Jasarat News:
2025-04-26@02:22:48 GMT

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟

جاوید احمد غامدی اس حد تک مغرب سے مرعوب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی مغرب کے رنگ میں رنگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب مسلمانوں سے خدا اور مذہب کے انکار کے لیے تو نہیں کہتے مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہمیں ترقی یافتہ مغرب کی تقلید کرنی چاہیے۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں چنانچہ وہ بھی اپنے کالموں میں مغرب زدگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ چین بدل گیا، جاپان بدل گیا مگر مسلمان اب تک خلافت کے احیا کے تصور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں بنیادی سوال یہ اُٹھایا ہے کہ مسلم فکری دھارا باقی دنیا کے فکری دھارے سے مختلف کیوں ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مادی و دنیاوی ترقی کے باب میں مسلمانوں کا عمومی زاویۂ نظر دیگر اقوام سے مختلف کیوں ہے؟

گزشتہ تین صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے اور ان اقوام کے احوال کو دیکھیے جن کے عروج و زوال سے دنیا کی تاریخ عبارت ہے۔ ان اقوام کے فکری اختلافات کے باوصف ان کے احوال میں یکسانیت ہے۔ انہوں نے اگر مادی ترقی کی ہے تو ان کی حکمت ِ عملی ایک رہی ہے۔ یہ حکمت ِ عملی اس زمین پر جاری قوانین ِ فطرت سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جن اقوام نے ایک مرحلے پر قدرے مختلف زاویۂ نظر اپنایا انہوں نے بھی تجربات سے سیکھتے ہوئے خود کو اس نظامِ فطرت سے ہمنوا بنا لیا۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں ہمیں دو بڑے فکری دھارے دکھائی دیے۔ اشترکیت اور سرمایہ داری۔ دونوں میں بحث ومباحثہ جاری رہا۔ دونوں نے دو مختلف نظام ہائے فکر کو اپنایا۔ دونوں میں کشمکش رہی جو سر مایہ دارانہ نظام کی فتح پر منتج ہوئی۔ اس سے اشتراکی قوتوں نے سیکھا اور اس طرزِ عمل کو اپنایا جو سرمایہ داری کی کامیابی کا سبب بنا تھا۔ حال ہی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے باب میں امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ یہ دراصل اْنہی خطوط پر پیش قدمی ہے جن پر امریکا آگے بڑھا۔ چین نے امریکا کو کھلی منڈی کی تجارت میں بھی ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ چین یا روس کے نظامِ فکر میں اس تصورِ معیشت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ چین نے لیکن اس کو اپنا لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکا اس سے جان چھڑا رہا ہے اور چین اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

اس کے برخلاف ہمیں مسلم دنیا میں سوچ و فکر کی کوئی ایسی لہر اٹھتی دکھائی نہیں دی جو فطرت میں کارفرما ان اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ ترکی کے استثنا کے ساتھ تمام تر مسلم ذہانت ماضی پرست رہی اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی نفسیات میں جیتی رہی۔ اس نے اگر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کیا تو وہ تھا ماضی کی بازیافت۔ یہی کہا گیا کہ مسلمانوں کو خلافت کا احیا کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ کہیں یہ ادراک موجود نہیں تھا کہ دنیا بدل گئی ہے اور اب ماضی کی طرف لوٹنا ممکن نہیں۔ عالمی سطح پر اقتدار صرف مسلمانوں کا نہیں‘ برطانیہ جیسی سلطنت کا بھی ختم ہو رہا تھا لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی تحریک نہیں اُٹھی کہ اسے دوبارہ عظیم تر (Great Britain) بنایا جائے یا دنیا کو ایک بار پھر فتح کیا جائے۔ ماضی کی عالمی طاقتوں نے اگر یہ چاہا بھی کہ دنیا میں ان کا تسلط برقرار رہے تو انہوں نے نئے طریقے ایجاد کیے۔ جیسے اقوامِ متحدہ اور اس میں ویٹو پاور۔

مسلمانوں میں جو مفکر اٹھا اس نے سیاسی احیا اور عالمی خلافت کی بحالی کا حل پیش کیا۔ جمال الدین افغانی ہوں یا برصغیر کے مفکرین‘ سب اسی نظامِ فکر کے ساتھ سوچتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ضروری نہیں سمجھا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام کے احوال ہی پر ایک نظر ڈالیں اور ان کے منہج کو سمجھیں۔ اس فکر میں یہ غلط فہمی کہیں سے در آئی کہ ہم ترکیب میں خاص ہیں اور ہمارے لیے قدرت نے ترقی کا ایک مختلف راستہ منتخب کر رکھا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا مگر ہماری اجتماعی سوچ آج بھی اسی نظامِ فکر کی اسیر ہے۔ وہی خلافت کا احیا۔ وہی جہاد بالسیف۔ وہی موت کو گلیمرائز کرنا۔ کشمیر ہو یا فلسطین‘ آج بھی موت پر خوشی منائی جاتی ہے اور مرنے کو کارنامہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 4 فروری 2025ء)

اقبال نے کہا تھا
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان صرف اقوامِ مغرب ہی سے مختلف نہیں ہیں بلکہ اس وقت مسلمان روئے زمین پر موجود ہر قوم سے مختلف ہیں۔ عیسائی خدا اور مغرب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک ایجاد کرلیا ہے۔ ہندو بھی خدا اور مذہب کو تسلیم کرتے ہیں مگر انہوں نے خدا کی ذات سے اس کی صفات کو الگ کرکے ایک سطح پر تین اور دوسرے سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کرلیے۔ ہندو کہتے ہیں کہ برہما ہے جس نے کائنات بنائی ہے، وِشنو ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے اور شِو ہے جو بالآخر کائنات کو ختم کرے گا۔ یہودی بھی خدا اور مذہب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے بھی سیدنا عزیرؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک کا ارتکاب کرلیا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر صرف مسلمان ہیں جن کے پاس ’’خالص توحید‘‘ موجود ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کو بالآکر ایک خدا کے تصور کی جانب لوٹنا ہے تو پوری انسانیت کے لیے صرف مسلمان ہی توحید تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں گے۔ باقی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ تو خدا ہی کو نہیں مانتی۔ بدھ ازم میں خدا کا تصور بہت مبہم ہے۔ چینی اپنے روایتی مذہب تائو ازم اور کنفیوشزم کو عرصہ ہوا ترک کربیٹھے۔ بلاشبہ مسلمانوں کو رسول اکرمؐ سے بے پناہ عقیدت ہے مگر مسلمان انہیں صرف ’’خدا کا رسول‘‘ اور ’’خدا کا بندہ‘‘ ہی مانتے ہیں۔ مسلمان رسول اللہؐ سے کسی الوہیت کو وابستہ نہیں کرتے۔ اس کے باوجود کہ آپ کو معراج کے لیے طلب کیا گیا اور آپ خدا سے براہِ راست ہم کلام ہوئے۔ چونکہ مسلمان باقی دنیا سے مختلف ہیں اس لیے ان کا فکری دھارا بھی باقی دنیا سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان صرف الٰہیات یا ontology کے دائرے میں ہی باقی اقوام سے مختلف نہیں ان کا تصور انسان بھی کم از کم جدید مغرب سے یکسر مختلف ہے۔

مسلمانوں کے لیے انسان روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ مسلمانوں کے لیے روح ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ البتہ نفس اور جسم موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جدید مغربی اقوام روح کے وجود کی قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو صرف مادی وجود سمجھتی ہیں۔ مغرب نے علم نفسیات میں بڑی ترقی کی ہے۔ فرائڈ، ژنگ اور ایڈلر کی نفسیات کا پوری دنیا میں چرچا ہے مگر مغرب کا علم نفسیات نفس کو جبلتوں کے ایک مجموعے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا ’’تصورِ نفس‘‘ غیر معمولی ہے۔ ہمارے صوفیا نے نفس کے سات درجے بیان کیے ہیں۔ نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ، نفسِ ملہمہ، نفسِ راضیہ، نفسِ مرضیہ اور نفس مطلقہ۔ ہم اپنی کئی تحریروں میں نفس کے ان تصورات کے معنی بیان کرچکے اس لیے ہم یہاں نفس کے ان تصورات کی وضاحت نہیں کریں گے لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مسلمانوں کا تصورِ نفس پورے مغرب کے نفسیاتی علم پر بھاری ہے۔

مسلمانوں کا فکری دھارا اس لیے بھی پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا سے مختلف ہے کہ مسلمانوں کا تصور علم بھی مغرب سے مختلف ہے۔ مسلمانوں میں گزشتہ صدیوں کے دوران سیکڑوں خامیاں در آئی ہیں مگر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ابھی تک علم وحی کو سب سے برتر اور حتمی علم سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن و حدیث ہی مسلمانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے وحی کی روشنی سے محروم عقل کو اپنا رہنما بنایا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس عقل کا پیدا کردہ فلسفہ مغرب کا رہنما تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ اس عقل کی پیدا کردہ سائنس مغرب کی رہنما ہے۔ اس سائنس کے علم کی دو بنیادیں ہیں۔ ’’سائنسی مشاہدہ‘‘ اور ’’سائنسی تجربہ‘‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے نہ خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے، نہ فرشتوں کا، نہ جنت دوزخ کا، نہ خیر کا نہ شر کا۔ چنانچہ مغرب خدا کا بھی منکر ہے، وحی کا بھی منکر ہے، فرشتوں کا بھی منکر ہے، جنت و دوزخ کا بھی منکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسے مغرب کی تقلید کریں تو کیسے اور اس سے الگ فکری دھارا نہ بنائیں تو کیوں نہ بنائیں۔

یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مسلمانوں اور مغرب کا تصور تخلیق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا نے کُن کہہ کر پوری کائنات کو خلق کیا۔ اس کے برعکس مغرب کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کسی نے خلق نہیں کی۔ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسان کو انسان ہی پیدا کیا۔ اس کے برعکس جدید مغرب ڈارون کے تصور ارتقا کے تحت انسان کو بندر کی اولاد سمجھتا ہے۔ ان امتیازات کی وجہ سے بھی مسلمانوں کا فکری دھارا باقی دنیا بالخصوص جدید مغربی اقوام سے مختلف ہے۔

اسلام کے زیر اثر مسلمان معروضی اخلاق Objective Morality کے قائل ہیں۔ اس تصور کے تحت مذہب نے جو چیز حلال قرار دے دی وہ قیامت تک حلال ہے اور مذہب نے جس شے کو حرام کردیا وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ اس کے برعکس مغرب موضوعی اخلاق یا Subjective Morality کا قائل ہے۔ اس تصور کے تحت اخلاقی معیارات وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں عیسائی اخلاق کے تحت زنا حرام تھا مگر اب فریقین مرضی سے زنا کریں تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ یہاں تک کہ اب تو مغرب میں کروڑوں ہم جنس پرست جوڑے موجود ہیں اور مغرب ان کے تعلق کو ’’جائز‘‘ قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے امتیازی تصور اخلاق نے بھی مسلمانوں کے فکری دھارے کو مختلف بتانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جہاں تک خورشید ندیم کے اس نکتے کا تعلق ہے کہ مسلمان آج تک خلافت کے ادارے کے احیا کا خواب دیکھ رہے ہیں تو عرض ہے کہ مسلمان ایسا کسی ’’رومانس‘‘ کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں بلکہ خلافت کے احیا کا خیال مسلمانوں کے مقدس متن یا Sacred Text کا حصہ ہے۔ خدا نے قرآن میں خود کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا چاہے یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ جو لوگ قرآن پر نظر رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس آیت ِ مبارکہ میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر غلبے کی بشارت دی گئی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خورشید ندیم کی نظر سے آج تک وہ حدیث نہیں گزری جس میں رسول اکرمؐ نے خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی واپسی کی بشارت دی ہے۔ حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا عرصہ رہے گا۔ جب تک اللہ کی منشا ہوگی اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے خلافت کے احیا کے منتظر ہیں۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ ’’عہد زریں‘‘ کی واپسی کا خیال صرف مسلمانوں ہی میں موجود نہیں ہندوئوں کے مقدس Text کے مطابق بہترین زمانہ ست یُگ تھا۔ اس کے بعد ترتایُگ کا عہد تھا۔ اس کے بعد دوا پریُگ آیا اور آج کل ’’کل یُگ‘‘ چل رہا ہے لیکن دنیا ایک بار پھر بہترین زمانے یعنی ست یُگ کی جانب لوٹے گی۔ عیسائیوں میں یہ خیال موجود ہے کہ بہترین زمانہ سیدنا عیسیٰؑ کا تھا اور سیدنا عیسیٰؑ دوبارہ لوٹیں گے تو دنیا پھر بہترین زمانے میں داخل ہوگی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا بھی منکر ہے خدا اور مذہب ہے کہ مسلمان مسلمانوں کا مسلمانوں کے کہ مسلمانوں مسلمانوں کو ہوگی اور اس سے مختلف ہے اس کے برعکس باقی دنیا اس کے بعد انسان کو انہوں نے دنیا میں یہ ہے کہ مغرب کا کے احیا ہیں مگر کا تصور ہیں کہ خدا کا رہا ہے رہے گا کے تحت کے لیے ہے اور

پڑھیں:

مری کو مزید پانی نہیں دیا جائے گا، خیبرپختونخوا یہ فیصلہ کیوں کررہا ہے؟

پشاور(نیوز ڈیسک)خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحتی مقام گلیات سے مری کو پانی کی سپلائی میں مزید توسیع اور نئی پائپ لائن بچھانے کے عمل کو روک کر، 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی پر نظرِ ثانی کا عمل شروع کر دیا ہے۔

گلیات میں پانی کی شدید قلت، معاملہ کیسے اٹھا؟
خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن رجب علی عباسی نے گلیات میں پانی کی شدید قلت اور وہاں سے مری کو مفت پانی کی فراہمی کے معاملے کو اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیات کی مقامی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے، جبکہ ان کا پانی مفت میں مری کو دیا جا رہا ہے اور کوئی آبپاشی فیس (آبیانہ) وصول نہیں کی جا رہی، جو ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مری واٹر بورڈ مفت پانی حاصل کر کے مری کے صارفین سے فیس وصول کر رہا ہے، جبکہ گلیات کے مقامی افراد پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے غیر معمولی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔

نئی پائپ لائن بچھانے کا عمل روک دیا گیا
گلیات سے منتخب اراکین نے پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیا اور بتایا کہ گلیات ایک سیاحتی علاقہ ہے لیکن وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ گلیات سے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی نذر احمد عباسی نے بتایا کہ مری کو پانی کی سپلائی ان کے علاقے درویش آباد سے ہوتی ہے، لیکن اب وہاں کی مقامی آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت گلیات سے مری کو پانی کی فراہمی کے لیے مزید پائپ لائن بچھا رہی تھی، جسے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلیات میں گورنر ہاؤس کے قریب واٹر ٹینکس بنائے گئے ہیں، جہاں پانی کو ذخیرہ کرکے اپ لفٹ کیا جاتا ہے اور پھر ڈونگا گلی میں انگریز دور کے اسٹیل ٹینک میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے پانی مری کو بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپ لفٹ کا خرچہ بھی صوبائی حکومت برداشت کر رہی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے مری کے لیے نئی لائن بچھانے کے منصوبے کو روک دیا ہے۔ مزید برآں، اس پورے معاملے کو سیاحتی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ پانی کی تقسیم، اخراجات اور قانونی حیثیت پر جامع رپورٹ پیش کی جا سکے۔

سپریم کورٹ کا مقامی آبادی کے حق میں فیصلہ
رکن اسمبلی نذیر عباسی نے بتایا کہ اس معاملے پر مقامی لوگ سپریم کورٹ گئے اور کیس کیا۔ عدالت نے مقامی آبادی کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 سال قبل عدالت میں جو رائیلٹی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، وہ 40 سے 50 ارب روپے بنتا ہے۔ مری واٹر بورڈ کا مؤقف تھا کہ پانی کی فراہمی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی رائیلٹی طے ہوئی تھی۔

نذیر احمد عباسی نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مری واٹر بورڈ اس مفت پانی کو آگے بیچ کر پیسے کما رہا ہے، جبکہ جس علاقے سے پانی آ رہا ہے، وہاں کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور انہیں ان کا آئینی حق نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلیات کو رائیلٹی کی مد میں ادائیگی کی جائے تو اس سے پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے اور مقامی آبادی کو فراہمی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

معاملہ سیاحتی کمیٹی کے حوالے، پنجاب حکام کو بھی بلانے کی ہدایت
معاملے پر وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے بھی بات کی اور کہا کہ پنجاب صوبے کے وسائل کو استعمال تو کر رہا ہے لیکن رائیلٹی ادا نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی اور اس پر حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اراکین نے اسپیکر خیبر پختونخوا سے مری کو پانی کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کے لیے رولنگ دینے کی درخواست کی، جس پر اسپیکر نے کہا کہ عام شہریوں کو پینے کا پانی بند کرنا درست نہیں۔ جو توسیع ہو رہی تھی، اسے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملے کو اسمبلی کی سیاحتی کمیٹی کے سپرد کیا اور ہدایت دی کہ تمام متعلقہ حکام کو بلا کر پوچھ گچھ کی جائے اور پنجاب کے حکام کو بھی بلایا جائے۔

مری کو گلیات سے پانی کی فراہمی کب شروع ہوئی تھی؟
رکن اسمبلی اور گلیات کے رہائشی نذیر احمد عباسی کے مطابق، مری کو پانی کی فراہمی 1896 سے ہو رہی ہے۔ اس وقت گلیات میں پانی کی قلت نہیں تھی اور پانی لینے والے بااختیار اور طاقتور ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پانی کے بدلے نارتھ ویسٹ کو پنجاب سے گندم کوٹہ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ نذیر عباسی نے کہا کہ اس وقت سے مری کو پانی کی فراہمی جاری ہے۔

گلیات سے یومیہ مری کو کتنا پانی جاتا ہے؟
رکن اسمبلی نذیر عباسی کے مطابق، گلیات سے مری کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کی فراہمی جاری ہے اور یومیہ پانچ لاکھ گیلن پانی مری کو بھیجا جاتا ہے، جس سے مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یومیہ مفت پانی صوبائی حکومت کے خرچ پر مری کو سپلائی کرنا ناانصافی ہے اور حکومت اب اس پر باقاعدہ کام کر رہی ہے تاکہ مقامی آبادی کو انصاف اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی، جس کی روشنی میں معاملہ وفاق اور پنجاب کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور اگر بات نہ بنی تو پانی کی فراہمی بند بھی کی جا سکتی ہے۔

مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر انحصار
پنجاب کے مشہور مقام سیاحتی مری کا پانی کے لیے خیبر پختونخوا پر انحصار ہے۔ اور گلیات سے فراہم پانی کو ہوٹلز اور گھروں سپلائی کیا جاتا ہے۔ مری کے مقامی رہائشی نے بتایا کہ مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر ہے جبکہ 30 فیصد تک مقامی سطح ہر پانی دستیاب ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ خیبر پختونخو اگر پانی کی فراہمی بند کرتی ہے یا کم بھی کرتی ہے تو اس کا مری میں زندگی پر بہت زیادہ منفی اثر پڑے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو سیاحت کو نقصان پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • مری کو مزید پانی نہیں دیا جائے گا، خیبرپختونخوا یہ فیصلہ کیوں کررہا ہے؟
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • دورہ نیوزی لینڈ؛ تماشائیوں سے کیوں لڑے، خوشدل نے راز سے پردہ اٹھادیا
  • حکومتِ پاکستان اور یونیورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ کے مابین ”علامہ اقبال وزیٹنگ فیلوشپ” کے قیام کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • مکار ،خون آشام ریاست
  • سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، مولانا فضل الرحمان
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری