سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک : پشاور اور ژوب سمیت مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کے باعث شہری خوفزدہ ہو کر گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔
سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس کے باعث شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہو گئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق سوات اور گردونواح میں زلزلے کی شدت 5.
بند روڈ کنٹرولڈ ایکسیس کوریڈور منصوبے کو 55کروڑ کے اضافی فنڈز نہ مل سکے
اس سے قبل آج صبح بلوچستان کے ضلع ژوب اور گردونواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ژوب میں آنے والے زلزلے کی شدت 4 تھی اور اس کی گہرائی 22 کلومیٹر تھی، جب کہ اس کا مرکز ژوب سے 13 کلومیٹر مغرب میں واقع تھا۔
یاد رہے کہ 3روز قبل بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، راولپنڈی اور آزاد کشمیر میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق اس زلزلے کی شدت 4.8 تھی، جب کہ اس کی گہرائی 17 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی اور مرکز راولپنڈی کے جنوب مشرق میں 8 کلومیٹر دور تھا۔
میٹرک کے سالانہ امتحان میں 156 امتحانی سنٹرز حساس قرار
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: جھٹکے محسوس کیے گئے اور گردونواح میں میں زلزلے زلزلے کی زلزلے کے
پڑھیں:
’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔
تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔
ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔
واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“
ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟
یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
Post Views: 3