Daily Ausaf:
2025-11-04@06:12:41 GMT

امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ بصارت سے تہی تھے،لیکن یہ کامل سچ نہیں ہے ہے البتہ یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جاتی ہے کہ وہ بچپن میں میں کچھ عرصہ کے لئے اس محرومی کا شکار رہے مگر ایک راستباز ماں جو صوم صلوٰۃ اور ذکر اذکار کی خوگر تھیں اور مستجاب الدعوات تھیں ان کی مانگی دعائوں سے ان کے در یتیم کو رب لم یزل نے بصارت کی نعمت لوٹادی اور پھر غیر معمولی حافظہ رکھنے والا یہ نابغہ روزگار بچہ وقت کا امام بنا۔محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ البخاری جن کی کنیت ابو عبداللہ تھی، ماہ شوال کی 13تاریخ 194ہجری میں بخارہ موجودہ ازبکستان میں پیدا ہوئے،بچپن ہی میں باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے نیک و پارسا ماں جو اپنے بچے کی غیر معمولی عادات سے آشنا تھیں انہوں نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی جس کی وجہ سے ہونہار فرزند نے سولہ برس کی عمر میں ہی احادیث جمع کرنے کے لئے مکہ اور مدینہ ہی نہیں بلکہ شام و عراق اور گہوارہ علم مصر کا سفر کیااور جہاں جہاں کسی محدث کا پتہ پایا ان کی خدمت میں حاضری دی۔
تدوین احادیث کے جمع کرنے پر جو محنت و مشقت امام بخاری ؒنے کی شاید ہی کسی اور نے کی ہو، امام بخار یؒ کی سب سے بڑی دینی خدمت یہی ہے کہ انہوں نے گہری تحقیق کے عمل سے اپنی کتاب’’صحیح البخاری‘‘ مرتب کی جو مسلک اہل سنت کے نزدیک حدیث کی سب سے مستند کتاب مانی جاتی ہے،بلکہ قرآن کریم کے بعد علوم اسلامیہ کا عظیم سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں موجود احادیث کی تعداد تکراریعنی بار بار مختلف مقامات پر دہرائی جانے والی احادیث جنہیں حدیث کی اصطلاح میں’’تکرار حدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے بعد تقریبا ًسات ہزار دو سو پچھترہے، جو انتہائی سخت شرائط کے ساتھ جمع کی گئی ہیں،امام بخاریؒ کو محدثین اور راویان حدیث کے حالات کی جانکاری میں مہارت حاصل تھی۔آپ نے راویوں کی جانچ کے لئے سخت اصول وضع کئے، یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ کی جمع کردہ احادیث کو معتبر اور اعلیٰ درجے کی احادیث مانا آتا ہے۔اس بارے ان کی کتاب’’التاریخ الکبیر‘‘ بہت اہم گردانی جاتی ہے،جس کا شمار امام بخاریؒ کی اولین کتب میں ہوتا ہے۔یہ وہ اہم ترین کتاب ہے جس میں آپ نے احادیث نبویﷺ کے راویوں کی جرح و تعدیل کے اصول مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات زندگی، ان کے ثقہ یا ضعیف ہونے اور ان کی علمی بساط کا تذکرہ کیا ہے۔
اس کتاب میں چالیس ہزار کے لگ بھگ راویوں کا ذکر حروف تہجی کی ترتیب سے کیا ہے،ہر راوی کے نام و نسب، کنیت، اس کے علمی مرتبہ، اساتذہ، تلامذہ اوران کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا حوالہ دیا ہے۔اس حوالے سے ان کی دیگر کتب ’’التاریخ الااوسط‘‘ ’’الادب المفرد‘‘ اور’’خلق افعال العباد‘‘ بھی بہت اہم ہے جو مسلم عقائد سے متعلق تحریر کی گئی ہے،جس میں انسان کے اعمال و افعال، تقدیر اور جبرو اختیار پر بحث کی گئی ہے۔امام بخاری ؒکا نقطہ نظر یہ ہے کہ’’انسان مجبور نہیں ہے بلکہ اللہ نے اسے ارادہ اور اختیار تفویض کیا ہے‘‘ یہ دراصل جبریہ(جو انسان کو مجبور محض قرار دیتے تھے) اور قدریہ (جن کا کہنا تھا کہ انسان اپنے اعمال و افعال کا خودخالق ہے)کے نقطہ نظر کے رد عمل کے طور پر لکھی۔اسی طرح امام نے معتزلہ کے نظریات کو بھی رد کردیا جویہ کہتے تھے کہ’’انسان اپنے افعال کا خود مالک ہے‘‘ امام نے جہمیہ کے اس عقیدے کو بھی باطل قرار دیا جو کہتے تھے کہ’’قرآن مخلوق ہے‘‘۔
بہرحال یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذکورہ کتاب حدیث، عقیدہ اور علم الکلام میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بنیادی متن کی حیثیت رکھتی ہے،اس کتاب نے اشعریہ اور ماتریدیہ جیسے کلامی مکتب پر بھی اثرات مرتب کے،جبکہ ’’الادب المفرد‘‘امام کی ایسی تصنیف جو مرقع حسن اخلاق ہے اور اس میں معاشرتی آداب سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے،یہ کتاب صحیح البخاری کا حصہ نہیں ہے ، اس موضوع یکسر مختلف ہے اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ،ان کی اطاعت، خدمت اور فضیلت کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ عزیزو اقارب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے، سماج میں رہنے اور عام لوگوں کے ساتھ برتائو کے طور طریقے کیا ہیں اور انسان کے اپنے کردار کو کس طرح کا ہونا چاہیئے۔غرض یہ کتاب اسلامی اخلاقیات کا مجموعہ ہے جس میں زندگی کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ہر طبقہ کے افراد کے لئے الگ الگ بیان کیا گیا ہے ۔اس کتاب میں احادیث نبی ﷺسے ایسی احادیث چن کر شامل کی گئی ہیں جو بالکل سادہ اور عام فہم ہیں۔امام بخاریؒ کو فقہی مسائل کے حوالے سے اختلافات کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں انہیں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی اور اسی ملک بدری کی حالت میں انہوں نے سمرقند سے متصل ایک دیہات خرتنگ میں 256ہجری میں وفات پائی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے ساتھ گیا ہے کی گئی کے لئے

پڑھیں:

کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟

کیا آنے والا وقت انسانی کال سینٹر ایجنٹس کے خاتمے کا وقت ہے اور اگر یہ سوال آپ خود آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے پوچھیں تو شاید وہ گول مول جواب دے۔

یہ بھی پڑھیں: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہی سوال ٹیک کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل یا اسسٹنٹ جی پی ٹی سے پوچھیں تو وہ ایک محتاط جواب دے گا  کہ انسان اور اے آئی ساتھ ساتھ کام کریں گے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماہرین اور صنعت کے رہنما اس بارے میں اتنے پر امید نہیں۔

’جلد ہی کال سینٹرز کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی‘

بھارتی ٹیکنالوجی کمپنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزکے چیف ایگزیکٹو کے کرتھی وسن  نے گزشتہ سال فائنینشل ٹائمز سے گفتگو میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے بعد ایشیا میں کال سینٹرز کی ضرورت بہت کم رہ جائے گی۔

اسی طرح، تحقیقاتی ادارہ گارٹنر  نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2029 تک اے آئی خودکار طور پر 80 فیصد کسٹمر سروس کے عام مسائل حل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

اے آئی ایجنٹس کا بڑھتا رجحان

آج کل سب سے زیادہ بات جس اصطلاح پر ہو رہی ہے وہ ہے اے آئی ایجنٹس یعنی وہ خودکار نظام جو انسانوں کی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں اور بات چیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ موجودہ ’رول بیسڈ چیٹ بوٹس‘ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے جو صرف پہلے سے طے شدہ سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔

ایک حالیہ مثال کے طور پر برطانوی پارسل کمپنی کے چیٹ بوٹ نے ایک صارف کی شکایت کو حل کرنے کی کوشش کی۔

لیکن جب صارف نے پارسل کی شکایت درج کرائی تو بوٹ نے بتایا کہ پارسل ڈیلیور ہو چکا ہے اور جب ثبوت مانگا گیا تو تصویر کسی اور کے دروازے کی تھی

مزید پڑھیے: لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟

گفتگو اس مقام پر ختم ہو گئی کیونکہ بوٹ کے پاس اس کے بعد کوئی جواب نہیں تھا۔

کمپنی کے مطابق وہ اپنی سروس کو بہتر بنانے کے لیے 57 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

جب چیٹ بوٹ نے کمپنی کو ہی برا بھلا کہا

دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری پارسل کمپنی ڈی پی ڈی کو اپنا اے آئی چیٹ بوٹ بند کرنا پڑا جب اس نے صارفین سے بدتمیزی کی اور خود اپنی کمپنی پر تنقید شروع کر دی۔

یہ واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ اے آئی کو برانڈ کے مطابق رکھنا اور صارف کی مدد کرنا بیک وقت کتنا مشکل کام ہے۔

صرف 20 فیصد AI پراجیکٹس توقعات پر پورے

گارٹنر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد کسٹمر سروس لیڈرز  اے آئی چیٹ بوٹس کو آزما رہے ہیں یا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 20 فیصد منصوبے توقعات پر پورے اترے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟

گارٹنر کی ماہر ایملی پوٹوسکی کہتی ہیں کہ اے آئی سے بات چیت زیادہ قدرت لگ سکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض اوقات غلط معلومات دے سکتا ہے یا بالکل بے ربط جواب دیتا ہے۔

ان کے مطابق، پارسل ڈیلیوری جیسے مخصوص معاملات میں رول بیسڈ بوٹس زیادہ موزوں ہیں کیونکہ ان میں سوالات کی اقسام محدود ہوتی ہیں۔

’اے آئی ہمیشہ سستا نہیں ہوتا‘

اگرچہ کئی کمپنیاں اے آئی کے ذریعے انسانی عملے کو کم کرنے پر غور کر رہی ہیں، مگر پوٹوسکی کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اے آئی ہمیشہ سستا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت مہنگی ٹیکنالوجی ہے اور اسے کارآمد بنانے کے لیے بہت بڑا تربیتی ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ نالج مینجمنٹ یعنی کمپنی کے ڈیٹا کو منظم کرنا اے آئی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

انسانوں سے سیکھنے والے  اے آئی

سیلز فورس کے چیف ڈیجیٹل آفیسر جو انزیریلو کے مطابق کال سینٹرز دراصل اے آئی کے لیے بہترین تربیتی میدان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان سینٹرز میں پہلے سے موجود تربیت، دستاویزات اور گاہکوں کے ڈیٹا سے اے آئی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟

ان کی کمپنی کا اے آئی پلیٹ فارم پہلے ہی مختلف اداروں جیسے فارمولا 1، پروڈینشیئل، اوپن ٹیبل اور ریڈٹ وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے۔

ابتدائی تجربات میں کمپنی نے یہ جانا کہ اے آئی کو زیادہ انسانی لہجہ دینا ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب ایک انسان کہتا ہے ’مجھے افسوس ہے آپ کو یہ مسئلہ پیش آیا‘ تو اے آئی صرف ایک ٹکٹ بنا دیتا تھا لیکن اب ہم نے اسے ہمدردی دکھانے کی تربیت دی ہے۔

کیا انسانوں کی جگہ ممکن ہے؟

اگرچہ سیلز فورس کے مطابق 94 فیصد صارفین اے آئی  ایجنٹس سے مطمئن ہیں لیکن کمپنی کی جانب سے 100 ملین ڈالر کی لاگت میں کمی کے باوجود زیادہ تر ملازمین کو دوسرے شعبوں میں منتقل کیا گیا،  برخلاف ان خبروں کے کہ 4 ہزار ملازمین کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔

دوسری طرف جو کمپنی کیو اسٹوری چلانے والی فیونا کولمین کہتی ہیں کہ اے آئی انسانوں کو مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔

انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی میں صرف ایک انسان سے بات کرنا چاہتی ہوں خاص طور پر حساس معاملات جیسے قرض یا گھر کے قرض کے بارے میں۔

انسان سے بات کرنے کا حق

امریکا میں ایک مجوزہ قانون کے تحت کمپنیاں صارفین کو یہ حق دینے کی پابند ہوں گی کہ اگر وہ چاہیں تو اے آئی کی بجائے انسان سے بات کر سکیں۔

اسی طرح گارٹنر کی پیش گوئی ہے کہ سنہ 2028 تک یورپی یونین بھی اپنے صارفین کو ’انسان سے بات کرنے کا حق‘ قانونی طور پر فراہم کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے

الغرض سنہ 2029 تک AI80 فیصد کسٹمر سروس خود بخود انجام دے سکتا ہے۔ کچھ کمپنیاں انسانی ایجنٹس کی جگہ اے آئی چیٹ بوٹس لا رہی ہیں مگر نتائج ملے جلے ہیں۔ اے آئی کے لیے درست تربیت، ڈیٹا اور اخلاقی حدود اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اور کم از کم پیچیدہ مسائل میں صارف شاید اب بھی انسانی رابطہ چاہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی اور کال سینٹرز اے اور انسانی نوکریاں کال سینٹرز

متعلقہ مضامین

  • کتاب ہدایت
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • بُک شیلف
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • تلاش
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد