"عمیر صاحب، ہم کراچی میں ہیں۔ پیر کو دن 11 بجے چلے آئیے۔ پھر گپ لگائیں گے۔”

رضی صاحب کا فون پر حکم تھا۔ میں نے سوال کیا کہ کب پہنچے؟ انہوں نے بتایا ایک مہینہ ہونے کو آ رہا ہے اور دو دن بعد اسلام آباد روانگی ہے۔ میں نے مصنوعی ناراضی کا اظہار کیا کہ اتنی دیر سے کیوں بتا رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ بس آتے ہی بیمار پڑ گیا تھا۔

وقتِ مقررہ پر ہمارے کولیگ تنزیل اور میں ان سے ملنے پہنچ گئے۔ وہ اپنے بھتیجے کے ہاں مقیم تھے۔ رضی صاحب نے صوفے سے اٹھ کر گلے لگایا۔ دیکھنے میں کم زور تو لگے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ اس ملاقات کے محض 15 دن بعد ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر ملے گی۔

بہت دیر گپ شپ ہوئی۔ زیادہ تر وقت کراچی کی ‘بربادی’ پر تاسف کا اظہار اور پرانے کراچی کو یاد کرتے رہے۔ ملازم نے انہیں آ کر اطلاع دی کہ دوسرے مہمان انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے نظر انداز کر دیا اور باتوں میں لگے رہے۔ کہنے لگے اسلام آباد میں بھی ایک ماہ قیام ہے لیکن جانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ اب گھر یاد آ رہا ہے۔

میں نے یاد دلایا کہ مہمان انتظار کر رہے ہیں تو اسے بھی نظر انداز کر گئے۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو بمشکل صوفے سے اٹھے۔ میں نے کہا تسنیم آپا (ان کی اہلیہ) کو بھی سلام کرتے چلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پائیں باغ میں آئے اور جب ہم نے سلام دعا کے بعد اجازت چاہی تو انہوں نے کہا ابھی کہاں، بیٹھیے۔ اور ملازم کو کرسیاں لانے کا اشارہ کیا۔ ہم پھر بیٹھ گئے اور وہ مہمانوں سے سلام دعا کے بعد پھر ہم سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔


رضی احمد رضوی صاحب سے میرا پہلا تعارف فون پر ہوا تھا۔ سن 2010 میں کراچی میں میری ہائرنگ کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے ریڈیو کے اسائنمنٹ ملنے لگے تو ریڈیو سروس کے دیگر سینئرز کے ساتھ ساتھ ان سے بھی فون پر بات ہونے لگی۔

وہ ریڈیو سروس کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور 2022 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ذمے داری پر رہے۔ وہ فون پر بہت محتاط اور لیے دیے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ لیکن لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ سمجھانے یا کسی غلطی کی تصحیح کرنے کے لیے ہی فون کرتے تھے۔

سال 2016 میں وائس آف امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر دفتر میں ایک سال کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں پہنچتے ہی رضی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ اندازہ ہوا کہ اپنی محتاط اور کم گو طبیعت کے باوجود وہ ایک ہم درد اور بہت محبت کرنے والے شخص ہیں۔ جلد ہی ان کی طرف سے کافی پینے کی دعوت ملنے لگی۔ وہ دن میں کم از کم ایک بار دفتر کے سامنے موجود مک ڈونلڈز سے کافی لینے جاتے تھے۔ وہاں سینئر سٹیزنز کو کافی 50 سینٹ کی ملتی تھی۔ وہ کافی لینے جانے کا کہنے جب بھی میری ڈیسک پر آتے، جعفری صاحب آواز لگاتے، "ہاں بھئی، آٹھ آنے کی کافی پلانے لے جا رہے ہو۔”

رضی صاحب کا آبائی تعلق متحدہ ہندوستان کے صوبے بہار کے تاریخی شہر گیا سے تھا۔ روایت ہے کہ مہاتما بودھ کو نروان اسی علاقے میں ملا تھا۔ شاید اس سرزمین کا ہی اثر تھا کہ رضی صاحب انتہائی صلح جو طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں کبھی کسی سے الجھتے یا اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔

ان کی ابتدائی زندگی مشرقی پاکستان میں گزری۔ بنگال کی محبت ان میں رچی بسی تھی اور وہ اسے ہمیشہ محبت سے یاد کرتے تھے۔ شاید اسی محبت کی وجہ سے وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے سینئر صحافیوں سے ان کی اچھی دوستی تھی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد رضی صاحب نے ڈھاکہ میں پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 1967 میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ذیلی ادارہ ایشین ٹیلی ویژن سروس جوائن کیا۔ سال 1970 میں انہوں نے پی ٹی وی کے کراچی سینٹر میں سینئر نیوز پروڈیوسر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ خود ان کے بقول وہ محض ڈیڑھ سال کراچی میں رہے اور اس دوران ان کا قیام نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں اپنے بڑے بھائی کے گھر ہوتا تھا۔ لیکن وہ اپنی آخری عمر تک اس دور کے کراچی کو یاد کرتے تھے۔

اپریل 1972 میں راولپنڈی اسلام آباد سینٹر میں نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پی ٹی وی میں وہ کنٹرولر نیوز سمیت کئی اہم ذمے داریوں پر رہے۔ رضی صاحب جولائی 1985 میں وائس آف آمریکہ کی اردو سروس سے منسلک ہو کر واشنگٹن ڈی سی آ گئے تھے جہاں وہ 37 برس کی طویل سروس کے بعد 2022 میں ریٹائر ہوئے۔

اپنا تقریباً پورا صحافتی کریئر ان دو سرکاری اداروں میں گزارنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں ایک ٹھیراؤ اور احتیاط پیدا ہو گئی تھی جسے صرف سرکاری نشریاتی اداروں کے مزاج آشنا صحافی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست کے کئی اہم ترین واقعات کے عینی شاہد تھے۔ رضی صاحب نے اس دور کے تمام بڑے سیاست دانوں اور شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔

مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو کا مشہور جملہ "شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا” کے مخاطب رضی صاحب ہی تھے جو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے والے بھٹو کے انٹرویو کے لیے پی ٹی وی کے نمائندے کے طور پر ایئرپورٹ کے ٹارمک پر کھڑے تھے۔ وہ ایسے کئی واقعات نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں سنایا کرتے تھے۔ لیکن انہیں کبھی قلم بند کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی کہ وہ اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں یا کم از کم مجھے ڈکٹیٹ کرادیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔

اگر کبھی خالد حمید صاحب اور رضی صاحب کو فرصت سے مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو پی ٹی وی کے آغاز اور اس کے ابتدائی برسوں کی یادوں اور دلچسپ واقعات کی پٹاری کھل جاتی۔ رضی صاحب ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے مضافات میں ہونے والی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ وائس آف امریکہ سے ریٹائر ہوجانے والے اپنے کولیگز سے مستقل رابطے میں رہتے اور جب پاکستان آتے، پی ٹی وی کے اپنے دور کے ساتھیوں سے ضرور ملتے۔

رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔ اپنے خاندان کے بہت قریب تھے اور اس لیے ہر کچھ عرصے بعد اپنے احباب سے ملنے پاکستان ضرور آتے۔ بیرونِ ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کی طرح صرف ملک کے حالات پر کڑھتے ہی نہیں تھے بلکہ کئی فلاحی اداروں اور مشکل میں گھرے واقف کاروں کی خاموشی سے دادرسی کیا کرتے تھے۔

سروس میں ان سے سب سے زیادہ بے تکلف قمر عباس جعفری صاحب تھے۔ جعفری صاحب سروس کے واحد شخص تھے جو انہیں "یار رضی” کہہ کر پکارتے۔ باقی تمام لوگوں کے لیے وہ رضی صاحب تھے۔ جعفری صاحب ان پر آتے جاتے جملے کستے اور وہ جواباً صرف مسکراتے۔

میں جب ڈی سی پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سروس میں ان کی سب سے زیادہ دوستی اسد نذیر صاحب کے ساتھ تھی۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار رضی صاحب کے شیشے کے کمرے میں دونوں کی ایک نشست ضرور ہوتی تھی جس کے موضوعات کے بارے میں ہمارا اندازہ یہ تھا کہ دونوں حضرات اپنے باقی کولیگز کے متعلق اپنے نوٹس ایکسیچینج کرتے ہیں۔ ان دونوں صاحبان کی یہ دوستی اور رابطہ رضی صاحب کے آخری دنوں تک قائم رہا۔

سروس میں پے در پے آنے والی انتظامی تبدیلیوں اور بدلتے حالات کی وجہ سے ملازمت کے بڑھتے تقاضوں کے باعث رضی صاحب نے کووڈ سے قبل ہی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ ان سے جب فون پر بات ہوتی، وہ یہی کہتے کہ بس اب وقت آ گیا ہے۔ لیکن اسد صاحب کہتے ہیں کہ بیٹھے رہیے۔ اب تو پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ پھر جب کووڈ کے دوران ریڈیو سروس بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو رضی صاحب نے ریٹائرمنٹ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔

دراز قامت رضی صاحب خوش لباس آدمی تھے۔ دفتر ہمیشہ فل سوٹ میں خود ڈرائیو کر کے آتے۔ صبح 10 بجے دفتر پہنچتے اور شام چھ بجے کے بعد گھر روانہ ہوتے۔ اردو سروس کے بیشتر ساتھیوں کی چھٹی پانچ بجے تک ہوجاتی تھی۔ پانچ بجے کے بعد دفتر میں رضی صاحب، خلیل بگھیو صاحب اور خاکسار ہی بچتے تھے۔ عموماً وہ اپنا کام ختم کرچکے ہوتے تو ان سے گپ شپ ہوتی۔ کبھی کبھار وہ نیشنل مال پر واک کے لیے جاتے تو میں ساتھ ہو لیتا اور اس دوران ان سے کرید کرید کر ان کے کریئر کے دلچسپ واقعات سنتا۔ بعض اوقات ہمارے ساتھ ہمارے ریڈیو کے آنجہانی کولیگ انجم ہیرلڈ گِل بھی ہوتے جنہیں اکثر اپنے ورکنگ آورز پورے کرنے کے لیے چھٹی کے بعد بھی دفتر میں بیٹھنا پڑتا تھا۔

گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر اٹھتے اٹھتے رضی صاحب نے کہا تھا کہ بھئی اب رابطے میں رہیے گا۔ کم از کم میسجز پر تو حال احوال ہوتے رہنا چاہیے۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مستقل رابطہ رہے گا۔ ملاقات کے دوران تسنیم آپا نے میری اور تنزیل کی ان کے ساتھ تصویر کھینچی تو رضی صاحب نے کہا کہ یہ اسد نذیر صاحب کو بھیج دیجیے گا۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ تصویر اسد صاحب کو واٹس ایپ کر دی۔ ان کا جواب آیا: "رضی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ ان کو خوش و خرم دیکھ کر خوشی ہوئی، اب ان کو وہیں روک لو۔”

اسد صاحب! ہم نے رضی صاحب کو یہیں روک لیا ہے۔ اب وہ سدا اسی مٹی میں رہیں گے جس کی مہک سات سمندر پار سے انہیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پی ٹی وی کے کراچی میں انہوں نے کرتے تھے سروس کے کے ساتھ وائس آف صاحب کو اور اس کے لیے فون پر کے بعد تھا کہ نے کہا

پڑھیں:

سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کردی

—فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کر دی۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف نیب انکوائری کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے نیب انکوائری کے خلاف سندھ پبلک سروس کمیشن کی درخواست منظور کر لی۔

جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، نیب امتحانات سے متعلق انکوائری نہیں کر سکتا ہے، نیب کو اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات میں بھی کرپشن ثابت کرنا ہوگی۔

دوران سماعت جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کے خلاف شکایت کرتا ہے تو نیب کیا پورے پاکستان کے خلاف تحقیقات شروع کردے گا،  قانون کے مطابق امتحانات کی مارک شیٹس کو تحفظ حاصل ہے نیب جانچ پڑتال نہیں کر سکتا۔

نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب وزیراعظم کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ قانون کے مطابق وزیر اعظم اور صدر پاکستان کو قانون تحفظ دیتا ہے۔

عدالت کی جانب سے تفتیشی افسر سے سوال کیا گیا کہ 6 سال میں نیب نے ملزمان کے خلاف کیا مواد اکٹھا کیا ہے؟

تفتیشی افسر نے بتایا کہ مجھے جنوری 2025ء میں انکوائری ملی ہے، وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں وقت لگتا ہے، ملزمان کو تحقیقات کے لیے نوٹس بھیجا تو وہ عدالت آگئے۔

جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ سپریم کورٹ ملزمان کے خلاف انکوائری بند کر چکی ہے، نیب تحقیقات نہیں کرسکتا۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا 10، 10 سال کیس کی تحقیقات میں لگ جائیں۔ 

تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب کے ایک ایک تفتیشی افسر کے پاس 20،  20 انکوائریاں ہیں، تحقیقات میں وقت لگتا ہے۔

جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ جس نے سندھ پبلک سروس کمیشن افسران کے خلاف شکایت کی اس کے نہ تو شناختی کارڈ کی کاپی لی نہ حلف نامہ لیا۔ 

واضح رہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن و دیگرنے نیب انکوائری کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ اور او آئی سی میں تعاون کو مزید مضبوط بنایا جائے، پاکستان کی تجویز
  • سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کردی
  • کوریئر سروس کا نمائندہ بن کر شہریوں سے دھوکا دہی، پی ٹی اے نے خبردار کر دیا
  • انسداد دہشتگردی میں پاکستان کے کلیدی کردار کی دنیا معترف
  • 16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟
  • کراچی: حاضر سروس ڈی آئی جی نے فوڈ اسٹال کیوں لگا لیا؟
  • متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرینگے، کسی جگہ پر قبضہ ہونا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی ناکامی: مریم نواز
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان
  • عمران خان کے بیٹے امریکہ میں سرگرم، رچرڈ گرینل سے ملاقات – والد کی رہائی کا مطالبہ
  • میرے پاس تم ہو، کونسی فلم سے کاپی کر کے بنایا گیا؟ سید نور کا انکشاف