کثیر الفریقی نظام کیا ہے اور ہماری دنیا کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
کثیر الفریقی طریقہ کار کی اصطلاح ہے اقوام متحدہ میں تواتر سے استعمال ہوتی ہے لیکن یہ تصور محض دفاتر کی راہداریوں اور کانفرنس ہال جیسی جگہوں سے مخصوص نہیں جہاں بین الاقوامی سفارت کاری ہوتی ہے بلکہ یہ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی کئی طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا لڑکیوں کے ختنوں کی ظالمانہ رسم کیخلاف مہم تیز کرنے پر زور
اس سے تنازعات میں کمی لانے، معیشتوں کو ترقی دینے اور دنیا بھر میں محفوظ سفر یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت جیسے عالمگیر مسائل پر قابو پانے میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔
کثیرالفریقی طریقہ کار کا مطلب کیا ہے؟کثیرالفریقی، کثیرالجہت یا کثیر الاطراف بنیادی طور پر جیومیٹری کی اصطلاح ہے جس کا لفظی مطلب ‘کئی سمتیں’ ہے۔ اب یہ بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری کے حوالے سے بھی استعمال ہوتی ہے جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور اہداف کے حامل بہت سے ممالک کسی مسئلے پر اکٹھے کام کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا نظام بنیادی کثیرفریقی فورم ہے جہاں رکن ممالک عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے اور اہم مسائل پر قابو پانے کے لیے اجلاس، کانفرنسوں اور ملاقاتوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
تعاون، سمجھوتہ اور ارتباطبین الاقوامی تعلقات میں رکن ممالک کا ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنا تعاون، معاہدے کرنا سمجھوتہ اور اپنی کوششوں کو منظم کرنا ارتباط کہلاتا ہے جن پر کوئی ایک ملک اکیلا قابو نہیں پا سکتا۔
یہ تینوں چیزیں اعتماد کی بحالی اور تنازعات کے پرامن حل نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔
جدید دنیا کی تشکیلذرا تصور کیجیے کہ اگر کوئی ایک ملک ٹیلی فون کے ذریعے رابطوں، فضائی سفر، ترسیلات یا ڈاک کا اپنا الگ نظام وضع کر لے اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر نہ چلے تو کیا ہو گا۔ ایسے میں بین الاقوامی سفر، رابطوں اور تجارت کی صورتحال ابتر ہو جائے گی۔ کثیرفریقی طریقہ کار کی بدولت ہمارے پاس ایسے بین الاقوامی نظام موجود ہیں جو ان تمام کاموں کو ممکن بناتے ہیں۔
دنیا نے صحت سے لےکر ڈاک کے نظام اور سفر تک اپنی بہت سی روزمرہ سرگرمیوں کے حوالے سے عالمگیر ضابطے بنا رکھے ہیں اور بہت سے کثیرفریقی ادارے تخلیق کر رکھے ہیں جن میں بعض 19ویں صدی میں بنائے گئے تھے جو اب اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ کی تخلیق سے قبل قائم کردہ دو کثیرفریقی ادارےبین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو): اس ادارے کو ٹیلی گراف کا نظام باضابطہ بنانے کے لیے 1865 میں قائم کیا گیا تھا۔ اب یہ ریڈیو کی فریکوئنسی، مصنوعی سیاروں اور انٹرنیٹ کے انتظام میں مدد دیتا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او): اس ادارے کو 1919 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دینا، باوقار روزگار کے مواقع بڑھانا، سماجی تحفظ میں اضافہ کرنا اور کام سے متعلق مسائل پر بات چیت کو بہتر بنانا ہے۔
کثیرفریقی پالیسیوں کی تشکیلاقوام متحدہ نے اپنے قیام (1945) سے ہی رکن ممالک کو اکٹھا ہونے اور اہم معاہدے تخلیق کرنے میں مدد دی ہے۔
جنرل اسمبلی پالیسی سازی کےحوالے سے ادارے کا مرکزی شعبہ اور بین الاقوامی مسائل پر کثیرفریقی بات چیت کے لیے مخصوص فورم ہے۔
معیشت کے حجم، آبادی یا عسکری طاقت سے قطع نظر اس کے 193 رکن ممالک میں سبھی کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ بہت کم آبادی والے یورپی ملک موناکو کا ووٹ بہت بڑی آبادی والے چین کے ووٹ کے برابر ہے۔
اقوام متحدہ کی کامیابیاںضابطے طے کرنا کثیرفریقی طریقہ کار کی ایک اور خصوصیت ہے۔ یہ کردار جنرل اسمبلی کا ہے جس نے تخفیف اسلحہ، انسانی حقوق اور تحفظ ماحول پر بہت سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدے تخلیق کیے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی تیاری اور منظوری اس کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے جس نے انسانی حقوق سے متعلق جامع مجموعہ ہائے قوانین کے لیے راہ ہموار کی۔ دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف قانونی اور ثقافتی پس منظر کے حامل نمائندوں کے تیار کردہ اس اعلامیے کو جنرل اسمبلی نے 1948 میں منظور کیا تھا۔
اس کے ذریعے پہلی مرتبہ بنیادی انسانی حقوق کو بین الاقوامی تحفظ حاصل ہوا اور بہت سے نو آزاد ممالک اور جمہوریتوں کے آئین نے اسی سے تحریک پائی۔
سرد جنگ1940 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کے عشرے کے آغاز تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران اقوام متحدہ نے قیام امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جوہری جنگ کے خطرے کے باوجود تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی جانب سے بات چیت اور فیصلہ سازی کا پلیٹ فارم مہیا ہونے کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔
اقوام متحدہ اور آج کی دنیاتقریباً 80 برس کے بعد آج بھی اقوام متحدہ دنیا میں کثیرفریقی طریقہ کار کے حوالے سے بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے جو قیام امن سے لے کر معاشی ترقی اور تجارت تک بہت سے میدانوں میں بین الاقوامی کو ہم آہنگ اور مربوط کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذریعے مہیا کی جانے والی انسانی امداد کی بدولت لاکھوں زندگیوں کو تحفظ ملا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا بھر میں آفات اور مسلح تنازعات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو خوراک، صحت کی سہولیات اور پناہ فراہم کرتا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندے، نوجوان، کاروبار اور دیگر طبقات اور شعبے بھی کثیرفریقی نظام کا حصہ ہیں۔
بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانترکن ممالک کو دور حاضر کے عالمگیر خطرات اور مسائل سے موثر طور پر نمٹنے میں عموماً مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں تباہ کن خانہ جنگی اور سرحد پار تنازع سے لے کر ممالک کے مابین اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت و موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل شامل ہیں۔
آنے والی دہائیوں میں اقوام متحدہ کو کثیرفریقی طریقہ کے لیے سب سے بڑے فورم کی حیثیت سے اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کے قابل بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے 2020 میں رکن ممالک نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مضبوط تر عالمگیر انتظام کا تصور پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔
مشترکہ ایجنڈااس طرح ‘ہمارا مشترکہ ایجنڈا’ تشکیل دیا گیا جس میں قیام امن سے لے کر بین الاقوامی مالیاتی نظام، تعلیم اور پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت جیسے شعبوں کے لیے اصلاحات تیار کی گئیں۔ ان میں اقوام متحدہ کو بہتر بنانا بھی شامل تھا اور اس کے نتیجے میں مستقبل کا معاہدہ سامنے آیا جسے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ سال ستمبر میں منظور کیا تھا۔
انرا کا عملہ اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر غزہ میں پولیو کے خلاف مہم کے دوران بچوں کو ویکسین کے قطرے پلا رہے ہیں۔
کثیرفریقی نظام سے مضبوط وابستگیاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ امن اور ترقی کے لیے محض قوانین اور معاہدے کافی نہیں ہوتے۔ دنیا کو قوانین پر مبنی نظام سے مضبوط وابستگی درکار ہے جس میں اقوام متحدہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
انہوں نے دیگر بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کے ساتھ ایک منظم کثیرفریقی نظام کی ضرورت پر زور دیا جو آزمائشوں پر پورا اترے اور ناصرف موجودہ بلکہ آئندہ مسائل اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے بین الاقوامی رکن ممالک طریقہ کار کرنے کے بہت سے کے لیے
پڑھیں:
دفعہ370 کی منسوخی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، حریت آزاد کشمیر
محمود احمد ساغر نے اسلام آباد میں ایک بیان میں کہا کہ 5 اگست 2019ء کو دفعہ370 اور 35-A کی منسوخی کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے رہنمائوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں سے 5 اگست کو بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات علاقے کی شناخت، علاقائی سالمیت اور اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت پر براہ راست حملہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سابق کنوینر محمود احمد ساغر نے اسلام آباد میں ایک بیان میں کہا کہ 5 اگست 2019ء کو دفعہ370 اور 35-A کی منسوخی کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو ایک بڑے نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ قراردیا جس کا مقصد آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے ذریعے مقامی آبادی کو اختیارات سے محروم کرنا، قوانین کو کمزور کرنا اور انتخابی حد بندی کی ازسر نو تشکیل کرنا تھا۔
محمود ساغر نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشمیریوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق چھیننے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ان کے حق خودارادیت کو کمزور کرنے کی کوشش بھی ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنی خاموشی ترک کرے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں استعماری پالیسیوں پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے ایک اور رہنما اور سابق کنوینر محمد فاروق رحمانی نے یوم استحصال کے سلسلے میں اپنے پیغام میں کہا کہ ریاستی دہشت گردی یا کالے قوانین کا نفاذ کشمیریوں کو آزادی اور حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد سے نہیں روک سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری 5 اگست کو یوم استحصال اور یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے۔ فاروق رحمانی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے ساتھ مقبوضہ علاقے کے غیر قانونی الحاق اور اس کی تقسیم کو مسترد کرتے ہیں اور آزادی اور اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنے عزم پر قائم ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی خاموشی ترک کریں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں۔
حریت رہنما شمیم شال نے دفعہ 370 کی منسوخی کو کشمیری عوام کے بنیادی حقوق، شہری آزادیوں اور آئینی ضمانتوں کے لیے ایک سنگین دھچکہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف قانونی دفعات پر نہیں بلکہ شہری آزادیوں پر بھی حملہ ہے جس میں اختلاف رائے کا حق، روابط قائم کرنے کا حق اور خوف کے بغیر زندگی گزارنے کا حق شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات نے انسانی حقوق کے سنگین بحران کو جنم دیا ہے اور 80 لاکھ سے زائد کشمیری اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ یکطرفہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں خاص طور پرقرارداد نمبر 122، 123 اور 126 کی خلاف ورزی ہیں جن میں کسی بھی فریق کو جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حریت رہنما شیخ عبدالمتین نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے کشمیریوں سمیت تمام فریقین کے درمیان مذاکرتی عمل میں سہولت فراہم کرے۔ حریت رہنمائوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور اپنی پرامن اور منصفانہ جدوجہد آزادی جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔