دنیا کے چھ ’’سوئنگ ‘‘ ممالک
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
حالیہ ماہ نومبر میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا۔انھوں نے جدہ، سعودی عرب اور ہیروشیما، جاپان میں تقریباً ایک ہفتہ گزارا۔ دورے کا مقصد برازیل، بھارت، انڈونیشیا اور سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنا تھا، وہ چار اہم ممالک جو یوکرائن ۔ روس کی جنگ میں کنارے پر بیٹھے ہیں۔ یہ اور عالمی جنوب(Global South) کے دوسرے سرکردہ ممالک آج پہلے سے کہیں زیادہ معاشی، سیاسی اور تزویراتی طاقت رکھتے ہیں۔
ان وسطی طاقتوں کے پاس آج دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ قوت ہے۔ یہ جغرافیائی سیاست(جیو پالیٹکس) میں نمایاں مقام رکھنے والے ممالک لیکن دنیا کی دو سپر پاورز یعنی امریکہ اور چین سے کم طاقتور ہیں۔ عالمی شمال میں ان میںجرمنی، فرانس، جاپان، روس، جنوبی کوریا اور دیگر شامل ہیں۔ روس کو چھوڑ کر یہ ممالک ہمیں طاقت اور فائدہ اٹھانے کی بدلتی حرکیات کے بارے میں زیادہ نہیں بتاتے کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر امریکا کے ساتھ جڑے ہیں۔
عالمی جنوب کی چھ سرکردہ درمیانی طاقتیں بھی اب اہم ہو چکیں : برازیل، بھارت، انڈونیشیا، سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ترکی۔ عالمی جنوب کے یہ ’’سوئنگ‘‘ (Swing) ممالک کسی سپر پاور کے ساتھ مکمل طور پر منسلک نہیں اور اس لیے نئی طاقت کی حرکیات پیدا کرنے میں آزاد ہیں۔ سبھی جی-20 کے رکن اور جیو پولیٹکس اور جیو اکنامکس، دونوں میں سرگرم ہیں۔ عالمی جنوب کے یہ چھ ممالک وسیع تر جغرافیائی سیاسی رجحانات کے لیے ایک اچھے بیرومیٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
ان چھ ریاستوں کی بڑھتی اہمیت کی دو وجوہ ہیں :اول طویل مدتی تاریخی پیش رفت اور دوم حالیہ عالمی رجحانات۔ سرد جنگ کے بعد کی پیش رفت نے ان طاقتوں کو بین الاقوامی تعلقات میں مزید قوت فراہم کی ہے۔ سرد جنگ نے مخالف بلاکس میں گہری خلیج پیدا کر دی تھی۔ سوویت یونین کو زوال آیا تو تقریباً تمام ممالک کو امریکا کا وفادار بننا پڑا۔ آج مگر چین اور امریکا کی دو قطبی حیثیت کمزور ہے۔اسی لیے تمام درمیانی طاقتوں کو نقل و حرکت کی زیادہ آزادی حاصل ہو گئی۔
دوم دنیا گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اہم طریقوں سے غیر گلوبلائز ہو رہی ہے۔ نتیجے میں علاقائی سطح پر نئے جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک تعلقات قائم ہو رہے ہیں۔ چھ سوئنگ ریاستیں علاقائی رہنما ہیں اور وہ زیادہ اہم ہو چکیں کیونکہ طاقت ان میں منتقل ہوئی ہے۔اب’’ قریبی ساحل‘‘ یا Near-Shoring (گھر کے قریب سپلائی چینز کی منتقلی) اور’’ دوست ساحل ‘‘یا Friend-Shoring ( مخالفین سے ہم خیال ممالک میں منتقلی) کے عمل آہستہ آہستہ کئی کمپنیوں اور تجارتی تعلقات کو چین سے دوسرے خطوں میں منتقل کر رہے ہیں۔
اس باعث عالمی جنوب کی کچھ سوئنگ ریاستیں علاقائی تجارت میں مزید مصروف مرکز بن جائیں گی۔ بھارت بہترین مثال ہے، کچھ امریکی فرمیں وہاں پروڈکشن قائم کر اور نئی سپلائی چینز لا رہی ہیں۔ توانائی کی منڈیاں زیادہ علاقائی بن رہی ہیں جس سے سعودی عرب کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح سعودی دارالحکومت ریاض ایک علاقائی مالیاتی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ دنیا بکھر رہی ہے اوراس بکھرتی ہوئی دنیا میں علاقائی درمیانی طاقتیں منطقی طور پر بڑھتا ہوا اہم کردار ادا کر یں گی۔
سرد جنگ کے دوران بھارت اور انڈونیشیا ابھی نوآبادیاتی حکمرانی سے نکلے تھے۔ اس نے ان کے عالمی کردار کو محدود کر دیا۔ آج مگر چھ سوئنگ ریاستیں مکمل طور پر خود مختار اداکار ہیں۔ لیکن وہ صرف نا وابستہ تحریک کا ایک نیا اوتار یا عالمی جنوب پر غلبہ رکھنے والے دیگر گروہ جیسے جی-77 اور برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) نہیں! یہ گروہ ایک دوسرے سے کچھ نظریاتی تعلق رکھتے ہیں، جو آج کی چھ سوئنگ ریاستوں میں نہیں پایا جاتا۔ نظریاتی وابستگی کی عدم موجودگی ان ریاستوں کو خارجہ پالیسی میں سخت لین دین کا طریق اختیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نتیجے میں بین الاقوامی معاملات پر ان کے مجموعی اثرات بڑھ جاتے ہیں۔
ان چھ ریاستوں کی طاقت حالیہ عالمی رجحانات سے بڑھی ہے۔ مثال کے طور پر چین اور امریکا کے درمیان جو معاشی اور کسی حد تک عسکری جنگ چھڑی ہے، اس سے انھیں فائدہ ہوا ۔ ہر سپر پاور چاہتی ہے کہ سوئنگ ریاستیں اس کے ساتھ صف بندی کریں۔ اسی لیے امریکا نے جاپان، بھارت ، آسٹریلیا وغیرہ کے ساتھ کواڈ (Quad) اور دیگر معاہدے کیے تاکہ چین کے خلاف محاذ بن سکے۔ معاہدوں میں شامل ہونے سے بھارت کی طاقت اور فائدے میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ۔اسی طرح چین اب اپنی اہم معدنیات مثلاً لیتھیم، نکل اور ایلومینیم امریکا اور اس کے حواریوں کو فروخت نہیں کرنا چاہتا۔ مگر اس اقدام سے برازیل اور انڈونیشیا کو مالی فائدہ ہو گا۔
ایک حالیہ رپورٹ کی رو سے اگرچہ چھ ریاستوں میں سے ہر ایک کسی خاص معاملے پر امریکا یا چین کی طرف جھک سکتا ہے، لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنی وفاداری میں متوازن رہتے ہیں۔اس لیے انھیں آزادی حاصل ہے کہ وہ دونوں سپر پاورز کے ساتھ حسب منشا کھیل سکیں۔تاہم ترقی و خوشحالی کا دارومدار جن ٹکنالوجیوں پر ہے، جیسے سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت، کوانٹم ٹیکنالوجی، 5 جی ٹیلی کمیونیکیشن اور بائیو ٹیکنالوجی، انھیں پانے کے لیے سوئنگ طاقتوں کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
یہ سوئنگ ریاستیں اپنی بڑی اور بڑھتی معیشتوں کے ساتھ بین الاقوامی موسمیاتی پالیسیوں سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ان ریاستوں کی شراکت کے بغیر آلودگی اور آب و ہوا کے اثرات کے چیلنجوں کا کوئی حل نہیں ہو سکتا۔ کاربن مارکیٹیں تیزی سے ان درمیانی طاقتوں کے لیے وسائل لائیں گی، قطع نظر اس کے کہ ان کے اخراج سے اصل اثر کچھ بھی ہو۔ جنگلات کی کٹائی اور رکازی ایندھن کا استعمال روکنے کے لیے بھی سوئنگ ریاستوں کی تعمیری شراکت ضروری ہے۔ یعنی برازیل اور انڈونیشیا جنگلات کی کٹائی روک دیں اور خاص طور پر بھارت کوئلے کے استعمال پر پابندی لگائے۔
ان چھ سوئنگ ریاستوں نے روس۔ یوکرین جنگ کے دوران امریکا اور یورپ کے پیچھے چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ جنگ صرف یورپیوں کو متاثر کرتی ہے نہ کہ عالمی سلامتی پر وار ہے۔ان کا کہنا ہے کہ روس سے تعلقات منقطع کرنے کا عمل ان کے قومی و معاشی مفادات سے متصادم ہے۔ یہی وجہ ہے ، روس کے ساتھ ان چھ ممالک کے تجارتی تعلقات نے امریکا و یورپ کی لگائی پابندیوں کو بے اثر بنا دیا۔ مثال کے طور پر ترکی نے روس کے ساتھ تجارت جاری رکھی۔اس باعث امریکا ترکی کی چار کمپنیوں پر پابندی لگا چکا ۔بھارت روس سے تیل خریدتا رہا۔غرض تمام چھ ملکوں نے جنگ کے بعد روس کے ساتھ تجارت اور دیگر تعلقات کو برقرار رکھا یا بڑھایا ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ روسی معیشت اس سال صفر اعشاریہ سات فیصد بڑھے گی۔گویا امریکا اور یورپی ممالک تمام تر کوششوں کے باوجود روس کی معیشت منجمند نہیں کر سکے۔ سوئنگ ریاستوں نے روس کو پابندیوں کے اثرات ختم کرنے میں مدد کی اور ایسا کرتی رہیں گی۔ یہ ایک وجہ ہے کہ کریملن کو لگتا ہے، وہ اپنی تجارت کو جنوب اور مشرق کی طرف موڑ کر روزی کما سکتا ہے۔
عالمی جنوب کی وسطی طاقتوں کی قوت میں اضافہ ثالثی کے اقدامات سے بھی واضح ہے۔ ترکی یوکرین کی جنگ میں واحد سب سے زیادہ بااثر بیرونی طاقت ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان اناج کے سودوں کے اہم مذاکرات کار رہے ۔جنگ کے آغاز میں امن مذاکرات میں شامل تھے۔ اور اگر متحارب فریقین ان کا انتخاب کریں تو مستقبل کے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ برازیل کے صدر لوئیز ا ڈا سلوا اور بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی جنگ بند کرانے کی کوششیں کیں۔ یہ ریاستیں اب دوسرے تنازعات میں بھی ثالثی کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کا قد خاص طور پر بلند ہوا ہے، کم از کم اس وجہ سے کہ وہ اقوام متحدہ کے فعال امن فوجیوں میں 8فیصد حصہ ڈال رہا ہے۔ انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ بھی ثالث اور امن دستوں کے طور پر سرگرم ہیں۔
یہ چھ سوئنگ ممالک تاہم مستقبل میں کچھ خطرات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا خطرہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ خبر ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے بالکل قریب ہے۔ تب سعودی عرب اور شاید ترکی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ، سعودیوں نے مبینہ طور پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بدلے میں دیگر رعایتوں کے علاوہ امریکہ سے ایٹمی ضمانتوں کا مطالبہ کیا تھا۔ ریاض خود تو ایٹم بم نہیں بنانا چاہتا مگر وہ ایٹمی چھتری کے ذریعے تحفظ پانے کا خواہش مند ہے۔
امریکا اور یورپ اس لیے ’’برکس ‘‘سے خوفزدہ ہے کہ چین اور روس مل کر اس تنظیم کو وسعت دے رہے ہیں۔ بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا پہلے ہی اس کا حصہ ہیں۔ ترکی ، سعودی عرب ،انڈونیشیا اورملائیشیا بھی اس میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ تاہم امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یقین ہے کہ بھارت ، ترکی اور دیگر ممالک ہر فیصلے پر راضی نہیں ہوں گے ، بلکہ ان کی خواہش ہو گی کہ امریکا اور یورپ سے تجارتی تعلقات قائم رکھے جائیں، چاہے اس غرض کے لیے کسی حد تک امریکی مفادات کو تحفظ دے دیا جائے۔’’برکس‘‘کی اہمیت کم کرنے کے لیے مجوزہ امریکی صدر ٹرمپ نے اس کے رکن ممالک کو دہمکی دی کہ اگر انھوں نے ڈالر میں تجارت ختم کی تو امریکا آنے والی ان کی اشیا پر سو فیصد ٹیرف (ٹیکس) لگا دیا جائے گا۔
امریکا و یورپ میں بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ چھ سوئنگ ریاستیں جیوپالیٹکس میں زیادہ قوت نہیں رکھتیں۔ یہ ابھی ابھرتی مارکیٹیں ہیں اور پھر وہاں قانون کی حکمرانی بھی کمزور ہے۔ تاہم بیشتر مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ ان چھ ریاستوں کی معاشی ، عسکری اور جیو پالیٹکل قوتوں میں اضافہ جاری رہے گا۔ لہذا امریکا و یورپ کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کو اپنے دائرہ کار میں رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔اس طرح دنیا پر امریکا کی حکمرانی قائم رہے گی اور چین و روس مل کر بھی امریکی قیادت کو کمزور نہیں کر سکیں گے۔
ماہرین عالمی سیاسات یہ امر بھی واضح کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات سے اگر امریکا اور چین وروس کی معاشی جنگ سنگین ہو گئی تو اس کے اثرات چھ طاقتور سوئنگ ریاستوں اور دیگر ممالک مثلاً پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ تب سابقہ سرد جنگ کی طرح ہر ملک کو واضح طور پہ ایک گروہ کا حصہ بننا پڑے گا۔ یہ بدلتی صورت حال سبھی وسطی قوتوں کو نئی پریشانیوں اور مشکلات کا شکار بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پہ پاکستان چین وروس سے تعلقات بڑھا رہا ہے مگر اس کی بیشتر برآمدات امریکا جاتی ہیں۔ لہذا دنیا میں نئی سرد جنگ نے جنم لیا تو کسی بھی ملک کے لیے غیر جانبدار رہنا بڑا کٹھن مرحلہ بن جائے گا، خاص طور پہ پاکستان کے لیے جو ایک ایٹمی طاقت ہے ، مگر کمزور معیشت کی بنا پر چھ سوئنگ ریاستوں کے مانند معاشی قوت نہیں رکھتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور یورپ سوئنگ ریاستوں کا کہنا ہے کہ ریاستوں کی عالمی جنوب کے طور پر اور دیگر امریکا ا چین اور کے ساتھ اور جیو کرنے کے کے لیے رہا ہے جنگ کے
پڑھیں:
صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے یہ خبر کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں کہ صرف 22 سال کی عمر میں تین دوستوں نے اپنی ذہانت، محنت اور ٹیکنالوجی کے شوق سے ارب پتی بننے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔
ان تینوں نے امریکی شہر سان فرانسسکو میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متعلق اپنی کمپنی Mercor کی بنیاد رکھی، جو چند ہی برسوں میں دنیا کی معروف اے آئی ریکروٹنگ کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔
فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق Mercor کے شریک بانی برینڈن فوڈی، آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ اب دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئرز بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کی عمر صرف 22 برس ہے، یعنی اس عمر میں جب زیادہ تر لوگ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ تینوں نوجوان اپنے خوابوں کی سلطنت قائم کر چکے ہیں۔
Mercor نے حال ہی میں 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جس کے بعد کمپنی کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کمپنی کی اس زبردست ترقی نے نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیران کیا بلکہ ان تینوں بانیوں کو براہِ راست ارب پتیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ کی دوستی سان فرانسسکو کے Bellarmine College Preparatory میں ہوئی تھی، جہاں دونوں نے تقریری مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سوریا کے والدین بھارت سے امریکا منتقل ہوئے تھے جب کہ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی۔ دوسری جانب آدرش تعلیم کے لیے بھارت سے امریکا گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ان دونوں کی ملاقات بعد میں برینڈن فوڈی سے اس وقت ہوئی جب آدرش ہارورڈ یونیورسٹی اور سوریا جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔ تینوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر Mercor کی بنیاد رکھی اور چند ہی برسوں میں اپنی محنت سے دنیا کو حیران کر دیا۔
انہیں معروف سرمایہ کار پیٹر تھیل نے اپنی فیلوشپ کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی، جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے عملی اختراع کی ترغیب دینا تھا۔ آدرش کے مطابق میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ قبل میں محض ایک طالب علم تھا اور آج میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
ان سے پہلے 27 سالہ پولی مارکیٹ کے بانی شین کوپلن دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئر قرار پائے تھے جب کہ اس سے قبل اسکین اے آئی کے بانی الیگزینڈر وانگ یہ اعزاز 18 ماہ تک سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی شریک بانی لوسی گیو 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سیلف میڈ خاتون ارب پتی بنی تھیں۔
کامیابیوں کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی اور جرات مندانہ فیصلے نوجوان نسل کے لیے دنیا کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔