ڈمپر مافیا نے اس وقت پورے شہر میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اب تک سو کے قریب شہری ڈمپر مافیا کی بد احتیاطی یا من مانی کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ شہر میں ہیوی ٹریفک خصوصاً ڈمپر مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ آئے دن لوگوں کو کچل کر ہلاک کر رہے ہیں ایسے میں اگر لوگ ڈمپروں کو جلا رہے ہیں تو انھیں کیسے روکا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک فطری ردعمل ہے۔
اس سے قبل مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد بھی ڈمپرز کے شہریوں کو بلا روک ٹوک ہلاک کرنے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے ان کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دے کر انھیں گرفتار کر لیا ہے۔
فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں آفاق احمد کی گرفتاری پر سوال اٹھائے اور انھیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت چاہے تو انھیں بھی گرفتار کر لے۔ شہریوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کرنے والے ڈمپروں کو جلانے کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک لوگوں کی جانیں جاتی رہیں گی، اس سلسلے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے جب کراچی میں ہیوی ٹریفک کے لیے رات گیارہ بجے سے صبح6 بجے تک کا ٹائم مختص کر دیا گیا ہے تو وہ دن کے اوقات میں کیوں رواں دواں رہتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ انھوں نے حکومتی اور عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ ڈمپروں کے ذریعے روز ہی ہونے والی ہلاکتوں سے ایک تو مرنے والے کا غم پھر اس کے لواحقین کا غم کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوگی؟
ٹریفک قوانین سے انحراف سراسر تعزیراتی اور معاشرتی جرم ہے۔ آخر ان ڈمپروں اور پانی کے ٹینکرز کے پیچھے کون ہے جو ان کی ہمت افزائی کر رہا ہے کہ وہ قانون تک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں؟ کیا یہ ڈمپرز اور ٹینکرز کے ڈرائیورز اپنے مالکان کے حکم پر قانون کی حکم عدولی کر رہے ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے بااثر لوگ ہیں جن کے آگے قانون بھی کوئی چیز نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہماری پولیس انھیں کیوں روک نہیں پا رہی ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ لگتا ہے ڈمپر اور ٹینکر مافیا کو جن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے، پولیس ان کے آگے لاچار اور مجبور ہے، وہ ان کے خلاف کارروائی تو کیا آواز بھی نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہی صورت حال ہے تو پھر حالات کیسے درست ہوں گے اور شہریوں کی جانوں کو کیسے محفوظ بنایا جاسکے گا؟
شہر میں اس وقت دوسرا بڑا مسئلہ غیر قانونی اسلحے کی ریل پیل کا ہے۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے جس کی وجہ سے شہر میں دہشت گردی، چوریاں، ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں۔ بدقسمتی سے شہر میں غیر قانونی اسلحے کی فراوانی کی وجہ اسلحہ لائسنس کے اجرا میں بے قاعدگیوں کا عمل دخل ہے۔ اسلحہ لائسنس تصدیق اور اسلحے کی دکانوں پر اسلحے کی خرید و فروخت کی انوینٹری کے ریکارڈ میں مافیا کی جانب سے مداخلت جاری ہے۔
دوسرے صوبوں سے بننے والے لائسنسوں کی سندھ کے متعلقہ ڈی سی آفسوں میں تصدیق کے بغیر ہی ان کا اجرا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لائسنس سے متعلق تمام ڈیٹا ڈیجیٹلائز نہیں کیا گیا ہے پھر متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے کا بھی فقدان ہے۔
اسلحہ ڈیلرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انوینٹری کا ریکارڈ رکھے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسلحہ تیار کرنے والے اداروں تک پہنچایا جاسکے۔ کراچی میں غیر رجسٹرڈ اسلحے کی فراوانی کی وجہ سے ہی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔
حال ہی میں مصطفیٰ عامر نامی نوجوان کے قتل نے غیر قانونی اسلحے کے مسئلے کو اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ مصطفیٰ عامر کو اس کے دوست ارمغان نے نیو ایئر نائٹ کو کسی مسئلے پر جھگڑا ہونے کے بعد اسے اپنے بنگلے پر بلا کر قتل کر دیا پھر حب بلوچستان میں جا کر اس کی لاش کو اس کی ہی گاڑی میں رکھ کر آگ لگا دی۔
اس دل خراش واقعے کے پیش آنے کے بعد پولیس نے شواہد ملنے پر ارمغان کے بنگلے پر چھاپا مارا تو وہاں سے باقاعدہ پولیس پر فائرنگ کی گئی بالآخر پولیس بنگلے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تو وہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود تھا۔ نہ صرف اس واقعے نے بلکہ اس سے قبل اور بھی واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شہر میں لوگوں کے پاس کافی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے۔
پھر بات وہی ہے کہ اگر ہمارے متعلقہ ادارے اور پولیس اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیں تو غیر قانونی اسلحہ کہیں نظر نہ آئے اور شہر میں قتل و غارت گری اور ڈاکوؤں میں خاطر خواہ کمی واقع ہو۔ ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں امیرزادوں اور بااثر سرکاری عہدیداروں کے بگڑے ہوئے بچوں کی مشکوک سرگرمیاں سیکیورٹی کے لیے سخت خطرہ بن گئی ہیں۔
یہ بچے اپنے گارڈز کے ساتھ اپنے اسلحے سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ یہ نوجوان اکثر ڈانس پارٹیاں منعقد کرتے ہیں جن میں منشیات کا کھلے عام استعمال ہوتا ہے اس کے بعد یہ اپنے شور و غل سے علاقہ مکینوں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔
پھر یہ آپس میں الجھ بھی جاتے ہیں اور کبھی کبھی اسلحے کے استعمال تک نوبت پہنچ جاتی ہے ، ان کی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں، ان پارٹیوں میں لڑکیوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے بھی اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، مصطفیٰ عامر کے قتل کی وجہ بھی ایسی ہی ڈانس پارٹی میں اس کی ارمغان سے تکرار بتائی جاتی ہے۔
شہر میں منشیات کی ریل پیل ہے اور یہ نوجوانوں کو باآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ شہر کے کتنے خاندان ایسے ہیں جو اپنے منشیات زدہ بیٹوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ شہر میں منشیات زدہ نوجوانوں کی منشیات کی لعنت کو چھڑانے کے لیے دھڑا دھڑ نئے نئے ادارے قائم ہو رہے ہیں جو خدمت خلق کرنے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں مگر اصل میں وہ نہ صرف اس طرح دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہے ہیں بلکہ لگتا ہے وہی منشیات کے رجحان کو ہوا دینے میں مددگار بھی ہیں۔ اب تو پولیس بھی بعض سماجی تنظیموں سے مل کر منشیات زدہ نوجوانوں کے علاج میں مددگار بن رہی ہے۔
نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنا ہے تو پولیس منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ان کے بیچنے والوں کے خلاف سخت مہم چلائے ۔ ڈمپر مافیا اور غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کے لیے نہ صرف پولیس کو بلکہ متعلقہ اداروں کو بھی اپنی ذمے داریاں ایمان داری سے ادا کرنا ہوں گی۔ اس شورش زدہ شہر کو امن کی سخت ضرورت ہے مگر حکومت بھی تو لگتا ہے سوئی ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈمپر مافیا کی وجہ سے اسلحے کی رہے ہیں کے لیے دیا ہے
پڑھیں:
پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا نیا باب، 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع
پاکستان نے تقریباً 2 دہائیوں بعد ہونے والے پہلے بولی کے عمل میں 23 آف شور تیل و گیس کی تلاش کے بلاکس 4 مختلف کنسورشیمز کو الاٹ کر دیے ہیں۔
مقامی توانائی کمپنیوں کی قیادت میں قائم کیے گئے ان کنسورشیمز میں سے بعض نےغیر ملکی اداروں، خصوصاً سرکاری ترک کمپنی ٹی پی اے او کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں آف شور تیل و گیس کی تلاش، معیشت کے لیے گیم چینجر قرار
مجموعی طور پر 40 آف شور بلاکس میں سے 23 کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئیں، جو تقریباً 53 ہزار 500 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہیں۔
Pakistan awards first offshore oil exploration blocks for decades
-First offshore bidding round since 2007 draws 23 block awards
-4 local-led consortiums win exploration rights
-Turkish national oil company TPAO among foreign partnershttps://t.co/7nmDDeAN0J
— Ariba Shahid (@AribaShahid) October 31, 2025
وزارتِ توانائی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، کامیاب کمپنیوں میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، ماری انرجیز اور پرائم انرجی شامل ہیں۔
وزارت کے مطابق، ترک کمپنی ٹی پی اے او نے ایک بلاک میں 25 فیصد حصص اور اس کی آپریٹنگ ذمہ داری حاصل کی ہے۔
یہ شراکت اس سال کے اوائل میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے ساتھ مشترکہ بولی کے معاہدے کے تحت طے پائی تھی، جس کا مقصد پاکستان کے سمندری توانائی وسائل کی تلاش ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت، یومیہ کتنے بیرل تیل حاصل ہوگا؟
دیگر بین الاقوامی شراکت داروں میں ہانگ کانگ کی یونائیٹڈ انرجی گروپ، اورینٹ پیٹرولیم اور فاطمہ پیٹرولیم شامل ہیں۔
چاروں کامیاب کنسورشیمز نے ابتدائی 3 سالہ مدت کے دوران تقریباً 8 کروڑ ڈالر کی لاگت سے ایکسپلوریشن سرگرمیاں انجام دینے کا وعدہ کیا ہے۔
وزارت توانائی کے مطابق، اگر ڈرلنگ کے مراحل آگے بڑھے تو کل سرمایہ کاری 75 کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:پاکستان اور امریکا کے درمیان ٹیرف معاہدہ طے پا گیا، وزیرِ خزانہ کا خیر مقدم
تقریباً 3 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط اور عمان، متحدہ عرب امارات اور ایران کی سرحدوں سے جڑا پاکستان کا آف شور زون 1947 سے اب تک صرف 18 کنوؤں کی کھدائی کا مشاہدہ کر چکا ہے۔
تاہم یہ سب اس کے ممکنہ تیل و گیس ذخائر کا مکمل اندازہ لگانے کے لیے ناکافی ہے۔
پاکستان اپنی خام تیل کی ضروریات کا تقریباً نصف حصہ درآمد کرتا ہے اور 2019 میں کیکڑا ون منصوبے کی ناکامی کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی تھی۔
تاہم، موجودہ اقدامات کو ماہرین توانائی کے شعبے میں نئی روح پھونکنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آف شور اورینٹ پٰیٹرولیم ایران بلاکس پاکستان تیل و گیس ڈرلنگ سرمایہ کاری عمان فاطمہ پیٹرولیم کنسورشیمز کیکڑا ون متحدہ عرب امارات ہانگ کانگ یونائیٹڈ انرجی گروپ