ٹرمپ کا دورہ جنوبی کوریا، شمالی کوریا کا ایٹمی صلاحیت رکھنے والے کروز میزائلوں کا تجربہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
ورکرز پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب صدر پک جونگ چون اس تجربے کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام ہماری رعب دار جنگی صلاحیت (Deterrence Power) کو وسعت دینے کا حصہ ہے، یہ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے جس کا مقصد اسٹریٹجک ہتھیاروں کی قابلِ اعتماد کارکردگی اور دشمن کے خلاف ان کی مؤثریت کا مسلسل جائزہ لینا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوبی کوریا کے دورے سے صرف ایک روز قبل شمالی کوریا نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایٹمی وارہیڈ لے جانے کے قابل کروز میزائلوں کی ایک نئی سیریز کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ شمالی کوریا کی سرکاری خبر ایجنسی KCNA نے بدھ کے روز بتایا کہ اس ملک کی مسلح افواج نے سمندر سے فائر کیے جانے والے اسٹریٹجک کروز میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تجربہ مغربی ساحل پر ایک نئے جنگی بحری جہاز سے کیا گیا، جسے پیونگ یانگ کی ایٹمی صلاحیت میں اضافے کا اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تجربہ دراصل بحری جنگی مشقوں کا حصہ تھا تاکہ نئے بحری جہازوں کے ہتھیاری نظام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ تجربہ بالکل ایک دن پہلے کیا گیا جب ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی کوریا میں منعقدہ ایپک اجلاس (29 تا 30 اکتوبر) میں شرکت کے لیے پہنچنے والے تھے۔ ٹرمپ اس سے قبل کِم جونگ اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر چکے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی کوریا کا یہ اقدام ایک سوچا سمجھا اور حساب شدہ سیاسی پیغام ہے، جس کا مقصد دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا اور اپنی فوجی طاقت کا اظہار کرنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کِم جونگ اُن نے خود اس تجربے کی نگرانی نہیں کی، اور سرکاری اخبارات جیسے رودونگ شِمون نے اسے اندرونی سطح پر نمایاں طور پر رپورٹ نہیں کیا۔ خبر ایجنسی KCNA کے مطابق میزائلوں کو بحری جہاز کے عرشے سے عمودی لانچنگ پیڈ کے ذریعے فائر کیا گیا۔ میزائلوں نے تقریباً 130 منٹ تک فضاء میں پہلے سے طے شدہ راستے پر پرواز کی۔ میزائلوں نے اپنے ہدف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنایا۔ البتہ ان کے تکنیکی تفصیلات مثلاً رینج وغیرہ ظاہر نہیں کی گئیں۔ شمالی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ میزائل تاکتیکی ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک کی ایٹمی قوت کی بنیاد مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
ورکرز پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب صدر پک جونگ چون اس تجربے کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام ہماری رعب دار جنگی صلاحیت (Deterrence Power) کو وسعت دینے کا حصہ ہے، یہ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے جس کا مقصد اسٹریٹجک ہتھیاروں کی قابلِ اعتماد کارکردگی اور دشمن کے خلاف ان کی مؤثریت کا مسلسل جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کو اپنی ایٹمی جنگی تیاریوں کو مسلسل مضبوط کرتے رہنے اور اپنی بحری افواج کی جنگی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ تجربہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ شمالی کوریا اپنی ایٹمی قوت کو سفارتی اور عسکری توازن کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے دورۂ جنوبی کوریا سے عین پہلے یہ اقدام پیونگ یانگ کی جانب سے ایک سیاسی انتباہ ہے کہ وہ اب بھی خطے میں طاقت کے کھیل کا فیصلہ کن فریق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنوبی کوریا شمالی کوریا انہوں نے یہ اقدام یہ تجربہ
پڑھیں:
بھارت کی تیزی سے ابھرتی جنگی ٹیکنالوجی: خطے کا بدلتا توازن؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-4
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
جنوبی ایشیا میں دفاعی حکمت ِ عملی اور طاقت کے توازن پر حالیہ برسوں میں کئی عوامل نے اثر ڈالا ہے، مگر لندن کے معتبر جریدے اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی جنگی ٹیکنالوجی کی صنعت نے ایک غیر معمولی رفتار سے ترقی دکھائی ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ چار روزہ فضائی و میزائل کشیدگی نے اس پورے منظرنامے کو غیر مبہم انداز میں سامنے رکھ دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ خطے میں اب جنگ کا تصور صرف عسکری قوت نہیں بلکہ تکنیکی مہارت، صنعتی رفتار، ڈیجیٹل جنگی صلاحیت اور جدید تحقیق کے امتزاج سے جڑے گا۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت کی دفاعی صنعت اس مختصر مگر شدید تصادم کے بعد ایک نئی جہت میں داخل ہو گئی ہے۔ فضائی دفاع کے نظام، ڈرون ٹیکنالوجی، الیکٹرونک وارفیئر اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبے، جو چند سال پہلے تک بھارت کے دفاعی ڈھانچے کے ذیلی حصے سمجھے جاتے تھے، آج سرمایہ کاری، حکومتی ترجیحات اور عالمی ہتھیار ساز کمپنیوں کی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر بنگلور کے اسٹارٹ اپس، جنہوں نے جنگ کے دوران تکنیکی معاونت فراہم کی، اب سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ترین انتخاب بن چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چار روزہ تصادم میں بھارت کا فضائی دفاع ڈرون حملوں کے غیر متوقع دباؤ کے سامنے ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ درجنوں کی تعداد میں سستے ڈرونز نے نہ صرف اس کے سنسرز اور انٹرسیپٹرز پر دباؤ بڑھایا بلکہ اس کے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب بھی کیا۔ کم لاگت والے ڈرونز کے جواب میں قیمتی انٹرسیپٹر میزائلز کا استعمال نہ صرف اقتصادی طور پر نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ حکمت ِ عملی کے لحاظ سے بھی غیر مؤثر رہا۔ یہ وہ خامی ہے جس نے بھارت کو مجبور کیا کہ وہ کشیدگی کے فوراً بعد 5 ارب ڈالر کی ایمرجنسی جنگی خریداری کا فیصلہ کرے ایک ایسا بڑا قدم جس کا مقصد میزائلوں، گولہ بارود اور دفاعی ذخائر کی فوری بحالی ہے۔ یہ پہلو بھی قابل ِ توجہ ہے کہ بھارتی فضائی دفاع جدید میزائلوں کی تکنیکی صلاحیت کے باوجود جعلی اہداف (decoys) سے الجھ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ٹیکنالوجی خواہ کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو، اگر ڈیجیٹل جنگی ماحول میں مصنوعی ذہانت اور ریئل ٹائم ڈیٹا فِلٹریشن مضبوط نہ ہو تو ہائی ٹیک دفاعی نظام بھی غلط سمت میں گولی چلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اب باتھموی AI-assisted air defence systems کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاکہ کوئی بھی سسٹم حقیقی اور جعلی اہداف میں فوری فرق کر سکے۔
بنگلور کے اسٹارٹ اپس نے بھی اس پورے واقعے کے بعد غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔ جنگ کے دوران کئی نجی کمپنیوں نے سافٹ ویئر، رئیل ٹائم ڈیٹا اینالیسز، ڈرون آپریشنز اور الیکٹرونک وارفیئر میں تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔ اب انہی کمپنیوں پر سرمایہ کاری کی بارش ہو رہی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو بھارت کے دفاعی شعبے پر نجی ٹیکنالوجی انڈسٹری کی گرفت مزید مضبوط کرے گی۔ دفاعی خود کفالت کے حکومتی پروگرام (جیسے Make in India اور Atmanirbhar Bharat) بھی اسی سمت قدم بڑھا رہے ہیں، جس سے مقامی صنعت کو ایک مضبوط بنیاد مل رہی ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے نہ صرف ابھرتی ٹیکنالوجی بلکہ کلاسیکی دفاعی سامگری (missile stockpile, artillery rounds اور radar upgrades) میں بھی فوری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس ہنگامی فیصلے نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت مستقبل میں اس طرح کی کسی بھی کشیدگی کے لیے مکمل تیاری چاہتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی اسلحہ دوڑ اور تزویراتی ماحول پر پڑنا یقینی ہے۔
اگر مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی دفاعی صنعت کی تیز رفتار ترقی کئی سطحوں پر اثر ڈال رہی ہے۔ ایک طرف مقامی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو عالمی ساکھ مل رہی ہے، نجی اسٹارٹ اپس کو سرمایہ کار مل رہے ہیں، اور تحقیق و ترقی کے میدان میں نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ ترقی خطے میں عدم توازن کو بھی بڑھا رہی ہے، خصوصاً اس وقت جب کم لاگت والے ڈرون سوارمز، اے آئی اور الیکٹرونک وارفیئر جیسے ہتھیار جنگ کے تصور کو بدل رہے ہوں۔ اس پورے منظرنامے سے سب سے اہم سبق یہ سامنے آتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں وسائل کے حجم سے زیادہ ٹیکنالوجی، رفتار، ڈیٹا اور خودکار دفاعی نظاموں کی بنیاد پر لڑی جائیں گی۔ بھارت اس دوڑ میں بے شک تیزی دکھا رہا ہے، لیکن اس نے اپنی کئی کمزوریاں بھی کھلی چھوڑی ہیں جن میں فضائی دفاع کی کمزور electronic discrimination، مہنگے انٹرسیپٹرز پر انحصار، ڈیجیٹل جنگی ماحول میں اے آئی کا محدود کردار، اور decoys کے سامنے سسٹم کی کنفیوژن شامل ہیں۔
اکانومسٹ کی رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دفاعی طاقت صرف روایتی ہتھیاروں کی نہیں بلکہ اس پوری تکنیکی دنیا کی کشمکش ہے جہاں ڈرونز، سنسرز، الگورتھمز، ڈیٹا سسٹمز، اور خودکار میزائل پلیٹ فارمز ایک نئی جنگی ترتیب لکھ رہے ہیں۔ بھارت کی تیز رفتار پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستیں اب اس مقابلے کو محض عسکری نہیں بلکہ صنعتی، تکنیکی اور معاشی جنگ سمجھ کر آگے بڑھا رہی ہیں۔ ایک ہزار میل دور بیٹھے عالمی سرمایہ کار، جنوبی ایشیا کے یہ بدلتے حالات دیکھتے ہوئے صاف سمجھ رہے ہیں کہ نئی عالمی اسلحہ منڈی کا مرکز اب صرف بڑے ممالک نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے چلنے والے خطے بننے جا رہے ہیں اور بھارت اسی ابھرتے منظرنامے کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔