26ویں آئینی ترمیم ، پیکا ایکٹ سے انسانی حقوق ختم کر دیے گئے ، یاسمین راشد کا چیف جسٹس کوایک اور خط
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
میری 75سال عمر ہے ، میں 22ماہ سے جیل میں ہوں، میں نے نواز شریف کے خلاف الیکشن لڑا
میرے بنیادی حقوق مکمل طور پر سلب ہوچکے ہیں تاہم بطور مسلمان میں ہمت نہیں ہاروں گی، خط
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اورخط لکھ دیا جس میں کہا گیا کہ 3سال سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔تفصیلات کے مطابق یاسمین راشد کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے دوسرے خط میں کہا گیا کہ یہ میرا چیف جسٹس کو دوسرا خط ہے ، اب تک مجھے پہلے خط کا جواب بھی نہیں ملا۔خط میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس ہمارے گھروں میں بغیر وارنٹ کے داخل ہوئی، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ، لوگوں کو تحریک انصاف چھڑوانے کے لیے جیل میں رکھا گیا ہے جب کہ عمران خان کو دبانے کے لیے ان کی اہلیہ بشری بی بی کو پھر جیل میں بند کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میری 75 سال عمر ہے اور میں 22 ماہ سے جیل میں ہوں، میں نے نواز شریف کے خلاف الیکشن لڑا اور فارم 45 کے تحت کامیاب ہوئی لیکن مجھے ہرادیا گیا میں نے الیکشن ٹریبونل میں کیس دائرکیا جس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ سے انسانی حقوق ختم کر دیے گئے ہیں، میرے بنیادی حقوق مکمل طور پر سلب ہوچکے ہیں تاہم بطور مسلمان میں ہمت نہیں ہاروں گی، انصاف کے دروازوں پر دستخط دیتی رہوں گی۔خط میں پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کو بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے ، خواتین اپنے حقوق کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں۔واضح رہے کہ جیل میں قید یاسمین راشد نے پہلا خط 13مئی 2024کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی بہت سی خواتین کارکنان اب بھی بغیر کسی مقدمے اور ضمانت کے بنیادی حق کے جیل میں بند ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: یاسمین راشد چیف جسٹس جیل میں تھا کہ
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟
پاکستان میں خواتین کو وراثت میں ان کے جائز شرعی اور قانونی حق سے محروم رکھنا بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جہاں پر خواتین وراثت میں اپنے جائز حصے کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر کھانے پر مجبور ہیں۔
2021 میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا، بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر خواتین اپنی زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں “ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفیکیٹ” کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
پنجاب حکومت نے وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے کی ادائیگی ہر صورت لازم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خواتین کے وراثتی حقوق کے نفاذ کا بل 2025 مسلم لیگ ن کی خاتون ایم پی اے اسما احتشام کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم کرنا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے۔
بل کے متن کے مطابق کسی بھی خاتون کو شریعت کے مطابق وراثتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو محتسب مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جہاں متاثرہ خواتین اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔
مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت کا بڑا فیصلہ، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیراسلامی قرار
محتسب کو بل کے تحت نہ صرف زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے کا اختیار حاصل ہو گا بلکہ وہ قانونی کارروائی سمیت ضرورت پڑنے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کرسکےگا۔
مزید برآں، بل کے مطابق فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرائض انجام دیں گے۔
بل میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، کسی خاتون شہری کے حقِ وراثت تلف کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر یہی جرم دوبارہ کیا جائے تو سزا 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم
خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی مہم بھی بل کا حصہ ہو گی، جس کے تحت اسکولوں، مدارس اور خطبات میں وراثت سے متعلق شریعت کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔
بل کی منظوری کے بعد حکومت کو 90 دن کے اندر متعلقہ قانون سازی کرنا ہوگی، فی الحال بل کو قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی، رپورٹ کی منظوری کے بعد بل کو رائے شماری کے ذریعے ایوان سے منظور کرایا جائے گا، جس کے بعد گورنر پنجاب اس کی حتمی منظوری دیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ قانون خواتین کے لیے ایک مضبوط قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور ان کے وراثتی حقوق کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسما احتشام خواتین سپریم کورٹ فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل وراثت وراثتی حقوق