مقامی انواع کو ان کے قدرتی مسکن میں دوبارہ متعارف کرانے کی گنجائش بھی شامل ہے۔ خطرناک جانوروں کی منتقلی یا قابو پانے میں معاونت کرنے والے افراد اور اداروں کو سرکاری شرح کے مطابق انعامات دیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں، پنجاب حکومت نے جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے جرائم کے مالی جرمانوں میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ شاہین سمیت نایاب اور شکاری پرندوں کے غیر قانونی شکار یا قبضے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
وائلڈ لائف کے ترمیم شدہ قانون کے تحت فرسٹ شیڈول میں شامل بعض جنگلی پرندوں کے غیرقانونی شکار یا پکڑنے کا فی جانور معاوضہ 10 ہزار روپے ہوگا۔ باز، ہریڑ، لگر اور الو کا معاوضہ ایک لاکھ روپے، شیڈول دوئم اور سوئم میں شامل ممالیہ جانوروں کے غیر قانونی شکار یا پکڑنے کا محکمانہ معاوضہ ایک لاکھ روپے ہوگا۔ گیدڑ، سور، جنگلی سور کا محکمانہ معاضہ 25 ہزار روپے ہوگی۔
اسی طرح غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والے اسلحے کا جرمانہ شارٹ گن 25 ہزار، غیر ملکی شارٹ گن 50 ہزار، مقامی رائفلز 50 ہزار، غیر ملکی رائفل ایک لاکھ روپے، پی سی پی ائیر گن 50 روپے۔ غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والی جیپ، گاڑی کا جرمانہ 5 لاکھ روپے، موٹر سائیکل کا جرمانہ ایک لاکھ، سائیکل 25 ہزار، کشتی کا 25 ہزار، ٹیپ ریکارڈ اور دیگر برقی آلات کا جرمانہ 25 ہزار روپے ہوگا۔
نئی ترامیم کے تحت اعزازی گیم وارڈن کے عہدے ختم کر دیے گئے ہیں، جبکہ کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی کے ارکان کو اب باقاعدہ قانونی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ غیر قانونی شکار یا تجارت کی روک تھام میں مدد دے سکیں۔
شکار، بریڈنگ اور خرید و فروخت کے اجازت ناموں کی نیلامی کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم متعارف کرایا جائے گا۔ اسی طرح کتوں کی دوڑ کے مقابلوں میں زندہ خرگوشوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور صرف مشینی چارے کی اجازت دی گئی ہے۔
نئے قانون کے مطابق صوبے بھر میں خصوصی وائلڈ لائف پروٹیکشن سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں عملہ جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہوگا۔ ان اہلکاروں کو وارنٹ کے بغیر تلاشی لینے اور گرفتاری کا اختیار بھی حاصل ہوگا تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔