Jasarat News:
2025-11-03@17:52:11 GMT

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب

(3)
مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماڈل پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف سے مستعار لیا تھا، جو انہی وعدوں کو لیکر سیاسی میدان میں تھے۔ اقتدار میں آتے ہی، جوں جوں کیجری وال کی حقیقت کھلتی گئی، پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ 2015 میں پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو جیسے بانی رہنماؤں کو اس وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے کیجریوال کے طرزِ قیادت پر سوال اٹھائے تھے۔ جو تحریک عوام کی شمولیت اور اجتماعی فیصلوں کے اصولوں پر کھڑی ہوئی تھی، وہ جلد ہی ایک شخصیت پر مبنی تنظیم بن گئی۔ کیجریوال کے اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے کی روش نے کئی بانی اراکین کو پارٹی سے دور کر دیا۔ جو لوگ ملک کو بدلنے نکلے تھے، وہ خود بدل گئے۔ جب 2015 میں اروند کیجریوال نے بطور وزیر اعلیٰ گورنر ہائوس کے بجائے دہلی کے پرانے شہر سے متصل رام لیلا گراونڈ میں عوامی اجتماع میں حلف لیا۔ مجھے یاد ہے کہ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دوستو، جب کسی کو ایسی شاندار جیت ملتی ہے تو اس میں غرور آنے کا خدشہ ہوتا ہے اور اگر غرور آ جائے، تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر وقت محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں مسلسل اپنے اندر جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم میں غرور تو نہیں آ رہا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم کبھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے‘‘۔ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ غرور نے کانگریس کو زوال تک پہنچایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود اسی غرور کے شکار ہو گئے اور پارٹی کو بحران میں دھکیل دیا۔

کیجری وال کی شناخت ہی کرپشن کے خلاف ان کی بے لچک مہم تھی۔ بطور انڈین ریونیو سروس افسر، وہ رشوت طلب کرنے والے افسران کو بارہا بے نقاب کرتے رہے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں کام کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ’’پریورتن‘‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی، جو دہلی کے پسے ہوئے طبقات کو بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے نجات دلانے میں مدد دیتی تھی۔ انہوں نے اطلاعات کے حق (RTI) قانون کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو کرپٹ سرکاری افسروں کے چنگل سے آزادی دلائی۔ یہی وہ اصول تھے جن پر عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اصول خود پارٹی کی سیاست کی نذر ہو گئے۔ آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود ایک نئی داستانِ عبرت بن چکی ہے۔ ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، پریورتن کے رضاکار متعلقہ افسر کے پاس متاثرہ شخص کو لے کر جاتے اور ریفنڈ کی تاریخ دریافت کرتے۔ مقررہ دن، وہ موسیقی کے آلات کے ساتھ انکم ٹیکس آفس پہنچ جاتے تھے۔ اگر ریفنڈ دینے سے انکار کیا جاتا تو وہ فرش پر بیٹھ جاتے، گیت گاتے، ڈھول بجاتے۔ یہاں تک کہ ریفنڈ جاری کر دیا جاتا۔ ایک بار ایک شخص سے انکم ٹیکس افسر نے اس کا ریفنڈ کلیئر کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے رشوت طلب کی۔ کیجریوال کی سربراہی میں پریورتن کے رضاکار چند صحافیوں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں ڈھول اور باجے بجاتے ہوئے نکلے اور رشوت کی رقم کا چیک لے کر سرعام اس افسر کو پیش کرنے پہنچ گئے۔ افسر پچھلے دروازے سے فرار ہو گیا، مگر محکمہ نے فوری اس شخص کا ریفنڈ جاری کردیا۔ اسی طرح کسی بستی میں اگر بجلی کا ٹرانسفارمر خراب ہوکر نہیں لگایا جاتا تو اسی طرح وہ بجلی دفتر پہنچ کر وہاں گانا بجانا شروع کر دیتے تھے۔ بیوروکریسی کے ستائے ہوئے افراد کے لیے وہ ایک سہارا بن گئے تھے۔ مایانک گاندھی کے مطابق کیجریوال کے دست راست اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ان کو ایک بار بتایا ’’مایانک بھائی، اصول کتابوں میں اچھے لگتے ہیں لیکن ہم اب جنگ میں ہیں، اور ہمیں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوگا‘‘۔ اس طرح سمپورن کرانتی (کلّی انقلاب) کا نعرہ خاموشی سے سیاسی سمجھوتے میں تبدیل ہو گیا۔

جو جماعت اندرونی جمہوریت اور عدم مرکزیت کا وعدہ کر رہی تھی، وہ تیزی سے کیجری وال کے گرد گھومنے والی شخصیت پرست جماعت بن گئی۔ اختلافِ رائے دبایا جانے لگا اور چاپلوسی کی ثقافت پروان چڑھنے لگی۔ دہلی کے اراکین اسمبلی، جنہیں اپنے حلقوں پر توجہ دینی تھی، دیگر ریاستوں میں تعینات کیے گئے، جہاں وہ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے اور صرف وہ مقامی رہنما منتخب کرتے جو کیجری وال کے قریبی حلقے کے وفادار ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی سطح کے باصلاحیت رہنما پس ِ پردہ چلے گئے۔ بی جے پی کے غلبے والی ریاستوں میں کانگریس کی جگہ لینے کی خواہش کے باوجود، پارٹی کی کمزور تنظیم اور مقامی سطح پر مضبوط قیادت کی کمی نے اس کے عزائم کو نقصان پہنچایا۔ بد عنوانی کے خلاف وجود میں آئی پارٹی کو بد عنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر قانون جیتندر سنگھ تومر کی جعلی ڈگری اسکینڈل پر کیجریوال کا مؤقف عجیب سا تھا۔ بجائے وہ اپنے وزیر کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے جواب طلب کرتے، وہ ان کا دفاع کرنے لگے۔ مگر ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد انہیں اپنا مؤقف بدلنا پڑا۔ مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اسی طرح 2016 میں، پارٹی نے اپنی ویب سائٹ سے چندہ دہندگان کی فہرست ہٹا دی، تو شفافیت کے عزم پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔

جب 2022 میں، دہلی حکومت نے نئی ایکسائز پالیسی متعارف کروائی تاکہ شراب کی فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکے، یہ ایک طرح سے اس پوری تحریک کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس پالیسی سے مبینہ طور پر مخصوص نجی کمپنیوںنے فائدہ اٹھایا اور الزام ہے کہ ان سے پارٹی فنڈ کے لیے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس کیس میں ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا سمیت کئی اہم رہنما ملوث پائے گئے۔ فروری 2023 میں سسودیا کو گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ 2024 میں، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو بھی حراست میں لے لیا گیا، جو بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح منیش سسودیا پر اسکولوں کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ عآپ اب بھی ایک قومی جماعت ہے۔ پنجاب میں یہ حکومت چلا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھتی ہے۔ تاہم، اس کے توسیعی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سال 2022 میں، دہلی سے باہر اسے سب سے بڑی انتخابی کامیابی پنجاب میں ملی، جہاں اس نے روایتی کانگریس-اکالی دل اقتدار کے دو قطبی نظام کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے اسے قومی پارٹی کا درجہ دلایا اور یہ عندیہ دیا کہ اس کا طرزِ حکمرانی دوسرے علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پنجاب میں حکومت چلانا نئے چیلنجز لے کر آیا۔ ایک ایسے صوبے کا انتظام سنبھالنا، جو گہرے زرعی بحران اور منشیات کے مسئلے میں جکڑا ہوا ہے، دہلی کی حکومت چلانے سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ آپ کی سیاسی سمت ایک سبق آموز کہانی ہے۔ (بشکریہ: 92نیوز)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: منیش سسودیا وزیر اعلی کیجری وال انہوں نے کے ساتھ دہلی کے وال کے کے لیے

پڑھیں:

رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں

صدیاں گزرگئیں ہزاروں موسم بیت چکے،کئی سماجی،تہذہبی اور سیاسی انقلابات آئے لیکن شاعر انسانیت حضرت عبدالرحمان بابا کے فکر کا جو سوتا سماجی حقیقت نگاری،تاریخی وتہذیبی شعور،ادراک،جذبات اور احساسات سے پھوٹا تھا وہ آج بھی اسی طرح صاف وشفاف شکل میں بہہ رہا ہے۔

اگر چہ اس طویل عرصے میں ہزارہا تاریخی،معاشرتی،سیاسی،ادبی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی لیکن کوئی انقلاب کوئی بھی تہذیب و سیاست رحمان بابا کے کلام کی اپنی جو خاصیت،انفرادیت،اہمیت اور ضرورت ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکی بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے تو وقت و حالات کے ساتھ رحمان بابا ایک حقیقی اور سچے کلاسیک شاعر کے طور پر نئے نئے رنگ اور نئی نئی شکل میں سامنے مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔

ان کے افکار ہمیں محبت،امن،دوستی بھائی چارے،رواداری اور انصاف کی شاہراہوں پر برابر آگے کی طرف بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کی تحریک دیتے ہیں۔ رحمان بابا کی شاعری میں جو دل موہ لینے والی شاعرانہ کشش اور کیفیت پائی جاتی ہے اس نے آج ایک دنیا کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنایا ہوا ہے۔اور یہی ان کے کلام کا سب سے بڑا اعجاز ہے جیسا کہ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

چہ منکر پرے اعتراض کولے نہ شی

دا دے شعر رحمانہ کہ اعجاز

مفہوم۔جب کوئی منکر بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا، اے رحمان! آپ کا شعر ہے یا کہ اعجاز(معجزہ)۔اور یہ معجزہ وہ جو خون جگر سے نمود پاتا ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے بھی کیا ہے کہ’’معجزہ فن کی ہے، خون جگر سے نمود‘‘۔رحمان بابا جنہیں شاعر انسانیت اور پشتو کا حافظ شیرازی کہا جاتا ہ، اپنے مخلصانہ، عارفانہ اور عشقیہ کلام کی بدولت عام و خاص بچوں بوڑھوں اور خواتین میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔

جو عقیدت و حترام اور ادبی اعتبار کا رشتہ پختونوں کا رحمن بابا سے قائم ہے وہ رشتہ اور اعتماد اپنے کسی دوسرے شاعر سے نہیں رکھتے۔ رحمان بابا کے ساتھ پختونوں کی عقیدت ،دل و دماغ اور جذبات کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی کوئی سبق آموز اور مقصدیت سے بھرا ہوا شعر انہیں کسی دوسرے نامعلوم شاعر کا ملتا ہے بالعموم اسے بھی رحمان بابا کا سمجھ لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں رحمان بابا سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاعر اتنی سچائی اور حقیقت بیان نہیں کرسکتا جتنی سچائی اور حقیقت نگاری رحمان بابا کی شاعری میں موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عورتیں گھروں ،تندوروںکے کنارے کسان کھیتوں کلیانوں،صوفیا و درویش مزاروں اور خانقاہوں میں سیات دان اسٹیج پر مولوی، واعظ مسجد کے منبر سے اور گوئیے موسیقی اور محفل سماع میں رحمان بابا کے اشعار سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف پہنچاتے ہیں۔ان کی شاعرانہ عظمت،تخلیقیت،صداقت بیانی اور سبق آموزی کے حوالے سے سوات کے مشہور ولی اللہ اخون کہا کرتے تھے کہ قرآن و حدیث کے بعد پختونوں میں کوئی دوسری کتاب اتنی مقبول و معتبر نہیں جتنی مقبولیت،شہرت،قبولیت اور اعتبار رحمان بابا کے دیوان کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اپنے ایک شعر میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ

دا چہ زہ ئے درتہ وایمہ کہ خدائے کڑہ

پہ قرآن او پہ حدیث کے بہ سرگند وی

یعنی میں جو کچھ کہتا ہوں اگر خدا نے چاہا تو قرآن اور حدیث میں بھی یہی باتیں آپ ملیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کے بیشتر گھرانوں میں رحمان بابا کا دیوان تبرک اور ایک مقدس کتاب کے طور پر رکھا جاتا ہے کوئی بھی ایسا پختون جوان ، بوڑھا یا عورت نہیں ہوگی جو اپنے محبوب شاعر انسانیت کے نام اور کام سے واقفیت نہ رکھتا ہو،یا انہیں رحمان بابا کے کچھ اشعار ازبر نہ ہوں۔بات بات پر رحمان بابا کے اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رحمان بابا وائی(رحمان بابا فرماتے ہیں)،رحمان بابا سہ خہ وئیلی دی(رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے)۔ان کے اشعار اس قدر سادہ،برجستہ،برمحل،تکلف اور پیچدگی سے پاک ہیں کہ پختون انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

رحمان بابا کو پشتو کا حافط شیرازی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دونوں کے فکر و فن اور پیغام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔رحمان بابا نے بھی حافظ شیرازی ہی کی طرح زیادہ تر طبع آزمائی صنف غزل میں کی ہے۔ وہ بھی حافظ شیرازی کی طرح ایک باکمال فنکار،مصورانہ مزاج،غنائی انداز اور بلند تخئیل کے مالک ہیں۔ان کے کلام میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ(ڈکشن) ایک منفرد جداگانہ اسلوب،سادہ بیانی،لطافت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر عبدالصمد خان اپنی کتاب’’رحمان بابا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ رحمان بابا اور حافظ میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ریاکاری اور منافقت کے سخت خلاف ہیں۔ زاہدان خشک کو دونوں ناپسند کرتے ہیں، حرص و ہوس،بخل ،حسد و بغض وکینہ بے غیرتی بے حیائی اور بے حمیتی کو دونوں ناپسند کرتے اور زندگی کے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ قدریں بھی دونوں نے یکساں لطافت کے ساتھ پیش کی ہیں۔ نکتہ آفرینی کا رنگ ڈھنگ بھی دونوں کا ایک سا ہے۔ خوشحال و اقبال کی طرح تندی وتیزی اور پرشور فعالیت دونوں کے ہاں زیادہ نمایاں نہیں، دونوں عاشق مزاج ہیں۔دونوں کے نزدیک حسن لاینفک اور ناقابل تقسیم ہے۔‘‘

اسی طرح انصار ناصری رحمان بابا کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’صدیاں گزرگئیں سینکڑوں انقلاب آئے پشتو کے صاحب دل صوفی رحمان بابا کی لگائی پھلواری آج تک ویسی کی ویسی سرسبز وشاداب اورا س کے بہار پھولوں کی تازگی اور مہک اسی طرح برقرار ہے جیسے اول تھی، بڑے آرٹ کو کبھی فنا نہیں، اس کی سادگی اور سچائی ہی بقاء کی ضامن ہے‘‘۔رحمان بابا کا کلام اس قدر صاف،سیدھا ،ا ٓسان اور ان کا پیام اس قدر سچا پرخلوص اور دل پزیر ہے کہ آرٹ کی تمام تصنع آمیز بلند وبانگ تعریفیں اور اس کے ادلتے بدلتے پُر پیچ معیارات بمشکل اس کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ یہی اس کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ہے۔

رحمان بابا کے کلام کی مقبولیت اور ان کے سچے پیغام کا یہ عالم ہے کہ پشتو کے علاوہ اسے دیگر زبانوں اردو،فارسی اور انگریزی زبان کے ہزاروں لوگ پڑھنا پسند کرتے ہیں،جس کے لیے ان کے مکمل دیوان کے ان زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں ۔ان کی شاعری کا اصل پیغام جملہ انسانیت سے پیار،امن و اشتی،قومی اور مذہبی رواداری اور باہمی اتفاق و یکجہتی پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ ناانصافی،غیرمساوی تقسیم اور ظلم و جبر کے سخت ناقد ہیں اور ان قوتوں کے شیدید مخالف ہیں۔لہذا بغیر کسی تردید کے کہا جاسکتا ہے کہ رحمان بابا ہمارے ماضی کا امین اور مستقبل کے ایک سچے رہبر و رہنما ہیں۔ذیل میں ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے

۔آدمی سے تمام تر مدعا آدمیت ہے نہ یہ کہ اس کے سر پر طرہ ہو۔آدم زاد معنوی طور پر سب ایک صورت کی مانند ہیں جو دوسرے کو آزار پہنچاتا ہے وہ خود بھی آزار ہوجاتا ہے۔

۔تم جن لوگوں کے برابر زور اور قوت نہیں رکھتے ان کے پہلو میں دلیر ہوکر نہ بیٹھ۔زورآور لوگ آگ اور پانی کی مانند ہوا کرتے ہیں یہ بات سمجھ لیں اور دھیان رکھیں کہ کہیں ڈوب یا جل بھن کر کباب نہ ہو جائیں۔

۔میری قناعت میرے خرقے کے اندر پنہاں اطلس ہے۔ میں باطن میں سارے جہاں کا بادشاہ لیکن بظاہر گدا نظر آرہا ہوں۔

۔وہ دل طوفان اور بادوباران سے محفوط رہے گا جو کشتی کی طرح لوگوں کا بار اٹھائے گا۔اپنا پیٹ رسی سے مضبوط باندھ لے مگر فلک سے روٹی کی امید اور توقع نہ رکھ۔

۔اپنی زندہ جان بیچ کی طرح زمین میں دفن کردے اگر تو عظمت چاہتا ہو تو خاکساری اختیار کر۔

۔ سارے وسوسے اور واہمے اختیاط سے پیدا ہوتے ہیں، میں بہت زیادہ ہوشیاری کے سبب دیوانہ ہوگیا ہوں۔

۔ظالم حاکموں کے سبب شہر پشاور آگ اور گورستان تینوں ایک جیسے ہیں۔

۔جو پرندہ صیاد کے پنجرے میں اسیر ہو اس میں اچھے اچھے کھانے پینے سے خون کب بنتا ہے۔

۔سارا وجود ایک ناخن کے درد سے درمند ہوجاتا ہے۔پورا شہر ایک آدمی کے الزام میں ویران ہوجاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈارک چاکلیٹ یادداشت بہتر بنانے اور ذہنی دباؤ کم کرنے میں معاون: تحقیق
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
  • زمین اور گھر خریدنے و بیچنے والوں سے بھتہ طلب کرنے والے لیاری گینگ کے 3 کارندے گرفتار
  • اسلام آباد: ٹریفک پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار
  • شاہ محمود قریشی سے پارٹی رہنماوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی